پاکستان

قانون سازی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کو ساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیں، وزیر اعظم

آئین و قانون کے تحت عوام کے حقوق کے تحفظ اور فراہمی میں مقننہ کا اہم ترین کردار ہے، عمران خان

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت عوامی مفاد کے حوالے سے قانون سازی کے عمل میں دیگر پارلیمانی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔

وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق عمران خان سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ملاقات کی۔

ملاقات میں قومی اسمبلی میں عوامی فلاح و بہبود اور عوامی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے زیر غور قانون سازی اورمختلف اقدامات کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔

وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ آئین و قانون کے تحت عوام کے حقوق کے تحفظ اور فراہمی میں مقننہ کا اہم ترین کردار ہے، اس ضمن میں موجودہ قوانین میں جو بھی اصلاحات یا ترامیم درکار ہیں اس میں حکومتی اراکین بھرپور کردار ادا کرتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: دوسرے پارلیمانی سال میں حکومت کے آرڈیننس کی تعداد قانون سازی سے زیادہ

انہوں نے کہا کہ عوامی مفاد کے حوالے سے قانون سازی کے عمل میں دیگر پارلیمانی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ رواں ماہ ہی حکومت کو فنانشل ایکشن ٹاس فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق متعدد بلز منظور کرانے میں اپوزیشن کی مخالفت کے باعچ مشکل کا سامنا پڑا تھا، جس کے بعد ان بلز کی منظوری کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا راستہ اپنانا پڑا تھا جس میں حکومت نے واضح اکثریت سے سینیٹ سے مسترد ہونے والے ایف اے ٹی ایف سے متعلق تینوں بلز منظور کرا لیے، جبکہ اپوزیشن احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کر گئی تھی۔

اس سے قبل بھی قانون سازی کے حوالے سے مختلف مواقع پر حکومت کو اپوزیشن کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تین بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج

خیال رہے کہ 12 اگست کو اختتام پذیر ہونے والے دوسرے پارلیمانی سال کے دوران حکومت کے نافذ کردہ آرڈیننس کی تعداد قومی اسمبلی سے منظور شدہ قوانین کی تعداد سے تجاوز کر گئی تھی، جو نہ صرف قانون سازی کے تناظر میں بلکہ اسمبلی کی کارروائی اور وزیراعظم کی حاضری کے حوالے سے ملک کی اعلیٰ مقننہ کی مایوس کن کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔

سرکاری ڈیٹا کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی سخت تنقید کے باوجود قانون سازی کے لیے زیادہ تر آرڈیننس کا سہارا لیا اور گزشتہ پارلیمانی سال میں نافذ کیے گئے 7 آرڈیننس کے مقابلے میں دوسرے پارلیمانی سال کے دوران 31 آرڈیننس جاری کیے۔