پاکستان

صحت انصاف کارڈ کا نام تبدیل کرنے، پی ٹی آئی کا پرچم ہٹانے کا فیصلہ

پارلیمانی کمیٹی نے صحت انصاف کارڈ پر پی ٹی آئی کے جھنڈے اور نام یعنی لفظ انصاف کے استعمال پر اعتراض کیا تھا، رپورٹ

اسلام آباد: حکومت نے صحت انصاف کارڈ پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جھنڈے کی جگہ قومی پرچم اور کارڈ کا نام تبدیل کر کے 'قومی صحت کارڈ' کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بظاہر عدالت سے مخالفانہ فیصلے سے بچنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت صحت کے ترجمان ساجد شاہ نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا کہ وزیراعظم عوامی پیسے سے خود نمائی کے خلاف ہیں۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں عمران خان سرکاری اشتہارات میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی تصاویر پر نہ صرف تنقید کرتے تھے بلکہ سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی تھی جس کے باعث اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو قومی خزانے میں 50 لاکھ روپے جمع کروانے پڑے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: صحت کارڈ کے اجرا سے ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی، وزیراعظم

بعدازاں جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو ایک پارلیمانی کمیٹی نے صحت انصاف کارڈ پر پی ٹی آئی کے پرچم اور نام (انصاف) کے استعمال پر اعتراض کیا، بعدازاں حکومت کے جاری کردہ صحت کارڈ پر حکمراں جماعت کے نام اور پرچم کے استعمال پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

وزارت صحت کے جاری کردہ بیان کے مطابق حکومت نے صحت کارڈ کا نام اور ڈیزائن تبدیل کرنے کے لیے ایک اہم اور انقلابی اقدام اٹھایا ہے۔

صحت کارڈ کا نیا نام 'قومی صحت کارڈ' ہوگا جبکہ اس کا ڈیزائن پاکستان اور اس کے عوام کی عکاسی کرے گا، یہ نیا کارڈ تمام موجودہ کارڈز کے ایکسپائر ہونے کے بعد ان کی جگہ لے گا۔

قومی صحت کارڈ منصوبہ نہ صرف سب سے بڑا سماجی تحفظِ صحت کا منصوبہ ہے بلکہ مالی رکاوٹوں کے بغیر معیاری صحت کی سہولیات تک رسائی کے لحاظ سے گیم چینجر بھی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے صحت انصاف کارڈ کا اجرا کردیا

اس پروگرام میں اندراج رکھنے والے افراد قومی صحت کارڈ کے ذریعے پاکستان بھر میں پینل پر موجود ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔

وزارت صحت کے ترجمان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروگرام 84 لاکھ خاندانوں کو سہولیات فراہم کررہا ہے اور ملک بھر میں ایک کروڑ 25 لاکھ خاندانوں تک پہنچنے کا ہدف ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق نگرانی کا ایک سخت طریقہ کار ہے جو اس سے مستفید ہونے والوں کے فیڈ بیک کے ذریعے منظم رکھا جاتا ہے اور پینل پر موجود ہسپتالوں کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات کے حوالے سے اطمینان کی شرح 97 فیصد ہے۔

پیپلز پارٹی کے پی ایم ڈی سی کے خاتمے پر سوالات

دوسری جانب سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن نے وزارت صحت سے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) سابق پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی عمارت سیل کیے جانے سے متعلق سوالات کیے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ایم ڈی سی کی عمارت سیل، ملازمین کو کام سے روک دیا گیا

انہوں نے کہا کہ 'یہ حیرت کی بات ہے کہ کس طرح نجی ڈینٹل اداروں کو فیس مقرر کرنے اور داخلوں کے لا محدود اختیارات دے دیے گئے ہیں اور اب مرکزی داخلہ پالیسی غیر مؤثر ہوجائے گی'۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ 'یہ نہ بھولیں کہ جس طرح پی ایم ڈی سی کو تحلیل کیاگیا ہے وہ سب سے پہلے غیر آئینی ہے، گزشتہ برس اسے اکثریت نے مسترد کردیا تھا اور قرار داد مسترد ہونے کے بعد فوری طور پر آرڈننس پیش کردیا گیا تھا'۔

انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ اس مکمل ناکامی میں پاکستانی میڈیکل کالجز بین الاقوامی سرٹیفکیشن کھو دیں گے، ناقص نظام کو درست کرنے کی ذمہ داری اور کنٹرول حاصل کرنے کے بجائے وفاقی حکومت اس کے بالکل برعکس کررہی ہے۔