پاکستان کو سارک اجلاس میں 'مصنوعی رکاوٹوں' کے خاتمے کی امید ہے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 'جلد از جلد' اسلام آباد میں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون ایسوسی ایشن (سارک) کے 19ویں سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے پاکستان کی رضا مندی کا اعادہ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس کے راستے میں پیدا کی جانے والی 'مصنوعی رکاوٹیں' دور ہوجائیں گی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس کے موقع پر سارک کونسل برائے وزرا کے ورچوئل غیر رسمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے خطے کو درپیش متعدد چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سارک کے پلیٹ فارم کے ذریعے ایک علاقائی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا، ان چیلنجز میں کورونا وائرس جیسا وبائی مرض بھی شامل ہے۔
اسلام آباد نومبر 2016 میں علاقائی بلاک کے 19ویں سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا تھا تاہم اس موقع پر بھارت نے خطے میں سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں اور داخلی امور میں بڑھتی مداخلت کے بہانے سے اجلاس سے دستبرداری کرکے اس کے منسوخ ہونے کے لیے مجبور کردیا۔
اس کے بعد اس کے علاقائی اتحادی بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان نے بھی اس کے ساتھ شمولیت اختیار کرلی تھی اور ان سب ہی نے پاکستان پر تنقید میں دہشت گردی اور بیرونی مداخلت کے خدشات کا حوالہ بھی دیا تھا۔
ورچوئل انڈین ویٹو کی وجہ سے پاکستان چوتھے سال بھی اس تقریب کا انعقاد نہیں کرسکا۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے، وزیر خارجہ
واضح رہے کہ سارک سربراہ اجلاس کے انعقاد کے لیے تمام ممبر ممالک کی شرکت لازمی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے اجلاس کو بتایا کہ 'علاقائیت کی روح اور سارک پلیٹ فارم سے پاکستان کی وابستگی کے مطابق میں جلد از جلد اسلام آباد میں 19ویں سارک سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے پاکستان کی رضا مندی کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں، ہم امید کرتے ہیں کہ اس کی راہ میں پیدا کی گئی مصنوعی رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا اور سارک، علاقائی تعاون کے ایک موثر ذریعہ کے طور پر کام کرنے کے قابل ہو جائے گا'۔
وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سارک خود مختاری اور برابری کے اصول پر زور دیتا ہے جو بامقصد علاقائی تعاون کی بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان اس اہم تنظیم کی کامیابی کے لیے متحرک کردار ادا کرتا رہے گا'۔
شاہ محمود قریشی نے نشاندہی کی کہ کورونا وائرس کے معاشی اثرات نے '1930 کی دہائی کے بعد سے بدترین معاشی بحران' پیدا کیا ہے جس کا معیشتوں اور اقوام پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان 'اسمارٹ' لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ جانچ، سراغ اور قرنطینہ کے ساتھ 'وائرس پر قابو پانے اور اس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'زندگی اور معاش کے درمیان توازن تلاش کرنے میں ہماری کوششیں وبائی بیماری کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں، جبکہ حکومت نے وزیر اعظم کے 8 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کے ذریعے معاشرے کے کمزور طبقات کو مدد فراہم کی ہے'۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'اگرچہ پاکستان نے اپنی حدود میں وبائی بیماری پر قابو پالیا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے اور جنوبی ایشیا کے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ایک علاقائی نقطہ نظر کی ضرورت ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے وبائی مرض سے لڑنے کے لیے علاقائی ردعمل کے لیے اپریل میں سارک وزرا صحت کی ویڈیو کانفرنس کی میزبانی کی تھی اور رکن ممالک کو ایک دوسرے کی کامیابیوں اور تجربات سے سیکھنے کا موقع فراہم کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی عالمی رہنماؤں سے 'قرض سے نجات کے لیے عالمی اقدام کی اپیل چیلنج سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی فوری ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی'۔
وزیر نے کہا کہ وبائی بیماری، غذائی عدم تحفظ، ٹڈیوں کے حملے اور موسمیاتی تبدیلی سمیت جنوبی ایشیا کے مشترکہ چیلینجز کو ایک علاقائی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس کے لیے سارک کو 'ان چیلنجز پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں سامنے آنے والے ایسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ادارے بہتر طور پر تیار ہوسکیں'۔
'تنازع کا حل ترقی کے لیے ایک لازمی شرط'
گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران سارک کی مجموعی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ لوگوں کی زندگیوں پر بلاک کے اثرات 'تنظیم اور اس کے اداروں کی افقی ترقی کے باوجود ہماری اجتماعی توقعات پر قائم نہیں رہے'۔
یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر و فلسطین اقوام متحدہ میں سب سے نمایاں دو تنازعات ہیں، وزیر خارجہ
ان کا کہنا تھا کہ 'کوششوں کو نتیجے پر مبنی اور زیادہ سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی و علاقائی تنظیموں کے تعاون کے ساتھ ہونے کی ضرورت ہے'۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان، مبصرین ممالک کے 'مبصر' کی حیثیت کو 'ڈائیلاگ شراکت دار' کی حیثیت تک بڑھانے کے نظریے کی حمایت کرتا ہے جو سارک ممالک کے ساتھ سرگرم عمل ہیں اور علاقائی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس تناظر میں ہم اقوام متحدہ کے منشور پر دیانتداری کے ساتھ عمل کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیتے ہیں'۔
انہوں نے سارک سے مطالبہ کیا کہ 'اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازع علاقوں کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے کسی بھی یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کی سخت مذمت اور مخالفت کرے'۔