نقطہ نظر

افسانہ: پاگل پن کا قانون

جو لوگ پاگل ہونے سے رہ گئے تھے اس خوف کا بھی شکار تھے کہ مکمل پاگل پن کی صورت میں وہ اپنے روزمرہ کے امور کیسے سرانجام دیں گے؟

اس ملک میں پاگل پن کی وبا پوری طرح پھیل چکی تھی، لوگ چلتے پھرتے عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتے تھے لیکن حکام یہ ماننے سے ابھی تک انکاری تھے کہ ملک میں پاگل پن کے مریضوں کی تعداد میں کوئی خاص اضافہ ہوا ہے۔

وہ ہر روز یہ بیان جاری کرتے کہ سب کچھ بالکل نارمل ہے اور لوگوں کو کسی بھی صورت ان افواہوں پر کان نہیں دھرنا چاہیے، لیکن جس ہفتے لوگوں کے گھروں میں پتھر پھینکے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا تو لوگوں کو تشویش ہوئی۔ وہ صبح سویرے جاگتے تو صحن میں پتھروں کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔

لوگ تھیلوں میں پتھر بھر بھر کر انہیں گھروں سے دُور ویرانوں میں پھینک آتے اور وہ ایسا ہر روز کرتے لیکن ویرانوں میں پتھروں کے ڈھیر میں ذرا برابر بھی اضافہ نہ ہوتا اور انہیں یوں محسوس ہوتا جیسے وہ ساری عمر بھی پتھر ڈھو ڈھو کر یہاں ڈالتے رہیں تب بھی وہ کوئی خاص اضافہ نہ کرسکیں گے۔

ایک روز ایک سبزی فروش جو لوگوں کو خراب سبزیاں اور پھل بیچا کرتا تھا، دکان پر بیٹھے بیٹھے پاگل ہوگیا۔ اس نے سر پر ٹماٹروں کی ٹوکری بھر کر رکھی اور بازار میں دوڑتے ہوئے ہجوم پر ٹماٹر پھینکنے لگا۔ چند لوگ اسے پکڑ کر پاگل خانے لے آئے جہاں پہلے ہی ایک ہجوم اپنے اپنے پاگلوں کو جمع کروانے کے لیے قطار بنائے کھڑا تھا۔

مزید پڑھیے: افسانہ: طوفان کی دستک

پاگل خانے کی انتظامیہ نے جگہ جگہ بورڈ نصب کر رکھے تھے کہ عمارت میں اب مزید پاگلوں کو جمع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے سو اپنے اپنے گھروں میں چھوٹے چھوٹے پاگل خانے بنائے جائیں۔ شہر کے ہر پاگل خانے نے حکومت کو عمارتوں کو وسعت دینے اور مزید عملہ رکھنے کی درخواست دے رکھی تھی لیکن ملکی سربراہ کا ابھی بھی یہی مؤقف تھا کہ ایسی کسی وبا کا سرے سے کوئی وجود ہے ہی نہیں۔

دارالحکومت کے سب سے بڑے پاگل خانے کا انچارج ایک روز پاگلوں کے اندراج کا رجسٹر دیکھتے دیکھتے پاگل ہوگیا اور اس نے رجسٹر میں خود اپنا نام درج کیا اور ماتحت سے کہا کہ وہ فوراً اس کے لیے مریضوں کے پہننے کا لباس لائے تاکہ وہ اسے پہن کر کمرہ نمبر 119 میں منتقل ہوسکے۔ یہ اس عمارت کا آخری کمرہ تھا جو اب تک کسی بھی پاگل کو الاٹ نہیں کیا گیا تھا۔ شاید وہ اس ڈر کی وجہ سے پاگل ہوگیا تھا کہ اگر اس نے ایک لمحے کی تاخیر کی تو یہ کمرہ بھی اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور کیا خبر اسے بھی ان پاگلوں کی طرح دیواروں پر منتقل کیا جائے جو دن رات وہاں بیٹھے ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں۔

اس ملک کے بہت سے نوجوان اسکولوں، کالجوں اور دفاتر میں جانے کی بجائے سارا سارا دن گلیوں میں پھرا کرتے تھے، یا پھر وہ بازاروں اور چوکوں میں بیٹھ کر مرغوں کی لڑائی کراتے رہتے، یہاں تک کہ سورج ڈوب جاتا اور وہ ’ہاہُو‘ کی بے ہنگم آوازیں نکالتے ویرانوں کا رُخ کرلیتے۔ ایسے وقت میں تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں بحال رکھنا مشکل امر تھا، لیکن اساتذہ کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح وہ طلبہ کو اس پاگل پن سے بچالیں، اور مقصد اس کے لیے وہ صبح سویرے انہیں میدان میں کھڑا کرکے گہرا لمبا سانس لینے اور اس پر توجہ مرکوز کرنے کی مشق کراتے۔

ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ طلبہ کو اس وبا سے بچاسکتے ہیں لیکن ملک کے بہت سے اداروں سے یہ خبریں تواتر سے سننے کو ملی تھیں کہ دورانِ مشق ہی کچھ طلبہ اپنا گریبان چاک کرتے ہوئے دیواریں پھلانگ جاتے ہیں۔

اساتذہ حتمی طور پر یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس پاگل پن کی وجہ کیا ہے لیکن جس طرح نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار جیسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں بالکل ایسے ہی پاگل پن کی وبا ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی لیکن ملک چلانے والے حکام یکسر یہ ماننے سے انکاری تھی اور وہ باقاعدہ تشہیری مہم چلارہے تھے جس میں عوام میں یہ آگاہی پھیلائی جا رہی تھی کہ وہ کسی بھی طرح اس پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔ لوگوں پر اس تشہیری مہم کا اثر تو یقیناً پڑرہا تھا لیکن پھر ایک صبح کسی نہ کسی کا کوئی قریبی عزیز اس وبا کی لپیٹ میں آجاتا۔

پاگل پن کی ابتدائی علامات مختلف لوگوں پر بہت مختلف انداز میں وارد ہوئی تھیں۔ جیسا کہ ایک سبزی فروش کا قصہ بیان کیا جاچکا ہے، اسی طرح ایک آدمی جو بینک میں اچھی خاصی نوکری کررہا تھا، صبح دفتر آتے ہی نہ صرف استعفٰی دے دیتا ہے بلکہ بینک منیجر کو ٹائی سے گھسیٹتا ہوا عمارت سے باہر لے جا رہا ہوتا ہے کہ اچانک سیکیورٹی گارڈ کی نظر پڑجاتی ہے۔

اس نوجوان کو جب پاگل خانے میں داخل کرایا گیا تو وہاں کوئی بھی جگہ خالی نہیں تھی، سوائے ایک پرانے درخت کے جس کی شاخیں بہت چوڑی اور مضبوط تھیں۔ اگر وہ ایک بھی دن تاخیر سے پاگل ہوتا تو اسے یہ درخت بھی نہ ملتا اور وہ اس درزی کی طرح دیوار پر بیٹھا ہوتا جسے آج داخل کرایا گیا ہے۔ یہ درزی صبح اٹھا تو اپنے بیوی بچوں کو پہچاننے سے انکاری ہوگیا اور کہنے لگا کہ وہ ایک چوزہ ہے جسے رات بلی کھاگئی تھی لیکن وہ بڑی مشکلوں سے اس کا منہ کھول کر باہر نکل آیا ہے اور یہ کہ بلی اس کی اس حرکت سے بے حد ناراض ہے اور کسی بھی وقت آکر وہ اسے پھر نگل سکتی ہے، اسی لیے وہ رضائی سے باہر سر نہیں نکالے گا۔ اس درزی کو رضائی سمیت پاگل خانے کی دیوار پر منتقل کردیا گیا جو اچھی خاصی چوڑی تھی کہ وہاں ایک انسان گزر بسر کرسکے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: ’سوری! میں نے تمہارے بارے میں کبھی اس طرح سوچا ہی نہیں‘

جوں جوں واقعات میں اضافہ اور تیزی آتی جارہی تھی لوگ جوق در جوق ہسپتالوں کا رُخ کررہے تھے۔ وہ ڈاکٹروں سے بس یہی پوچھتے کہ کس دوا یا مشق سے وہ اس وبا سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

حکومتی حکم نامے کے مطابق ہسپتالوں میں بھی جگہ جگہ یہ اشتہار آویزاں تھے کہ پاگل پن کی وبا ایک وہم ہے اور سب کچھ نارمل ہے۔ ڈاکٹروں کو خصوصی طور پر یہ تنبیہ کی گئی تھی کہ وہ عوام میں یہ شعور اجاگر کریں کہ وہ اس پاگل پن کو یکسر نظر اندار کردیں۔ ڈاکٹر لوگوں کو یہی بتاتے لیکن کہیں اندر ہی اندر وہ جانتے تھے کہ یہ سب کچھ وہم نہیں ہوسکتا۔ کچھ ڈاکٹر مریضوں کو یہ سب کچھ بتاتے بتاتے اسٹیتھو سکوپ اپنے سینے سے لگاکر دھڑکن سننے لگتے اور پھر اپنا سر میز سے ٹکرا کر خود کو زخمی کرلیتے۔

’لمبے سانس کی مشق کرو، اپنے خیالات کو اِدھر اُدھر جانے سے روکے رکو‘، شہر کی ہر چوک پر یہ اشتہار آویزاں تھا۔ سربراہِ مملکت عوام سے خطاب میں لوگوں کو کئی ایسے مشورے دیتا جن سے وہ اس وہم سے نکل سکتے تھے. لوگ ان مشوروں کو غور سے سنتے لیکن پھر جب وہ رات کو سو جاتے تو ان کے صحن پتھروں سے بھر جاتے۔

جب پاگل پن کی وبا کے پھیلاؤ کی شرح اتنی زیادہ ہوگئی کہ اسکولوں، کالجوں، دفتروں میں حاضریاں تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئیں اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں چھوٹے چھوٹے پاگل خانے بنا لیے تاکہ بوقتِ ضرورت وہ وہاں منتقل ہوسکیں، تو ایسے میں معاشی لحاظ سے مضبوط لوگوں کو فائدہ ہوا کہ انہوں نے اشیائے خور و نوش اور ادویات کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ حتٰی کہ غریبوں کے پاس سوائے گھاس اور درختوں کے پتے ذخیرہ کرنے کے کچھ نہ بچا اور انہوں نے اس خیال سے انہیں اپنے پاس سنبھال کر رکھا کہ کہیں وہ اس سے بھی محروم نہ کردیے جائیں۔

ایسی صورتحال میں جو لوگ پاگل ہونے سے رہ گئے تھے اس خوف کا بھی شکار تھے کہ مکمل پاگل پن کی صورت میں وہ اپنے روزمرہ کے امور کیسے سرانجام دیں گے؟ اگرچہ کہ وہ گھر پر ہی رہیں گے لیکن انہیں کیسے پتا چلے گا کہ یہ باورچی خانہ ہے اور یہ غسل خانہ۔ اسی طرح پانی، آٹا، گھی، چاول اور صابن وغیرہ کا استعمال پاگل پن کے دوران کیسے کرنا ہوگا؟

مزید پڑھیے: افسانہ: کھڑکی سے جھانکتی زندگی

انہوں نے گھر کی دیواروں پر اس طرح کی ساری معلومات بڑی بڑی کرکے لکھوا دیں لیکن اس کا چنداں فائدہ نہ ہوا کہ کچھ پاگل جو دیواروں پر مکمل معلومات درج کرچکے تھے، پاگل پن کے بعد لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوچکے تھے۔ وہ کتابیں کھولتے، لفظ پڑھتے لیکن ان کے معانی ان پر نہ کھلتے۔ وہ سارا سارا دن لفظ دہراتے رہتے لیکن معانی ان کے شعور پر دستک نہ دیتے۔

ایک روز ملک کا سربراہ نیند میں ہی پاگل پن کا شکار ہوجاتا ہے اور جاگنے پر وہ اپنی کابینہ کا اجلاس بلاتا ہے جس میں اکثریت اسی پاگل پن کا شکار تھی۔ وہ سب مل کر ایک ایسا قانون بناتے ہیں جس کے تحت لڑائی جھگڑا اور ملک کے اکثر عوام میں رائج اوٹ پٹانگ کی ساری حرکتوں کو قانونی تحفظ دے دیا جاتا ہے۔ پاگل خانوں سے سارے مریضوں کو آزادی کا پروانہ تھماکر قانون میں یہ شق بھی شامل کی گئی کہ پاگل خانے سے آزاد ہونے والا فرد اگر کوئی نئی انوکھی حرکت کرے گا تو اسے بھی قانون کا حصہ بنایا جائے گا اور اگر کوئی اس قانون سے ہٹ کر سوچتا یے یا عمل کرتا ہے تو اسے فوراً ملک بدر کردیا جائے۔

اب ملک میں پاگل پن کو مکمل قانونی تحفظ حاصل تھا اور پاگل خانے کی عمارتیں ویران تھیں۔

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔