اپوزیشن، نیب بل 'بغیر کسی تبدیلی کے' منظور کروانے پر رضامند
اسلام آباد: قومی اسمبلی نے 3 اہم بلز پر غور ملتوی کردیا ساتھ ہی اپوزیشن اراکین نے یہ اعلان کر کے متعدد افراد کو حیران کردیا کہ وہ حکومت کا قومی احتساب (دوسری ترمیم) بل 'ایسے ہی' منظور کروانے کو تیار ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین ریاض فتیانہ کی سربراہی میں ہوا جس کے ایجنڈے میں تین اہم بلز، قومی احتساب (دوسری ترمیم) بل 2019 (آرڈیننس نمبر 27 آف 2019)، وہسل بلوور پروٹیکشن اینڈ وجیلینس کمیشن، آرڈیننس نمبر 23 آف 2019 اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ریویو اینڈ ری کنسڈریشن) آرڈیننس نمبر 6 آف 2020 شامل تھے۔
اجلاس میں جب کاروباری افراد کے خلاف کیسز میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے اختیارات محدود کرنے سے متعلق بل پیش کیا جانا تھا سیکریٹری قانون نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وزارت اس اجلاس میں اس بل پر بات چیت نہیں کرنا چاہتی۔
یہ بھی پڑھیں: نیب قوانین میں ترمیم کا معاملہ: پارلیمانی کمیٹی بنانے کی منظوری
تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہنواز رانجھا نے کہا کہ انہیں اس بل کی منظوری پر کوئی اعتراض نہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ اپوزیشن بل کو اسی حالت میں منظور کروانے کے لیے تیار ہے۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز ملک احسان اللہ تیوانہ نے کہا کہ اپوزیشن کے مؤقف نے حکومت کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا وہ کوئی غلطی کرنے جارہی تھی۔
پی ٹی آئی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی نے وزارت قانون کے 'رویے' پر تنقید کی اور اصرار کیا کہ جب بل ایجنڈے پر موجود ہے تو اس پر لازمی بات چیت ہونی چاہیے۔
کمیٹی چیئرمین ریاض فتیانہ نے بتایا کہ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا ہے جن کی کچھ ذاتی مصروفیات ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں بل پر بات چیت کی جائے۔
مزید پڑھیں: نیب قانون سمیت دیگر ترامیم کا فیصلہ اے پی سی میں ہوگا، شاہد خاقان عباسی
نیب (دوسری ترمیم) بل اس لیے لایا جارہا ہے کہ نیب آرڈیننس 2019 کا مقصد احتساب قانون کے دائرہ کار میں 'وفاقی یا صوبائی ٹیکسیشن، لیویز یا امپوسٹس سے متعلق کیسز خارج کر کے کاروباری افراد کو ریلیف فراہم کرنا ہے'۔
ساتھ ہی اس حوالے سے چلنے والے مقدمات کو احتساب عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں منتقل کرنا ہے، یہ آرڈیننس نہ صرف کاروباری برادری کا خیال رکھتا ہے بلکہ بیوروکریٹرس اور سیاست دانوں کو بھی کچھ حد تک ریلیف فراہم کرتا ہے کیوں اس میں 'اختیارات کے ناجائز استعمال' اور 'اچھی نیت کے ساتھ کیے گئے کاموں' کی دوبارہ تشریح کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ جب گزشتہ برس دسمبر میں حکومت نے نیب کا کاروباری افراد، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کا اختیار محدود کرنے کا آرڈیننس پیش کیا تھا تو اسے 'تمام این آر او کا باپ' کہا گیا تھا۔
اپوزیشن پارٹیز نے حکومت کی جانب سے اس آرڈیننس کے نفاذ پر سخت شور شرابا کیا تھا اور حکمراں جماعت پی ٹی آئی پر سب کا احتساب کے نعرے سے یو ٹرن لینے کا الزام لگایا تھا تاہم بعد میں نہ صرف اپوزیشن اس حوالے سے حکومت سے بات چیت کرنے پر رضامند ہوگئی بلکہ کچھ سیاستدانوں نے اس آرڈیننس کے تحت ریلیف بھی مانگا۔
یہ بھی پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس پر حکومت، اپوزیشن کے مذاکرات جاری ہیں، شیخ رشید
علاوہ ازیں کمیٹی نے وہسل بلوور بل اور آئی سی جے ریویو اور ری کنسڈریشن بل پر غور کو بھی ملتوی کردیا۔
اجلاس میں کمیٹی اراکین محمد فاروق اعظم ملک، ملک محمد احسان اللہ تیوانہ، شیر علی ارباب، سنیلا رتھ، چوہدری محمود بشیر ورک، عثمان ابراہیم، محسن نواز رانجھا، سید حسین طارق، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، عالیہ کامران، سید نوید قمر کے علاوہ سیکریٹری قانون اور دیگر عہدیداروں نے شرکت کی۔
یہ خبر 24 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔