ڈیوک یونیورسٹی کے پروفیسر میگوئیل نکولس کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق کے نتائج ابھی تک کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ انہیں خبررساں ادارے رائٹرز کو فراہم کیا گیا، جس میں 2019 اور 2020 میں ڈینگی کے پھیلاؤ کا جغرافیائی موازنہ کورونا وائرس کے کیسز کے ساتھ کیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ گزشتہ سال یا رواں برس جن مقامات میں ڈینگی کی وبا کا زور زیادہ رہا تھا، وہاں کووڈ 19 کے کیسز کی شرح دیگر حصوں کے مقابلے میں کم رہی۔
تحقیق کے مطابق یہ دریافت ڈینگی اور کورونا وائرس کے درمیان امیونولوجیکل (کسی مرض کے خلاف بچاؤ) کراس ری ایکٹیویٹی کے امکان کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگر یہ خیال درست ثابت ہوا تو اس کا مطلب ہوگا کہ ڈینگی سے متاثر ہونا یا موثر اور محفوظ ڈینگی ویکسین سے کسی حد تک کووڈ 19 کے خلاف مدافعتی تحفظ مل سکے گا۔
پروفیسر میگوئیل نکولس نے رائٹرز کو بتایا کہ نتائج اس لیے بھی دلچسپ ہیں کیونکہ کچھ سابقہ تحقیقی رپورٹس میں ثابت کیا گیا کہ ایسے افراد جن کے خون میں ڈینگی اینٹی باڈیز موجود تھیں، ان میں کووڈ 19 کی غلط تشخیص ہوئی حالانکہ وہ کبھی اس بیماری کا شکار ہی نہیں ہوئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ دونوں وائرسز کے درمیان ایک مدافعتی تعلق موجود ہے جس کی کسی نے توقع بھی نہیں کی تھی، کیونکہ یہ دونوں ہی بالکل مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم اس تعلق کو ثابت کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہوگی۔
اس تحقیق کو فی الحال MedRxiv نامی پری پرنٹ سرور پر شائع کیا گیا ہے اور جلد کسی طبی جریدے کے پاس جمع کرائی جائے گی۔
تحقیق میں برازیل میں کووڈ 19 کیسز کی شرح اور اموات میں کمی ان آبادیوں میں دیکھی گئی جن میں ڈینگی کے خلاف اینٹی باڈیز کی سطح کافی زیادہ تھی۔
خیال رہے کہ برازیل امریکا اور بھارت کے بعد کووڈ 19 سے متاثر تیسرا بڑا ملک ہے جہاں اب تک 44 لاکھ سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں۔
برازیل کی مختلف ریاستیں جیسے پارانا، سانتا کاتارینا، ریو گرانڈی، ماتو گروسو اور مینائس گیرائس میں گزشتہ سال اور رواں سال کے شروع میں ڈینگی کا زور زیادہ رہا تھا، اور ان ریاستوں میں کووڈ 19 کی برادری میں پھیلاؤ کی سطح ان ریاستوں کے مقابلے میں کم تھی جہاں ڈینگی کے کیسز کی شرح کم تھی۔