نواز شریف کی تقریر نے اے پی سی کو اچھی سمت دی، بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر نے کانفرنس کو اچھی سمت دی۔
بلاول ہاؤس کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اے پی سی پاکستان کی تاریخی اے پی سی ہے اور موجودہ حکومت کے آنے کے بعد پہلی مرتبہ آصف زرداری اور نواز شریف ایک ساتھ موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے طویل اور تفصیلی تقریر کی، جس نے ہمارے فورم اور اے پی سی کو اچھی سمت دی، جس کے نتیجے میں ہم نے 9 گھنٹے بحث کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ اور ایکشن پلان بھی جاری کیا ہے۔
مزید پڑھیں:آل پارٹیز کانفرنس: جدوجہد عمران خان کے نہیں انہیں لانے والوں کیخلاف ہے، نواز شریف
بلاول کا کہنا تھا کہ اب اے پی سی میں شامل ہماری تمام جماعتیں مل کر بیٹھیں گی اور آگے کا لائحہ عمل بنائیں گی اور اے پی سی کے اعلامیے کے تحت اس کا اعلان کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس دن بھی کہا تھا اور اب بھی یہی کہتے ہیں ہم پاکستان میں جمہوریت، جمہوری آزادی، بولنے کی آزادی چاہتے ہیں اور میڈیا پر جو سنسر شپ ہے اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر شہری، ہر جماعت اور تمام صوبوں کو کام کرنے کے برابر موقع دینے بات کر رہے ہیں، پارلیمان، انتخابات، چینلز، عدالتوں اور الیکشن کمیشن کو برابر موقع دیا جائے ورنہ اس ملک میں جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جمہوریت کا یہ حال ہے کہ ہمارے صوبے میں ایک بحران ہوا ہے اور یہ قومی اور بین الاقوامی خبر ہونی چاہیے، میں نے خود جاکر معلوم کیا ہے اس لیے مجھے ان تکالیف کا اندازہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
بلاول بھٹو نے کہا کہ کسانوں کی مدد کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ اس سیلاب اور بارش سے ان کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔
'جس نے قومی سلامتی اجلاس میں ایک بات نہیں کی وہ ٹی وی پر باتیں کر رہا ہے'
عسکری قیادت سے ملاقات سے متعلق بات کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 'پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو 18 یا 19 ستمبر کو بلایا گیا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے قومی سلامتی اجلاس کی دعوت ہے کیونکہ بھارت، کشمیر، فاٹا، انتہا پسندی اور دہشت گردی سمیت قومی سلامتی معاملات پر ہم ایک تھے، اب بھی ایک ہیں اور آگے جا کر بھی ہم ایک ہوں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے نام پر جو اجلاس بلائے جاتے ہیں اور ان کیمرا اور آف دی ریکارڈ ملاقاتوں پر مباحثے نہیں ہوتے اور عوام کے سامنے نہیں لائے جاتے۔
انہوں نے کہا کہ میں مجبور ہو کر اس حد تک بات کروں گا کہ کچھ غیر ذمہ دار لوگ جن کا قومی سلامتی، گلگت بلتستان، کشمیر اور خارجہ پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان لوگوں نے اس اجلاس میں ایک لفظ نہیں کہا لیکن ٹی وی پر آکر بات کر رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ قومی سلامتی پر یہ اجلاس بلایا گیا اور اس طرح کی باتوں سے قومی معاملات اور خارجہ پالیسی کے معاملات متنازع ہوجاتے ہیں اور یہ جس کا بھی ترجمان ہے ان کو فوری طور پر چپ کرانا چاہیے اور کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ بات نہ کی جائے۔
مزید پڑھیں:عسکری قیادت سے مسلم لیگ (ن) کی ایک نہیں 2 ملاقاتیں ہوئیں، شیخ رشید
انہوں نے کہا کہ ہمیں قومی سلامتی پر بریفنگز لینی پڑیں گی اور آگے بھی ملنا پڑے گا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ پہلی قومی سلامتی بریفنگ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان وزیراعظم بنے تب سے آج تک وہ نہ صرف قومی سلامتی سے متعلق بلکہ بھارت اور پلوامہ کے اہم معاملے پر بھی ناکام رہے ہیں اور ان میں اتنی صلاحیت بھی نہیں تھی۔
وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قومی معاملات پر تمام پاکستانی ایک ہوجاتے ہیں لیکن یہ وزیراعظم اس موقع پر بھی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے میں ناکام ہوا ہے، جس کی وجہ سے ماضی میں بھی اور اس اجلاس میں وزیراعظم کے بغیر قومی سلامتی بریفنگ ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی پر بریفنگ وزیراعظم کی موجودگی میں ہونی چاہیے تھی، ہم سب اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اس حکومت کی ناکامی ہے جس کو درست ہونا پڑے گا کیونکہ وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھیں، اپوزیشن بھی محب وطن ہے اور اسی طرح حکومت میں بیٹھے لوگ بھی محب وطن ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کشمیر، سیکیورٹی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بات آئی تو ہم نے تعاون کرنا چاہا، ماضی میں ہمیشہ کیا ہے اور اس موجودہ سیٹ اپ نے ایسا ماحول بنایا ہے جہاں خدا نخواستہ قومی سلامتی کے امور پر جو باتیں ہوں گی وہ خفیہ نہیں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اہم قومی سلامتی کے امور پر وزیراعظم کو موجود ہونا چاہیے اور اگر موجود نہیں ہوسکتے تو استعفیٰ دے کر دوسرے کو موقع دیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی اور ذاتی سیاست سے بالاتر ہو کر انجام دے سکے۔
'گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے فیصلے کا حق ہے'
قومی سلامتی سے متعلق ملاقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنے فیصلے خود کریں، ان کا یہ حق ہے اور وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک فرد بھی موجود نہیں تھا، ہم نے اس کی نشان دہی کی، ہم چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنے مستقبل کے فیصلے خود کریں۔
یہ بھی پڑھیں:سیاسی معاملات پر فیصلے جی ایچ کیو کے بجائے پارلیمان میں ہونے چاہئیں، مریم نواز
ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں فوراً صاف اور شفاف انتخابات کروائے جائیں، اگر شفاف انتخابات نہیں کروائے گئے تو اس سے زیادہ قومی سلامتی کو دوسرا خطرہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی پی پی کے 2018 کے منشور کا صفحہ 56 گلگت بلتستان میں اصلاحات سے متعلق ہے، گلگت بلتستان میں اسی منشور پر انتخابات لڑیں گے اور دیگر جماعتیں بھی اپنا منشور بنائیں اور اس پر انتخابات لڑیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلی جو فیصلے کرے گی وہ ہمارے سر آنکھوں پر ہوگا، یہی جمہوری طریقہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کی ایک خوش آئند بات یہ تھی کہ آرمی چیف بھی اتفاق کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات شفاف ہونے چاہیے، اگر ماضی میں ہمارے اختلافات رہے ہیں، مجھے اس اجلاس سے تاثر ملا کہ ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف چاہتے ہیں کہ ہمیشہ ہمارے انتخابات متنازع رہتے ہیں وہ نہ ہوں۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ہم ایسی انتخابی اصلاحات کریں، جس کے نتیجے میں ہم سب کہہ سکیں گے کہ اس ملک میں شفاف انتخابات کروائے جاتے ہیں اور اس کے لیے گلگت بلتستان کے آنے والے انتخابات ایک ٹیسٹ کیس ہوں گے۔
گلگت بلتستان میں جاکر اپنی جماعت کی مہم کی قیادت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم غیر متنازع انتخابات کی طرف بڑھیں گے۔
اس موقع پر انہوں نے گلگت بلتستان کے انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ ابھی چند حلقوں کے امیدواروں کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔