مارننگ شو میں آنے کیلئے رابطہ نہیں کیا، ہمیں بلایا گیا تھا، والد مروہ
معروف ٹی وی میزبان و اداکارہ ندا یاسر نے مارننگ شو میں ریپ کے بعد قتل ہونے والی 5 سالہ بچی کے والدین کو بلانے پر تنقید کے باعث معذرت کی تھی اور ساتھ ہی وضاحت دی تھی کہ بچی کے اہلخانہ نے ان سے خود رابطہ کیا تھا۔
تاہم بعدازاں بچی کے والد نے ندا یاسر کے مذکورہ بیان سے متعلق کہا کہ ہم نے مارننگ شو میں آنے کے لیے رابطہ نہیں کیا بلکہ ہمیں بلایا گیا تھا
یوں تو ندا یاسر کو ماضی میں بھی مارننگ شو کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران مہمانوں کے ساتھ شو کرنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پروگرام بند کرنے کے مطالبے پر ندا یاسر کی معذرت اور وضاحت
تاہم کراچی میں ریپ کا نشانہ بننے والی بچی کے والدین کو بلانے اور ان سے سوالات کرنے پر صارفین میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اب پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے میزبان اور ان کے شو پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے ٹوئٹر پر ندایاسر پر پابندی لگانے کا ہیش ٹیگ (BanNidaYasir#) بھی ٹرینڈ کررہا تھا۔
میزبان ندا یاسر کا یہ شو 9 ستمبر کو نشر ہوا تھا جس میں انہوں نے 5 سالہ بچی کے والدین، سماجی کارکن صارم برنی اور ایک قانون دان کو بلایا تھا۔
ندایاسر نے بچی کے والدین سے متعدد سوالات پوچھے جس پر بچی کی والدہ آبدیدہ ہوگئیں جسے صارفین کی جانب سے ان کے زخموں کو کریدنا قرار دیا جارہا تھا۔
9 ستمبر کو نشر ہونے والے اس شو نے اس وقت سوشل میڈیا صارفین کی توجہ حاصل کی جب ایک فیس بک پیچ کی جانب سے اس حوالے سے ایک پوسٹ جاری کی گئی اور ساتھ ہی شو کا ایک ویڈیو کلپ بھی منسلک کیا گیا تھا۔
فیس بک پیج کی جانب سے جاری کردہ اس طویل پوسٹ کے بعد صارفین نے شو کی مذمت کی، اس پر تنقید کی اور بعدازاں یہ تنقید زور پکڑ کر پابندی کا مطالبہ بن گئی۔
اب سوشل میڈیا پر تنقید اور مذکورہ شو پر پابندی کے مطالبے پر ندا یاسر نے انسٹاگرام پر جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں مداحوں سے معافی مانگی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ریپ، قتل ہونے والی بچی کے والدین کو پروگرام میں بلانے پر ندا یاسر پر پابندی کا مطالبہ
انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے مروہ کے اہلخانہ سے رابطہ نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے صارم بھائی کے توسط سے ہم سے رابطہ کیا تھا کیونکہ انہیں میڈیا سپورٹ کی ضرورت تھی۔
ندا یاسر نے کہا تھا کہ پورا شو دیکھا جائے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پہلے دن ان کی ایف آئی آر بھی نہیں درج ہوئی تھی اور جب انہوں نے احتجاج کیا تو دوسرے دن ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
بعدازاں سوشل میڈیا اسٹار و ٹی وی فنکار وقار ذکا نے اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو جاری کی اور کہا کہ ندا یاسر نے مروہ کے والدین کی جانب سے خود رابطہ کرنے سے متعلق جھوٹ کہا تھا۔
انہوں نے اپنی ویڈیو میں ایک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی جانب سے جاری ویڈیو میں اس حوالے سے مروہ کے والد کا بیان بھی دکھایا۔
ویڈیو میں بچی کے والد نے کہا کہ ہم نے مارننگ شو سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، ہمیں تو انہوں نے خود شو میں بلایا تھا۔
اس کے ساتھ ہی ویڈیو میں مروہ کے تایا نے کہا کہ اس حادثے سے قبل میرا میڈیا میں کسی سے تعلق نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب مروہ کی لاش ملی اس وقت سے میڈیا والے ہمارے پاس آنا شروع ہوئے اور اس دوران رابطہ بھی میڈیا کی جانب سے کیا گیا ہم نے کسی کو بھی نہیں کہا۔
ندایاسر کے شو کے بعد بچی کے ریپ کی ایف آئی آر درج ہونے سے متعلق بچی کے تایا نے کہا کہ ہماری بچی 4 ستمبر کو لاپتا ہوئی تھی اور ہم نے اسی دن گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروائی تھی۔
دوسری جانب ٹی وی اینکر اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت کی پہلی اہلیہ بشریٰ عامر نے انسٹاگرام پر اس حوالے سے ایک پوسٹ جاری کی۔
انہوں نے لکھا کہ تمام نیوز اور اینٹرٹینمنٹ چینلز سے ایک گزارش ہے کہ خدارا یہ قوم کی بچیاں ہیں، ہماری بیٹیاں ہیں، ان کے ساتھ پہلے زیادتی ہوتی ہے اس کے بعد بار بار زیادتی ہوتی ہے۔
بشریٰ عامر نے کہا کہ ان کے گھر والوں کے زخموں اور دکھوں پر مرہم رکھنے کے بجائے انہیں نوچ نوچ کر کیوں اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپنے پروگرامز میں بلا کر ان ماں باپ یا گھر والوں سے بیٹی کی عصمت دری کا واقعہ پوچھنا یا بیان کرنا ان کے لیے کسی موت سے کم نہیں۔
بشریٰ عامر نے اپیل کی کہ بس کردیں ریٹنگز کی دوڑ!! یہ دکھ، صدمہ ہم سب کا اجتماعی دکھ ہے۔
اپنی پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ ریپ کیسز اور زیادتیوں کے خلاف آواز بنیں نہ کہ ان کی تکلیف میں اضافے کا باعث!! ذرائع ابلاغ کا درست استعمال بھی ہماری معاشرتی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
واضح رہے کہ 6 ستمبر کو کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں کچرا کنڈی سے 5 سالہ بچی کی جلی ہوئی بوری بند لاش ملی تھی جس کے بعد مقامی افراد نے یونیورسٹی روڈ کو کئی گھنٹوں تک احتجاجاً بند کردیا تھا جبکہ حکام کو ملزمان کی گرفتاری کے لیے تین دن کا الٹی میٹم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی: 6 سالہ مروہ کے ریپ و قتل، گرفتار 2 ملزمان کے ڈی این اے میچ کر گئے
بچی پرانی سبزی منڈی کے علاقے سے 4 ستمبر کو لاپتا ہوئی تھی جبکہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب 6 ستمبر کو اسی علاقے سے بچی کی لاش ملی تھی۔
بعدازاں 16 ستمبر کو پولیس نے تھانہ پی آئی بی کالونی کی حدود پیر بخاری کالونی سے 6 سالہ بچی مروہ کے ساتھ ریپ اور قتل کے الزام میں تینوں ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج نے ملزمان کو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا۔
جس کے بعد 21 ستمبر کو ڈی آئی جی شرقی محمد نعمان صدیق نے دعویٰ کیا تھا کہ مروہ قتل کیس میں گرفتار دونوں ملزمان کے ڈی این اے نمونے میچ کر گئے ہیں جہاں اس سے قبل ان کے فنگر پرنٹس پہلے ہی متاثرہ لڑکی کے کپڑوں سے میچ کر گئے تھے۔