بھارت فوجی جارحیت کی دھمکی دے رہا ہے، پاکستان کا او آئی اسی میں مؤقف
وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر سے متعلق اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) رابطہ گروپ کو خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت بیانات معمول بن رہے ہیں، جس میں فوجی جارحیت کی دھمکی بھی شامل ہے۔
ڈان خبار کی رپورٹ کے مطابق نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس، جس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں زیر بحث آئیں گی، کی سائیڈ لائنز پر او آئی سی کے کانٹکٹ (رابطہ) گروپ کا اجلاس ہوا۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کا مؤقف پِٹ رہا ہے، شاہ محمود قریشی
او آئی سی کے اجلاس میں سعودی عرب، نائجر اور آذربائیجان نے شرکت کی، اقوام متحدہ کے سفیر برائے او آئی سی آبزرور میشن کے سربراہ اگشین مہدیف نے اجلاس میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کی نمائندگی کی۔
پیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افتتاحی تقریب کا بھی انعقاد ہوا جس میں عالمی امور پر بات چیت ہوئی، اقوام متحدہ نے اپنی 75ویں سالگرہ کے موقع پر رواں سال سیکڑوں پروگرامات کا اہتمام کیا لیکن کووڈ 19 کی وجہ سے بشتر ایونٹس کا انعقاد ورچوئل طریقے سے ہو گا۔
او آئی سی کے اجلاس کے دوران رابطہ گروپ کے اراکین نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالیہ پیش رفت پر بات چیت کی، جس میں مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال اور ایل او سی پر جاری کشیدگی بھی شامل تھی۔
اس موقع پر پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے وزیر خارجہ کا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت میں آر ایس ایس - بی جے پی کی حکومت کی جانب سے مقبوضہ علاقے میں نام نہاد 'حتمی حل' نافذ کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ وادی میں آبادیاتی تبدیلی کے لیے جان بوجھ کر نئے ڈومیسائل قوانین کا اطلاق کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مارچ سے اب تک 16 لاکھ ڈومیسائل جاری کیے جاچکے ہیں جس کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیادتی تبدیلی کرنا ہے تاکہ مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت میں تبدیل کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: شاہ محمود قریشی کا مودی کو مقبوضہ کشمیر میں عوامی ریفرنڈم کا چیلنج
وزیر خارجہ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کے لیے ایک اور حربہ بھی اختیار کیا گیا ہے جس میں بھارت کی جانب سے اردو زبان کو سرکاری سطح پر تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔
مقبوضہ وادی میں سب معمول کے مطابق ہے کہ بھارتی حکومت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ ماہ انسانی حقوق کونسل کے 18 خصوصی مینڈیٹ رکھنے والوں کے ساتھ مشترکہ رابطہ اجلاس کی نشاندہی کی، جس کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ انسانی حقوق کی صورت حال ‘زوال کا شکار’ ہے اور سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں اور سرچ آپریشنز کے دوران ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
اس میں مزید نشاندہی کی گئی کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کو کالے قوانین، آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (اے پی ایس پی اے) اور پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت خصوصی استثنیٰ حاصل ہے۔
وزیر خارجہ نے گروپ کو بتایا کہ صرف 2020 میں ہی بھارت نے 2 ہزار 200 جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیوں کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت کے جواز کے طور پر ایک اور جعلی آپریشن کا ڈھونگ رجایا جاسکتا ہے، جو خطے کے امن اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے’۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ بھارت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ 5 اگست کو اٹھائے گئے غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات و فوجی محاصرے کو فوری ختم کرے۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے، وزیر خارجہ
انہوں نے نئی دہلی پر زور دیا کہ وہ کمیونیکیشن، سفر اور پُر امن ملاقاتوں پر عائد پابندیوں کو ختم کرے، کشمیری رہنماؤں اور کشمیری شہریوں کو رہا کرے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کو نئے ڈومیسائل قانون کو لازمی طور پر معطل کرنا چاہیے، کالے قوانین کو ختم کرنا چاہیے انسانی حقوق کے خلاف وسیع پیمانے پر ہونے والی فوجی اور سول افراد کی خلاف ورزیوں کو روکنا چاہیے۔