دنیا

سرحدی کشیدگی: بھارت اور چین کے فوجی کمانڈرز کی دوبارہ ملاقات

پہلی مرتبہ وزارت خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بھی فوجی سطح پر ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کی، بھارتی حکام

بھارت اور چین کے سینئر فوجی کمانڈرز ہمالیائی خطے لداخ میں سرحد پر مہینوں سے جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیر کنٹرول لداخ کے حوالے سے چین کے زیر اثر علاقے مولڈو میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات فوری طور پر ظاہر نہیں کی گئیں۔

بھارتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ پہلی مرتبہ وزارت خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بھی فوجی سطح پر ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کی۔

تاہم بیجنگ سے فوری طور پر کوئی معلومات دستیاب نہیں ہوسکیں۔

مزید پڑھیں: چین اور بھارت کا ایک دوسرے پر پھر سرحدی اشتعال انگیزی کا الزام

رواں ماہ ماسکو میں ہونے والے دونوں ممالک کے وزرا خارجہ اور وزیر دفاع کے درمیان مذاکرات سمیت فوجی، سفارتی اور سیاسی عہدیداروں کے متعدد مذاکرات کے باوجود سرحدی کشیدگی برقرار ہے۔

10 ستمبر کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد فوجی سطح کے مذاکرات دو ہفتوں سے بھی کم عرصے بعد ہوئے ہیں اور اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ان کی فوج کو سرحدی تنازع سے دستبردار ہوجانا چاہیے، مناسب فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے اور کشیدگی کو کم کرنا چاہیے۔

وزرائے خارجہ نے فوجیوں، توپ خانوں، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں سے دستبرداری کے لیے کوئی ٹائم لائن طے نہیں کی جو مئی میں پہلی مرتبہ کشیدگی کے بعد سے اس خطے میں موجود ہے۔

فوجی ماہرین نے بار بار متنبہ کیا کہ سرد صحرائی علاقے لداخ سے باہر کسی بھی سمت سے غلطی کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

بھارت اور چین، دونوں نے بہت کم معلومات فراہم کیں تاہم دونوں ممالک کے میڈیا نے بڑھتے ہوئے تناؤ کو وسیع کوریج دی ہے جس نے ان کے باہمی تعلقات کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کردیا ہے۔

مئی سے شروع ہونے والی کشیدگی جون میں دہائیوں کی مہلک ترین ہوگئی تھی جہاں پتھراؤ اور ہاتھا پائی سے لڑائی میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ چین کو بھی جانی نقصان ہوا ہے تاہم اس نے کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے چین کے ساتھ مشرقی سرحد میں اپنی فوج کی تعداد بڑھا دی

اس جھڑپ کے بعد دونوں ممالک وادی گلوان اور کم از کم دو دیگر مقامات سے جزوی طور پر دستبردار ہوگئے تھے تاہم کم از کم تین دیگر علاقوں میں اب بھی یہ بحران جاری ہے جس میں پینگونگ جھیل کا علاقہ بھی شامل ہے۔

حالیہ ہفتوں میں ایشیائی ممالک نے ایک دوسرے پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ پینگونگ میں ایک دوسرے کے علاقوں میں فوجی بھیج رہے ہیں اور 45 برسوں میں پہلی بار انتباہی گولیاں چلارہے ہیں جس سے ایک مکمل پیمانے پر فوجی تنازع کی علامت سامنے آرہی ہے۔

واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اکثر تناؤ کا شکار رہتے ہیں جس کی ایک وجہ ان کی غیر منقسم سرحد ہے۔

دونوں ممالک نے 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی تھی جو لداخ تک پھیل گئی تھی اور ایک معاہدے پر اس جنگ کا اختتام ہوا تھا۔

اس معاہدے میں انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف سرحدی علاقے میں اسلحہ استعمال نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

حکومت کی نااہلی کے 870 دنوں میں اپوزیشن نے ان کا ساتھ دیا، سراج الحق

کورونا وائرس کے نئے پہلوؤں نے سائنسدانوں کو دنگ کردیا

امریکی حکام نے ٹرمپ کو بھیجا گیا زہریلے مواد کا پارسل پکڑ لیا