پاکستان

ریاست صرف اشرافیہ کیلئے ہی نہیں عام آدمی کیلئے بھی ہونی چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ

عدالت کے فیصلوں کا انحصار پولیس تفتیش پر ہوتا ہے لیکن پولیس تفتیش کا معیار انتہائی ناقص ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس
|

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کے لاپتا ہونے والے افسر ساجد گوندل کی بازیابی سے متعلق دائر درخواست میں سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ریاست کی ذمہ داری صرف اشرافیہ کے لیے ہی نہیں عام آدمی کے لیے بھی ہونی چاہیے۔

وفاقی دارالحکومت میں عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایس ای سی پی کے لاپتا افسر ساجد گوندل کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر، سیکریٹری داخلہ، اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات عدالت میں پیش ہوئے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاق دارالحکومت میں لاپتا افراد کے بڑھتے واقعات اور جرائم میں اضافے پر حکام کو طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم کے معاونین خصوصی کو یکطرفہ کارروائی کا انتباہ

سماعت کے دوران ساجد گوندل کے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت میں بتایا کہ ساجد گوندل واپس آگئے ہیں اور مجسٹریٹ کے سامنے بیان بھی ریکارڈ کرادیا ہے تاہم ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اغوا کرنے والے کون لوگ تھے۔

اس موقع پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے مشیر داخلہ چوہدری شہزاد اکبر سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو کیوں بلایا ہے؟ آپ نے آئی جی پولیس کی رپورٹ دیکھی ہوگی جو بہت خوفناک ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ان 5 مشیروں میں شامل ہیں جنہیں وزیراعظم نے اپنا مشیر رکھا، آپ وزیراعظم کے اعتماد والے افراد میں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1400 اسکوائر میل پر مشتمل وفاقی دارالحکومت کو ماڈل سٹی ہونا چاہیے، آپ کچہری جا کر دیکھیں کہ عدالتیں کیسے کام کر رہی ہیں، کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ یہاں اسلام آباد میں پروسیکیوشن برانچ ہی قائم نہیں، عدالت نے فیصلہ دیا مگر عمل نہیں ہوا۔

دوران سماعت پولیس تفتیش سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے فیصلوں کا انحصار پولیس تفتیش پر ہوتا ہے، پولیس تفتیش کا معیار انتہائی ناقص ہے، تفتیشی افسران کی تربیت نہیں ہے، آج عدالت کے سامنے ایک کیس آیا کہ پولیس چیک ڈس آنر کا مقدمہ درج نہیں کر رہی تھی۔

ساتھ ہی مشیر داخلہ کو یہ کہا گیا کہ دو ہفتوں کا وقت لیں اور ایک رپورٹ بناکر وزیراعظم سے شیئر کریں کہ کیا ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ میں وزیراعظم کو بتائیں کہ عام شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس پر شہزاد اکبر نے کہا کہ ہم لاپتا افراد کا معاملہ کابینہ کے نوٹس میں لائے ہیں جس پر ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی ہے۔

مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک جاری معاملہ ہے اور کمیٹی کی سفارشات کابینہ کو بھجوائی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں آزادانہ پروسیکیوشن برانچ ہونی چاہیے، ساتھ ہی یہ بات سامنے آئی کہ تفتیشی افسر جسے تفتیش کا کوئی تجربہ نہیں اس کو ایک تفتیش کے 350 روپے ملتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہی کرپشن کا بڑا ذریعہ بنتا ہے، وہ باقی کے پیسے کہاں سے لیتا ہوگا؟

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد سے لاپتا ایس ای سی پی کے عہدیدار بخیریت گھر پہنچ گئے

چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں مفادات کا بھی ٹکراؤ ہے، وزارت داخلہ اور ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان کی بریت ناقص تفتیش کے باعث ہوتی ہے اور ذمہ داری عدالتوں پر آتی ہے، کچہری میں عدالتیں دکانوں میں قائم ہیں، آپ خود بھی وکالت کرتے اور پیش ہوتے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے شہزاد اکبر کو کہا کہ آپ وزیراعظم کو اس بارے میں بھی آگاہ کریں، اللہ نہ کرے کہ کچہری والا واقعہ دوبارہ ہو جائے، اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا تو کسی کو تو ذمہ داری لینی چاہیے، ریاست صرف اشرافیہ کے لیے ہی نہیں عام آدمی کے لیے بھی ہونی چاہیے۔

اس موقع پر بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ کمیٹی میں اسلام آباد بار کے ایک رکن کو بھی آزاد رکن کے طور پر شامل کرنے کا کہا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایگزیکٹو کا اختیار ہے، ہم مداخلت نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کے مشیر داخلہ خود بار کے رکن ہیں، اب ایلیٹ کلچر ختم ہونا چاہیے۔

بعد ازاں عدالت نے تمام ریکارڈ کا جائزہ لے کر 3 ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

اب اس کیس کی مزید سماعت 19 اکتوبر کو ہوگی۔

خیال رہے کہ جمعرات (3 ستمبر) کی رات کو ایس ای سی پی کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل گمشدہ ہوگئے تھے اور ان کی کار اگلی صبح پارک روڈ سے ملی تھی۔

عدالت میں ان کی والدہ کی دائر کردہ درخواست کے مطابق شام ساڑھے 7 بجے ساجد گوندل شہزاد ٹاؤن اسلام آباد میں اپنے گھر سے سرکاری گاڑی میں باہر گئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کی کار اسلام آباد میں قومی زراعت تحقیقی مرکز کے قریب مین پارک روڈ پر کھڑی ہوئی ملی۔

ساجد گوندل کی اہلیہ نے واقعے کی اطلاع شہزاد ٹاؤن تھانے میں درج کروائی اور اس شبہ کا اظہار کیا کہ ان کے شوہر کو 'نامعلوم افراد اغوا کرکے' لے گئے۔

انہوں نے پولیس پر زور دیا تھا کہ وہ ان کے شوہر کی واپسی کو یقینی بنائیں، ساتھ ہی بتایا تھا کہ ان کے خاندان کی 'کسی سے دشمنی نہیں'۔

مزید پڑھیں: ایس ای سی پی کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل اسلام آباد سے لاپتا

اس واقعے کے اگلے روز ساجد گوندل کی والدہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا ہونے والے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل کو بازیاب کرانے میں ناکامی پر سیکریٹری داخلہ، پولیس اور دارالحکومت کی انتظامیہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

جس کے اگلے روز 8 ستمبر کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل بخیریت اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔

ساجد گوندل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ 'میں گھر واپس آ گیا ہوں اور محفوظ ہوں، میں اپنے ان تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں جو میرے لیے فکرمند تھے۔'

کراچی کے علاقے سائٹ میں گارمنٹس فیکٹری کی عمارت کا ایک حصہ منہدم

کراچی کے علاقے سائٹ میں گارمنٹس فیکٹری کی عمارت کا ایک حصہ منہدم

مذہبی رہنماؤں نے پولیو ویکسین کے خلاف افواہیں مسترد کردیں، ٹیکہ لگوانے کی حمایت