پاکستان

موٹروے گینگ ریپ کے مرکزی ملزم کا نام ایف آئی اے کی 'بلیک لسٹ' میں شامل

ایف آئی اے کو عابد مالہی کو ملک سے باہر جانے سے روکنے کا کہا گیا اور اس کا نام واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا، سی سی پی او لاہور
|

راولپنڈی: پنجاب پولیس کی جانب سے موٹروے گینگ ریپ کے مرکزی ملزم کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے لیے کی جانے درخواست کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس کا نام 'بلیک لسٹ' میں ڈال دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملک بھر کی تمام چیک پوائنٹس پر اس حوالے سے آگاہ کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے گینگ ریپ کیس میں مرکزی ملزم عابد مالہی کو شدت سے تلاش کرنے والی پنجاب پولیس نے ایف آئی اے سے درخواست کی تھی جبکہ ملزم کی تفصیلات مختلف ٹیموں کو بھیج دی تھیں جو اس کا پتا لگانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) عمر شیخ نے ڈان کو بتایا کہ ایف آئی اے کو عابد مالہی کو ملک سے باہر جانے سے روکنے کا کہا گیا تھا اور اس کا نام واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا۔

مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: مرکزی ملزم تاحال قانون کی گرفت سے باہر، گینگ کا ایک ساتھی گرفتار

انہوں نے کہا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں نام شامل کرنا ایک طویل عمل ہے لہٰذا پولیس نے فوری طور پر تمام ہوائی اڈوں، زمینی اور سمندری چیک پوسٹوں پر ایف آئی اے کو آگاہ کیا کہ 'انتہائی مطلوب' ملزم کو ملک چھوڑنے سے روکے۔

سی سی پی او کا کہنا تھا کہ پولیس ٹیمز ملزم کی تلاش کے لیے سخت کوششیں کر رہی ہیں اور اُمید ہے کہ وہ جلد اسے پکڑ لیں گی۔

واضح رہے کہ پولیس ٹیمز نے عابد مالہی کو گرفتار کرنے کے لیے مختلف شہروں کے مختلف مقامات پر چھاپے مارے ہیں لیکن اس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

ایف آئی اے کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ جب بھی پولیس کی جانب سے اپنی مطلوب فہرست پر موجود شخص کو ملک سے جانے سے روکنے کا کہا جاتا ہے اس کا نام 'بلیک لسٹ' میں شامل کردیا جاتا ہے۔

موٹروے ریپ کیس

خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔

واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔

اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔

تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔

اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔

یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔

علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔

تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔

14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

اسی روز پولیس نے شریک ملزم شفقت علی کی جانب سے دوران تفتیش فراہم کی گئی معلومات پر تیسرا ملزم اقبال عرف بالا کو گرفتار کرلیا تھا۔