انہوں نے کہا 'ہم خوش قسمت ہیں کہ اتنے طویل عرصے تک ہماری زندگیوں میں اتنے زبردست انسان موجود رہے'۔
گیٹس سنیئر امریکی فوج میں کام کرکے تھے اور ایک وکیلوں کی کمپنی کے شریک بانی تھے۔
بل گیٹس نے بتایا کہ ان کے فلاحی ادارے بل اینڈ ملینڈا گیٹس کے آغاز کے لیے والد نے بنیادی کردار ادا کیا جو مائیکرو سافٹ سے الگ ہونے کے بعد بل گیٹس کی توجہ کا مرکز بنا۔
ان کا کہنا تھا 'یہ ادارہ میرے والد کے بغیر ایسا نہ ہوتا جیسا آج ہے'۔
گیٹس سنیئر 2000 میں اس ادارے کے آغاز کے بعد شریک چیئرمین کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔
بیان میں ان کی موت کی وجہ بیان نہیں کی گئی مگر وہ طویل عرصے سے الزائمر کے مرض کا شکار تھے جس سے ان کی صحت بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی۔
بل گیٹس نے لکھا 'لوگ میرے والد سے پوچھتے تھے کہ اگر وہ حقیقی بل گیٹس ہوتے تو کیا ہوتا، مگر حقیقت تو یہی ہے وہی وہ سب کچھ ہے جو میں بننے کی کوشش کرتا ہوں'۔
خیال رہے کہ کچھ سال پہلے ایک انٹرویو کے دوران بل گیٹس نے بتایا تھا کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ الزائمر سے ڈرتے ہیں، جس کے شکار ان کے والد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ وہ بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
خیال رہے کہ الزائمر ایسا دماغی تنزلی کا مرض ہے جس کا ابھی تک کوئی علاج موجود نہیں۔
بل گیٹس نے الزائمر کے حوالے سے تحقیق کے لیے اب تک 10 کروڑ ڈالرز عطیہ کیے جس کی وجہ ان کا یہ خوف بھی تھا کہ ان کا دماغ بھی اس مرض کا شکار نہ ہوجائے۔
امریکی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا ' زیادہ سے زیادہ افراد الزائمر کا شکار ہورہے ہیں اور یہ ایک المناک مرض ہے، مگر میرا ماننا ہے کہ اگر وسائل کا درست استعمال کریں تو اس سے نمٹا جاسکتا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود اس بیماری کا شکار ہونے کے خیال سے خوفزدہ ہیں اور کہتے ہیں کہ 'میں اپنے دماغ کو جس حد تک ممکن ہوسکا، سرگرم رکھنا چاہتا ہوں'۔
بل گیٹس کا کہنا ہے کہ 'میرا کام نئے شعبوں کو سیکھنا، ذہین ترین افراد سے ملنا ہے اور یہ دماغی نکتہ نظر سے ایک مثالی ورزش ہے'۔
خیال رہے کہ اپنی نوجوانی میں بل گیٹس کا اپنے والد سے تعلق کافی کشیدہ تھا مگر عمر بڑھنے کے ساتھ وہ ان کے رول ماڈل بن گئے، جن کے مشوروں پر وہ انحصار کرتے تھے۔
ولیم ہنری گیٹس نے ہی کچھ سال پہلے اپنے بیٹے کی بے مثال کامیابی کا راز بھی بیان کیا تھا۔
امریکی جریدے فوربز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ مائیکروسافٹ کے بانی نے بچپن سے نوجوانی تک کا سفر کس عادت کے ساتھ گزارا۔
ان کا کہنا تھا کہ بل گیٹس شروع سے ہی مطالعے کا شوقین بلکہ جنونی تھا۔
ان کا کہنا تھا ' میرا بیٹا بچپن سے ہی ہر قسم کی کتاب پڑھنے کا شوقین تھا چاہے وہ انسائیکلوپیڈیا ہو، سائنس فکشن اور دیگر۔ میں یہ دیکھ کر جوش محسوس کرتا تھا کہ میرا بچہ کتابوں کا کتنا شوقین ہے مگر وہ اتنا مطالعہ کرتا تھا کہ میں نے اور اس کی ماں نے ایک اصول وضع کرلیا کہ رات کے کھانے کی میز پر کوئی کتاب نہیں ہوگی'۔
ولیم گیٹس کا مزید کہنا تھا کہ بچپن میں جب بل گیٹس سے اسکول میں ایک پرچے کے دوران پوچھا گیا کہ ہو کیا بننا چاہتے ہیں تو ان کا جواب تھا خلا باز مگر اس کے ساتھ انہوں نے سائنسدان کے آپشن کو بھی منتخب کیا۔