یورپی اراکین پارلیمان نے مسئلہ کشمیر کے یکطرفہ حل کا بھارتی مؤقف مسترد کردیا
اسلام آباد: یورپی یونین اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ بھارت یک طرفہ طور پر کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس آئندہ چند روز میں شروع ہونے والا ہے ایسے میں برطانیہ، یورپی یونین، بھارت، پاکستان، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں، سفارتکاروں اور قانون سازوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عالمی برداری کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ گزشتہ برس 5 اگست کے بعد کشمیر کس طرح انتہائی پر آشوب بن گیا ہے اور اس سے خطے میں تنازعات میں اضافے کا خطرہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات جناح انسٹیٹیوٹ کے ایک ویبینار (آن لائن سیمنار) میں کی گئی جس کا عنوان 'کشمیر کا مستقبل: عالمی کثیر الجہتی اور علاقائی امن کے لیے ایک امتحان' تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا خطرہ ہے، عالمی ادارے کی وارننگ
اس سیشن کی سربراہی سینیٹر شیری رحمٰن نے کی جو جناح انسٹیٹیوٹ کی صدر ہیں ان کے علاوہ اس میں برطانوی اراکین پارلیمان اینڈریو گوینی، مقبوضہ کشمیر سے سینئر صحافی افتخار گیلانی، یورپی پارلیمان کے رکن مائیکل گھیلر، سابق پاکستانی سفارتکار طارق فاطمی، بھارتی کالم نگار اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق سیاستدان سدھیندرا کلکرنی، سابق یورپی رکن پارلیمنٹ جیلی وارڈ اور مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے پروفیفسر ڈاکٹر صدیق واحد شریک ہوئے۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں سب سے پرانا مسئلہ ہے اور اسے بھولنا یا علاقائی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے جسے عالمی برادری ایک طرف کردے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک اسٹریٹجک مسئلے اور عالمی تنازع کی حیثیت سے جو جوہری طاقتوں کے مابین فالٹ لائن پر ہے اور جنگ کی طرف لے جاسکتا ہے اسے بالخصوص نئی دہلی کی جانب سے ظالمانہ یکطرفہ اقدامات کے بعد بھارت کے اندرونی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غیر قانونی اقدامات، پاکستان کا سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ
آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر عالمی برادری نے مداخلت نہیں کی تو کشمیری عوام کا مستقبل تاریک ہے، انہوں نے برطانیہ اور یورپی پارلیمان پر زور دیا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر توجہ دیں اس سے قبل کے بہت دیر ہوجائے۔
انہوں نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تحریک شروع کر کے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی تجویز دی جو بھارتی سول سوسائٹی، سیاستدانوں اور بین الاقوامی شراکت داروں تک بھی پہنچے، جو بی جے پی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی خلاف ورزی کو سمجھتے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
برطانوی رکن پارلیمان ایڈریو گوینی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کشمیر پر بین الاقوامی توجہ کی ضرورت ہے اور نشاندہی کی کہ اس معاملے پر برطانوی شہریوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر کی کہانی ایک کشمیری کی زبانی
انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے وقت کشمیر کو حل کیے بغیر چھوڑ دیا گیا جس کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد ہوتی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے ان کے ملک نے مثبت کردار ادا کیا۔
ویبینار کے دوران اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ 'دنیا دو جوہری طاقتوں کے تنازع کی متحمل نہیں ہوسکتی'۔
دوسری جانب رکن پارلیمان جیمز ڈیلی نے فروری 2020 میں آزاد کشمیر کے دورے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمارے ساتھ کھلے دل کا سلوک کیا گیا، بدقسمتی سے ہمارے گروپ کو بھارت میں جانے نہیں دیا گیا اور ہم بھارتی حکومت کے ساتھ آزاد اور کھلے طریقے سے بات نہیں کرسکے'۔