ریکو ڈیک لیز کیس: پاکستان کا 5 ارب 80 کروڑ ڈالر جرمانے میں ریلیف کا مطالبہ
اسلام آباد: پاکستان نے آسٹریلیائی کمپنی کو کان کنی کے لیز سے انکار کرنے پر بین الاقوامی ٹریبونل کی جانب سے عائد 5 ارب 80 کروڑ ڈالر کے جرمانے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمانے کی ادائیگی سے اس کی کورونا وائرس سے نمٹنے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے چاغی ضلع میں واقع ریکو ڈک قصبہ سونے اور تانبے سمیت معدنیات سے مالا مال ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اس کو ایک اسٹریٹجک قومی اثاثہ سمجھتی ہے تاہم اس سے پیسے حاصل کرنے کے بجائے ریکو ڈیک کان کنی کے منصوبے سے ملک کو بہت زیادہ لاگت آسکتی ہے۔
عالمی بینک کے بین الاقوامی مرکز برائے سرمایہ کاری کے تنازع کے تصفیے میں آسٹریلیا کے بیرک گولڈ کارپوریشن اور چلی کے اینٹو فاسٹو پی ایل سی کے مشترکہ منصوبے ٹیتھیان کاپر کارپوریشن (ٹی سی سی) کے لیے ریکو ڈیک کان کنی کے لیز کی منسوخی پر جرمانے کے نفاذ کے خلاف پاکستان کی اپیل پر غور کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: ریکوڈک کیس میں 6 ارب ڈالر جرمانہ، پاکستان نے امریکی عدالت سے رجوع کرلیا
اس دوران بلوچستان حکومت نے اس کان کو تیار کرنے کے لیے اپنی ایک کمپنی قائم کی ہے کیونکہ حال ہی میں سونے کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا تھا جس کے بعد اس کی فی اونس قیمت 2 ہزار ڈالر سے بھی زائد ہوگئی جس کے بعد اس کان کی جانب توجہ مزید بڑھ گئی۔
پاکستان اور ٹیتھیان دونوں نے کسی متبادل حل پر بات چیت کرنے پر آمادگی کا اشارہ دیا ہے تاہم معاہدے پر کسی بھی طرح کی بات چیت کی حیثیت واضح نہیں ہے۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان سے براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کوئی خاص تصفیہ تجویز کیا گیا ہے۔
کمپنی کی ویب سائٹ پر 2019 میں عدالتی احکامات سامنے آنے کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ 'اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ثالثی کارروائی کے آغاز کے باوجود ٹی سی سی کو اس معاملے پر بات چیت کے ذریعے حل تک پہنچنے کے موقع کی امید ہے'۔
حال ہی میں پوچھے جانے پر ٹیتھیان کے عہدیداروں نے بتایا کہ اس میں کوئی تازہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ٹیتھیان کاپر کارپوریشن کے ساتھ عدالت سے باہر معاہد ایوارڈ پر حتمی فیصلہ آنے تک التوا میں ہے جو آئندہ سال تک نہیں آسکتا ہے۔
ریکو ڈیک کیس عمران خان کی جانب سے تنازعات کو حل کرنے اور زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کوششوں پر بیک چینل ڈپلومیسی کو استعمال کرنے کی صلاحیت کی جانچ کا ذریعہ بھی ہے۔
ٹیتھیان کی ویب سائٹ پر دستیاب تفصیلات کے مطابق ریکو ڈِک مائننگ پروجیکٹ کو تقریبا 3 ارب 30 کروڑ ڈالر کی لاگت سے عالمی سطح کے تانبے کی کان تیار کرنا اور اس کا کام کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک پر لگنے والے جرمانے کا ذمہ دار کون؟
ٹیتھیان کا کہنا ہے کہ ان کے مقامی حکومت بلوچستان کے ساتھ 1998 کے معاہدے کے تحت انہیں کان کنی لیز پر دیا گیا ہے۔یہ منصوبہ نومبر 2011 میں رک گیا تھا جب بلوچستان کی صوبائی حکومت نے درخواست مسترد کردی۔
پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کان کنی کے لیز کو بلوچستان حکومت نے ختم کردیا کیونکہ اسے غیر شفاف طریقے سے حاصل کیا گیا تھا۔
اس وقت تک ٹیتھیان ریکو ڈک میں 22 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا تھا۔
آسٹریلیائی مائننگ کمپنی نے 2012 میں ورلڈ بینک ثالثی ٹریبونل سے مدد طلب کی تھی اور اس نے 2017 میں پاکستان کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ کے ٹیتھیان کے خلاف سابقہ فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔
کمپنی نے اصل میں 8 ارب 50 کروڑ ڈالر کا ہرجانہ طلب کیا تھا تاہم وزارت انصاف کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ٹربیونل نے 56 سالوں میں اس کان سے جو فائدہ ٹیتھیان کو حاصل ہونا تھا اس کی بنیاد پر منسوخ شدہ لیز پر ہونے والے ہرجانے کو حساب کتاب کے لیے ایک فارمولے کے طور استعمال کرنے کا انتخاب کیا تھا۔
نتیجتاً تقریبا 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا جو پاکستان کے جی ڈی پی کے تقریبا دو فیصد کے برابر ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے حال ہی میں پاکستان کے لیے دیے گئے بیل آؤٹ پیکیج کے برابر ہے۔