یعنی بالکل ویکسینیشن کی طرح کا کام فیس ماسک مدافعتی ردعمل کے حوالے سے کرتا ہے جو وائرس کی معمولی مقدار ماسک پہننے والے کے اندر پہنچا دیتا ہے جو کسی سنگین بیماری کا باعث نہیں ہوتا۔
طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں کہا گیا کہ اگر یہ نظریہ درست ثابت ہوا تو بڑے پیمانے پر فیس ماسک وہ بھی کسی بھی قسم کے ماسک کا استعمال بڑھے گا اور اس سے کووڈ 19 کے بغیر علامات والے کیسز کی شرح بڑھے گی۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین ڈاکٹر مونیکا گاندھی اور ڈاکٹر جارج رتھرفورڈ نے کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ فیس ماسک اس طرح کام کرتے ہیں جیسا نظریہ انہوں نے پیش کیا ہے۔
انہوں نے 1930 کی دہائی سے اب تک جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس کی جانب اشارہ کیا جن میں بتایا گیا کہ کتنی مقدار میں وائرل ذرات سنگین بیماری کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ حال ہی میں چوہوں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ وائرس کے زیادہ ذرات کے نتیجے میں کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب چوہوں کو ماسک کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا تو ان میں بیماری کی علامات معتدل رہیں یا نمودار ہی نہیں ہوئیں۔
اخلاقی وجوہات کی وجہ سے انسانوں پر اس طرح کے ٹرائلز نہیں ہوئے مگر آبادیوں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس سے بھی 'ماسک کے ویکسین' ہونے کے خیال کو تقویت ملتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے بتایا تھا کہ جولائی کے وسط میں کورونا وائرس کے 40 فیصد کیسز بغیر علامات کے تھے مگر امریکا کے جن حصوں میں ماسک پہننے کا رجحان زیادہ ہے وہاں یہ شرح 80 فیصد تک پہنچ گئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بحری جہازوں میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز میں جب فیس ماسک کا استعمال عام نہیں تھا تو بغیر علامات والے کیسز کی شرح 20 فیصد تھی، مگر ارجنٹائن کے ایک جہاز میں جہاں فیس ماسک کا استعمال عام تھا، وہاں یہ شرح 81 فیصد ریکارڈ ہوئی۔
اسی طرح امریکا کے فوڈ پراسیسنگ پلانٹس میں جہاں فیس ماسک کا استعمال لازمی تھا، وہاں کورونا کی وبا پھیلنے پر 95 فیصد کیسز میں علامات سامنے نہیں آئیں جبکہ باقی 5 فیصد میں بھی معمولی سے معتدل علامات دیکھی گئیں۔