جنگجو لڑکی کی فلم ’مولان‘ پر چین میں تنازع
حال ہی میں ہولی وڈ ایکشن تھرلر فلم ’مولان‘ کو کورونا کے باعث آن لائن ریلیز کیا گیا تھا مگر اسی فلم کو چین میں سینما ہاؤسز میں ریلیز کیا گیا تھا۔
لیکن فلم کے ریلیز ہوتے ہی چین میں ایک نیا تنازع سامنے آیا ہے اور یہ تنازع چین سے نکل کر امریکا اور چین کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
چینی جنگجو لڑکی کی فلم ’مولان‘ کے معاملے پر چین میں اس وقت تنازع سامنے آیا جب کہ فلم کے ریلیز ہونے کے بعد پروڈکشن ہاؤس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ فلم کے کچھ حصے چین کے صوبے سنکیانگ میں شوٹ کیے گئے ہیں۔
فلم کے کچھ حصے سنکیانگ میں شوٹ کیے جانے پر کئی افراد نے ڈزنی اسٹوڈیو کو تنقید کا نشانہ بنایا، ساتھ ہی چینی حکومت پر بھی الزامات لگائے گئے کہ وہ سنکیانگ میں تاحال انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا کی وبا کے باعث ’مولان‘ کو آن لائن ریلیز کرنے کا اعلان
ایسی تنقید کے بعد اب چینی حکومت نے مقامی میڈیا کو ’مولان‘ کی کوریج کرنے سے روک دیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ’مولان‘ کے کچھ حصوں کو سنکیانگ میں شوٹ کرنے پر تنقید کے بعد چینی حکام نے مقامی میڈیا کو فلم کی کوریج یا تشہیر نہ کرنے سے متعلق ہدایات جاری کردیں۔
خبر رساں ادارے نے مذکورہ معاملے سے منسلک چار افراد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حکام نے تمام میڈیا کو ہر طرح کی فلم کی کوریج سے روک دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین کے سوشل میڈیا اور ہر طرح کے میڈیا مواد پر نظر رکھنے والے ادارے سائبراسپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنا نے ویب سائٹس اور اخبارات سمیت دیگر نشریاتی اداروں کو ’مولان‘ کی کوریج نہ کرنے کے نوٹسز بھجوائے، جن میں انہیں ہولی وڈ فلم کی کوریج سے روکا گیا۔
چینی حکام نے نشریاتی اداروں کو بھجوائے گئے نوٹسز میں کوئی سبب نہیں بتایا، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ حکام نے فلم کی سنکیانگ میں شوٹنگ کے بعد ہونے والی تنقید کی وجہ سے حکم نامہ جاری کیا۔
رائترز نے اپنی ایک اور رپورٹ میں بتایا کہ جہاں ’مولان‘ کو دنیا بھر میں ڈزنی پلس پر آن لائن ریلیز کیا گیا تھا، وہیں ستمبر کے آغاز میں ہی فلم کو چین میں سینماؤں میں ریلیز کیا گیا تھا۔
سینماؤں میں ریلیز کیے جانے کے باوجود ’مولان‘ نے اچھی کمائی نہیں کی اور نہ ہی لوگوں نے اس پر زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔
اگرچہ چینی عوام نے فلم پر کسی طرح کے الزامات نہیں لگائے، تاہم دوسرے ممالک کے افراد نے ڈزنی پر سخت تنقید کی کہ انہوں نے فلم کو ایسے صوبے میں کیوں بنایا، جہاں چین انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔
مزید پڑھیں: وبا کے باعث چینی جنگجو لڑکی کی ’مولان‘ آن لائن ریلیز
سنکیانگ کے حوالے سے چین پر گزشتہ کئی سال سے الزامات لگائے جاتے ہیں، تاہم چینی حکومت وہاں پر انسانی حقوق کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے وہاں پر بغاوت کو کچلنے کا دعویٰ کرتی ہے۔
سنکیانگ مسلم اکثریت والا صوبہ ہے، جہاں پر اویغور مسلمانوں پر چینی حکومت کی جانب سے سنگین تشدد اور ان کے استحصال کے الزامات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں، تاہم چینی حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
’مولان‘ کی شوٹنگ سنکیانگ میں کیے جانے پر جہاں فلم اسٹوڈیو ڈزنی کو تنقید کا سامنا ہے، وہیں خیال کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر فلم کے معاملے پر امریکا اور چین کے کشیدہ تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوگی۔
چین اور امریکا کے درمیان پہلے ہی ہواوے موبائل فون، سوشل شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک اور وی چیٹ سمیت دیگر ایپس کے معاملے پر کشیدگی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مولان کی ریلیز التوا کا شکار
خیال رہے کہ مولان 1998 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مولان‘ کا ریمیک ہے اور یہ فلم چین کی جنگجو خاتون کی بہادری کے گرد گھومتی ہے۔
'مولان‘ لائیو ایکشن کی ہدایات نکی کیرو نے دی ہیں جب کہ اس کی کہانی رک جفا، امنڈا سلور، ایلزبیتھ مارٹن اور لارین ہارنک کی لکھی گئی تاریخی نظم سے لی گئی ہے۔
فلم کی کہانی ’مولان‘ نامی چینی جنگجو لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو چین کی حقیقی جنگجو خاتون تھیں۔
فلم کی کہانی پانچویں صدی میں چین کی مارشل آرٹ کی ماہر اور جنگجو خاتون ’ہوا مولان‘ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، جنہوں نے 25 سال تک مختلف جنگیں لڑیںَ۔