میرے فیصلوں کی وجہ سے خاندانی کاروبار کو نقصان پہنچا، شہباز شریف
لاہور کی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی اہلیہ اور بیٹیوں کو دوبارہ طلب کرلیا۔
احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے شہباز شریف خاندان کے خلاف ریفرنس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں احتساب عدالت نے شہباز شریف، ان کی بیٹی جویریہ علی، نثار احمد سمیت دیگر شریک ملزمان کو ریفرنس کی کاپیاں فراہم کیں۔
سماعت میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سلمان شہباز کے وارنٹ جاری کرنے سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ سلمان شہباز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات: شہباز شریف، اہلِخانہ آئندہ سماعت پر طلب
نیب کا کہنا تھا کہ سلمان شہباز کو اس لیے گرفتار نہیں کیا جاسکا کیوں کہ ملزم بیرون ملک موجود ہے۔
رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ نیب نے سلمان شہباز کی واپسی کے لیے وزارت خارجہ سے رابطہ کر لیا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ سلمان شہباز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رہیں گے۔
سماعت کے دوران جیل سے حمزہ شہباز کو لاکر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، اس کے بجائے جیل سپرنٹنڈنٹ نے حمزہ شہباز کی میڈیکل رپورٹ عدالت پیش کی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حمزہ شہباز کی طبیعت ناساز ہے اس لیے آج عدالت پیش نہیں کر سکتے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے نیب وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے ایک پیناڈول کھائی اور بیڈ ریسٹ پر لیٹ گئے ہیں، تاہم عدالت نے آئندہ سماعت پر حمزہ شہباز کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
سماعت میں شہباز شریف اپنی بیٹی جویریہ کے ہمراہ پیش ہوئے اور عدالت آمد میں تاخیر ہونے پر معذرت کی۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف، اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کیلئے منظور
بعدازاں شہباز شریف نے جج سے اپنا مؤقف بیان کرنے کی اجازت مانگی جس پر جج جواد الحسن نے کہا کہ مجھے اندازہ تھا کہ آپ کچھ کہیں گے، آپ کو اجازت ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ کہا جارہا ہے میں نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میرے فیصلوں سے نواز شریف اور میرے بیٹوں کے کاروبار کو اربوں کا نقصان ہوا۔
شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب انہوں نے 10 برسوں میں قوم کے اربوں روپے بچائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے فرض سے بڑھ کر پنجاب کی عوام کا پیسہ بچایا اس لیے مجھ پر منی لانڈرنگ کا کیس بنایا گیا۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میرے فیصلوں کی وجہ سے میرے خاندان کے کاروبار کو کبھی فائدہ نہیں پہنچا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھ پر میرے خاندان کا بھی دباؤ تھا کہ ریٹ کم کیا جائے اور سبسڈی دی جائے لیکن میں نے گنے کی قیمت کم کی نہ سبسڈی دی۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف اور اہلخانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کا ریفرنس دائر
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے میرے خاندان کی ملز کو ایک ارب روپے کا نقصان پہنچا، میرے فیصلوں سے خاندانی کاروبار کا نقصان ہوا۔
شہباز شریف نے کہا کہ مجھ پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ میری بے نامی جائیدادیں ہیں اگر یہ میری بے نامی جائیدادیں ہوتیں تو کیا میں ان کو نقصان پہنچاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت مجھے اور میرے خاندان کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے، مجھے اللہ پر پورا بھروسہ ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا۔
بعدازاں جج نے استفسار کیا کہ نصرت شہباز اور رابعہ عمران کی کیا رپورٹ ہے جس پر پولیس اہلکار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان دونوں کے ایڈریس ٹھیک نہیں اس لیے سمن نہیں پہنچا سکے۔
عدالت نے اس بیان پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اہلکار کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دیا۔
بعد ازاں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اور بیٹی رابعہ عمران کو دوبارہ طلبی کے نوٹس جاری کر دیے گئے اور منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت 14 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔
منی لانڈرنگ ریفرنس
خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔
ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔
اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔