لائسنس اسکینڈل پر سول ایوی ایشن کے 3 عہدیدار برطرف
راولپنڈی: پاکستان انٹنرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کے الزامات اور سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے کچھ افسران کے اس اسکینڈل میں ملوث ہونے کی تحقیقات کرنے والے ایوی ایشن حکام نے سی اے اے کے 3 عہدیداروں کو برطرف کردیا جبکہ چوتھے افسر نے عدالت سے حکم امتناع حاصل کرلیا۔
ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ابتدا میں ایوی ایشن اور لائسنس برانچ کے 5 عہدیداروں کو معطل کیا گیا تھا اور انہیں اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بعدازاں کارروائی مکمل ہونے کے بعد ان میں سے 3 کو برطرف کردیا گیا، ان میں سے 2 سینئر افسران کو سی اے اے کے ڈائریکٹر جبکہ تیسرے عہدیدار کو ایڈیشنل ڈائریکٹر نے برطرف کیا۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے کے برطرف پائلٹ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا
واضح رہے کہ معطل ہونے والے 5 عہدیداروں میں 2 سینئر جوائنٹ ڈائریکٹرز (لائسنسنگ)، ایک سینئر سپرنٹنڈنٹ اور 2 اسسٹنٹس شامل تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ محکمہ ہوا بازی نے پانچوں سی اے اے عہدیداروں کے کیسز وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ان کے خلاف مجرمانہ تفتیش کے لیے ارسال کردیے تھے تاہم ایف آئی اے نے ابھی تک انکوائری مکمل نہیں کی۔
دریں اثنا حکام نے اپنے ذاتی مینوئل ڈیٹا سے 262 پائلٹس کے لائسنس کی تصدیق کا عمل مکمل کرلیا ہے اور اس حوالے سے ایک رپورٹ کابینہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: مشکوک لائسنس والے مزید 68 پائلٹس معطل
ایوی ایشن حکام نے ان پائلٹوں کو اس کیٹیگری میں رکھا ہے جس میں کچھ کے فلائنگ لائسنس منسوخ اور کچھ کے کلیئر ہوسکتے ہیں، ان پائلٹس میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے 'آرام کے دورانیے' کی خلاف ورزی کی۔
پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنسز کا معاملہ
خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔
جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔
غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔
جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔
29 جون کو ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پر مقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔
اگلے روزیورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوا۔
اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا تھا۔
جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجینئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔
اس کے بعد 3 جولائی کو ملائشیا کے ایوی ایشن ریگولیٹر نے پاکستانی لائسنس رکھنے والے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا۔
جس کے بعد 4 جولائی کو وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد مزید 30 ’مشتبہ لائسنس' کے حامل پائلٹس کو اظہار وجوہ کے نوٹسز بھیجے جاچکے ہیں۔
7 جولائی کو یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے 32 رکن ممالک کو 'پاکستان میں جاری کردہ پائلٹ لائسنسز سے متعلق مبینہ فراڈ' کے حوالے سے خط لکھا اور ان پائلٹس کو فلائٹ آپریشن سے روکنے کی سفارش کی تھی۔
اسی روز سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 'مشکوک' لائسنسز سے متعلق انکوائریاں مکمل ہونے کے بعد پی آئی اے کے 34 پائلٹس کے کمرشل فلائنگ لائسنسز معطل کردیے تھے۔
بعدازاں 9 جولائی کو امریکا نے بھی پاکستانیوں کی واپسی کے لیے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی خصوصی پروازوں کے اجازت نامے کو منسوخ کردیا تھا۔
10 جولائی کو ایوی ایشن ڈویژن نے مختلف ممالک کی ایئرلائنز میں کام کرنے والے 95 فیصد پائلٹس کے لائسنز کلیئر کردیے تھے۔