انہوں نے کہا 'ویکسین استعمال کرنے والے کسی بھی فرد میں کوئی مضر اثر نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی کووڈ سے متاثر ہوا'۔
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین کا ٹرائل معطل کردیا گیا ہے جس کی وجہ ایک رضاکار میں مضر اثرات کی تصدیق ہونا ہے۔
یہ ویکسین اس وقت ٹرائل کے آخری مرحلے سے گزر رہی ہے اور توقع کی جارہی تھی کہ بہت جلد اسے متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن (این ایچ سی)کے سربراہ زینگ زونگائی نے اگست میں بتایا تھا کہ جولائی سے اہم ورکرز کو لگ بھگ ایک ماہ سے تجرباتی کورونا وائرس ویکسین کا استعمال کرایا جارہا ہے تاکہ وہ کووڈ 19 سے محفوظ رہ سکیں۔
اس وقت انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے افراد کو یہ ویکسین استعمال کرائی گئی یا کونسی ویکسین کو استعمال کیا جارہا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ طبی عملے اور سرحدی حکام کو یہ ویکسین دی گئی ہے۔
مگر اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سی این بی جی کی 2 تجرباتی ویکسینز میں سے کوئی ایک ہوسکتی ہے۔
چین کی جانب سے اگست میں کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ممالک میں جانے والے کاروباری افراد کو بھی ویکسین کا استعمال کرایا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ چین میں 8 کورونا ویکسینز پر کام ہورہا ہے جن میں سے 4 کلینیکل ٹرائل کے حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں، جن سے میں 3 کو ایمرجنسی سویلین استعمال کی منظوری دیئے جانے کا امکان ہے۔
ایک ویکسین فوج کے لیے مختص کی جائے گی۔
زاؤ سونگ نے چائنا ریڈیو کو بتایا کہ ویکسین سے ایک فرد کو ممکنہ طور پر 3 سال تک کورونا وائرس سے تحفظ مل سکے گا۔
ان کا کہنا تھا 'جانوروں پر ہونے والے تجربات کے نتائج اور دیگر تحقیقی نتائج سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین سے ملنے والا تحفظ ایک سے 3 سال تک برقرار رہ سکتا ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا 'ہم نے ابتدائی 180 رضاکاروں کی مانیٹرنگ جاری رکھی، جن کو 5 ماہ پہلے ویکسینز استعمال کرائی گئی تھی اور کورونا وائرس کے لیے اینٹی باڈیز کی سطح کو تاحال مستحکم سطح پر دریافت کیا گیا اور کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ ویکسین وائرس کی تمام اقسام کے خلاف موثر ثابت ہوگی۔
ان کے بقول 'کووڈ 19 کا مرکزی جین سیکونس اور پروٹین لیول میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور آئندہ برسوں میں وائرس میں آنے والی تبدیلیوں سے ویکسین کی افادیت متاثر نہیں ہوگی'۔