شدید بارشیں اور سیلابی صورتحال۔ 53 افراد ہلاک

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے آج بروز پیر ملک کے اکثر حصوں میں مزید بارش کا امکان ظاہر کیا ہے، جس سے دریاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
|

اسلام آباد: آفیشلز نے پیر کو اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ تین دنوں کی بارش میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 53 ہوگئ ہے۔

 پاکستان ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ایک آفیشل کامران ضیا کے مطابق سول اور ملٹری ادارے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ بارشوں اور سیلاب سے پورے ملک میں اموات ہوئی ہیں۔

 ان کے مطابق بارہ افراد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں مرنے والوں کی تعداد آٹھ ہے۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔ بلوچستان میں مرنے والوں کی تعداد دس ہے جبکہ صوبہ سندھ میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

سیلاب اور بارشوں سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے گزشتہ روز اتوار 4 جولائی کو نئی سیلابی وارنگ جاری کی ہے۔

اتھارٹی نے خبر دار کیا ہے کہ ملک میں آج پیر 5 جولائی مزید بارشوں کا امکان ہے، جس سے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں مزید شدت اور سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

شدید بارشوں سے ملک  کے سب سے بڑے شہر کراچی میں حکام کے مطابق کم سے کم اُنیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان کے شمالی مغربی علاقے میں سب سے زیادہ یعنی بیس ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ڈاکٹر سیمی جمالی نے خبررساں ادرے اے ایف پی کو بتایا کہ زیادہ تر ہلاکتیں کرنٹ لگنے اور مکانات کی چھتیں گرنے کے سبب ہوئی ہیں۔

خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہفتے کے روز مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد کراچی شہر میں نہ صرف کئی اموات ہوئی ہیں بلکہ نظامِ زندگی بری طرح مفلوج ہوچکا ہے۔

بارشوں کے حالیہ سلسلے سے صوبہ بلوچستان ، سندھ اور خیبرپختونخواہ سب سے ذیادہ متاثرہ ہوئے ہیں۔

بارشوں کے بعد کراچی کے بعض علاقوں میں گاڑیاں کھلونوں کی طرح پانی میں بہتی اور ڈوبتی دکھائی دیں۔

خیبرپختونخواہ سے لے کر صوبہ بلوچستان تک ذیادہ تر اموات کرنٹ لگنے، پانی میں ڈوبنے اور گھروں کی چھتوں یا دیوار گرنے سے ہوئی ہیں۔ کراچی میں ایک گھر پر موبائل فون ٹاور گرنے سے بھی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

بلوچستان:

صوبہ بلوچستان میں بھی بارشوں سے بہت تباہی ہوئی ہے اور یہاں پر بارش کے سبب مختلف واقعات میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کے ساتھ اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم جھل مگسی، نصیرآباد اور جعفر آباد شدید متاثر ہوئے ہیں ۔ ڈان نیوز کے مطابق اب تک مختلف علاقوں میں پندرہ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

مجموعی طور پر ان تینوں اضلاع میں درجنوں گاؤں زیرِ آب آگئے ہیں ۔ مکانوں اور مویشیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ تربت میں ایک گاڑی سیلابی ریلے میں بہہ گئی جس میں تین خواتین ہلاک ہوگئیں۔

دوسری جانب پی ڈی ایم اے بلوچستان نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان جسمیں بارہ سو خیمے اور 2500 راشن کے پیکٹس بھجوا دئیے ہیں تاہم زمینی رابطےمنقطع ہونے کے باعث اب تک یہ سامان متاثرین تک نہیں پہنچ سکا ھے ۔ڈی جی پی ڈی ایم اے خالد بلوچ پرامید ہیں کہ متبادل راستوں کے زرئیعے یہ سامان متاثرہ افراد تک پہنچ جائےگا۔

  تربت میں ایک گاڑی سیلابی ریلے میں بہہ گئی جس میں تین خواتین ہلاک ہوگئیں۔

سندھ:

 سندھ میں کراچی، ٹھٹھہ، حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں میں شدید بارشوں کے بعد صورتحال ابتر ہے۔ ان میں سب سے زیادہ متاثرہ کراچی ہوا ہے۔

کراچی میں گزشتہ روز چند گھنٹوں کی بارش سے نظامِ زندگی بری طرح مفلوج اور تقریباً تیس گھنٹے گزرجانے کے بعد کراچی کے بیشتر علاقوں می بجلی اور معمولاتِ زندگی بحال نہیں ہوسکے ہیں۔

 سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کرنٹ لگنے، دیوار گرنے اور ندی نالوں میں ڈوبنے سے مرنے والوں کی تعداد پندرہ جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کےمطابق 21 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

 آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آرمی اور پاکستان نیوی دونوں نے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ آرمی کے انجینئرنگ کور نے مختلف علاقوں سے پانی کی نکاسی کا کام بھی جاری رکھا ہوا ہے۔

   سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کراچی میں  کرنٹ لگنے، دیوار گرنے اور ندی نالوں میں ڈوبنے سے مرنے والوں کی تعداد پندرہ جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کےمطابق 21 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

 ڈی جی رینجرز میجر جرنل رضوان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ سندھ بھر میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کیلئے رینجرز نے 5 ملین روپے سے فنڈ قائم کردیا ہے اور مختلف علاقوں میں 20 کیمپ قائم کئے گئے ہیں۔

 متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی کے رکن اور سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ کراچی کی حالت دیکھ کر ان کا دل خون کےآنسو رورہا ہے اور صوبائی و ضلعی حکومتیں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں اسی لئے فوج کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

 گزشتہ شب گڈاپ  اور ملیر ٹاؤن سمیت کراچی کے مضافاتی علاقے زیرِ آب آگئے تھے

 مختلف امدادی اداروں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں  18گھنٹے کی امدادی کارروائیوں میں مجموعی طور چار ہزار افراد کو ریسکیو کرکے انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیاہے۔

خیبرپختونخواہ :

صوبہ خیبرپختونخواہ سیلاب سے متاثرہ ہونے والا تیسرا اہم صوبہ ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی جنوبی وزیرستان ،گومل زام سے آنے والے سیلابی ریلے  میں تین سو سے زائد مکانات کو بہہ کرلے گئے درجنوں دیہاتوں کا زمینی راستہ منقطع ہوگیا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں جنوبی وزیرستان ،دریائے گومل سے آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی تین سو سے زائد مکانات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔

تحصیل کلاچی ،کے علاقہ لونی،گرہ بختیار،ہارون آباد ،برن زائی سمیت درجنوں دیہاتوں میں سیلابی ریلے تین سو سے زائد مکانات کو بہا کر لے گئے لوگوں نے اپنی مدد اپ کے تحت نقل مکانی شروع کردی سیلابی ریلے سڑکوں کو بہا کر لے گئے دیہاتوں کا ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ زمینی رابط منقع علاقہ مکین بے سروسامانی کی حالت میں ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں جنوبی وزیرستان ،دریائے گومل سے آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی تین سو سے زائد مکانات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔

ابھی تک حکومتی سطح پر متاثرین تک کوئی بھی امداد یا مشینری نہیں پہچ سکی دور دراز علاقوں میں زمینی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک صیحح نقصانات کا انداز نہیں لگایا جاسکتا اور میڈیا کی ٹیمیوں کی بھی ان علاقوں تکرسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔

تحصیل کلاچی کے سیلابی ریلوں سے متاثرہ اپنی مدد اپ کے تحت اپنے گھروالوں اور سامان سمیت مال مویشوں کو محفوظ مقامات پر منتقیل کر رہے ہیں۔ ہیںجبکہ ضلعی انتظامیہ سمیت متعلقہ محکموں کی امداد ابھی تک کاغذی کاروئی کے مراحل میں ہے۔

   ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں جنوبی وزیرستان ،دریائے گومل سے آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی تین سو سے زائد مکانات صفحہ ہستی سے مٹ گئے

اب سے تین سال قبل دوہزار دس میں پاکستان کی تاریخ کا ہولناک سیلاب آیا تھا جس میں لاکھوں افراد متاثر و بے گھر ہوئے تھے۔ محتاط اندازے کے مطابق اس سیلاب میں 1800 افراد ہلاک اور دو کروڑ افراد متاثرہ ہوئے تھے۔

پشاور سے ظاہر خان کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ۔