سی سی پی او لاہور سے اختلافات: آئی جی پنجاب تبدیل، انعام غنی کو ذمہ داری سونپ دی گئی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں ایک مرتبہ پھر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس کو تبدیل کردیا گیا اور شعیب دستگیر کی جگہ انعام غنی کو اس عہدے کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔
وفاقی حکومت نے ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کے عہدے پر فرائض سر انجام دینے والے سینئر پولیس افسر انعام غنی کو آئی جی پنجاب کے عہدے پر تعینات کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا۔
خیبرپختونخوا کے ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے انعام غنی اس سے قبل ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب اور سی پی او کے عہدے پر بھی تعینات رہ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ شعیب دستگیر کی آئی جی کے عہدے سے تبدیلی حال ہی میں تعینات ہونے والے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور عمر شیخ سے اختلافات کے بعد سامنے آئی۔
اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے ایک ٹوئٹ کی اور بتایا کہ انعام غنی نئے آئی جی پنجاب ہوں گے۔
انہوں نے لکھا کہ ان کو مبارک باد اور اُمید کرتے ہیں کہ وہ بہترین کام کریں، پنجاب میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، وہ دھیمے اور پر وقار انداز میں کام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اس عہدے کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کامیابی عطا فرمائے۔
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں افسر کو اس عہدے پر نہ لگائیں، عثمان بزدار
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے پنجاب اسمبلی میں اپنے چیمبر میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران آئی جی کی تبدیلی کی تصدیق کی اور کہا کہ صوبہ ایک ضابطے اور قانون کے تحت چلتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا نظام چلتا رہتا ہے، کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے، نئے آئی جی کی اولین ترجیح صوبے میں امن و امان کا قیام ہونا چاہیے۔
عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وفاق اور صوبے میں رابطہ ہے، چیف ایگزیکٹو اور صوبے کے ساتھ مشاورت سے معاملات طے ہوتے ہیں، چیف ایگزیکٹو کی مرضی کے بغیر صوبے کا کوئی کام نہیں ہوتا۔
وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم کسی آفیسر کو کسی عہدے پر لگائیں اور کوئی آکر کہہ دے کہ اس کو نہ لگائیں، اس سے پہلے جن آئی جیز کے ساتھ کام کیا ان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے۔
بعد ازاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں لکھا گیا کہ پولیس سروس پاکستان کے 21ویں گریڈ کے افسر انعام غنی کو پروونشل پولیس افسر (پی پی او) تعینات کردیا گیا ہے اور اس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔
ساتھ ہی ایک اور نوٹیفکیشن میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے عہدے سے ہٹائے جانے والے شعیب دستگیر کو سیکریٹری نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن تعینات کردیا گیا۔
اے آئی جی کا نئے آئی جی کی زیر نگرانی کام سے انکار
ادھر پنجاب پولیس کے اے آئی جی طارق مسعود یاسین نے نئے آئی جی کی زیر نگرانی کام کرنے سے انکا کردیا ہے۔
انہوں نے پنجاب پولیس کو لکھے گئے خط میں کہا کہ میں نے مکمل عزت و وقار اور اصولوں کے ساتھ خدمات انجام دی ہیں اور اب جبکہ شعیب دستگیر کا تبادلہ ہو چکا ہے اور نئے آئی جی پولیس مجھ سے جونیئر ہیں لہٰذا میں حکومت پنجاب سے درخواست کرتا ہوں کہ میرا فوری طور پر تبادلہ کیا جائے۔
طارق مسعود یاسین نے کہا کہ جب تک اس حوالے سے فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک میں نئے آئی جی سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے چھٹیوں کی اجازت دی جائے۔
سی سی پی او لاہور اور سابق آئی جی کے درمیان اختلاف
واضح رہے کہ اس سے قبل یہ رپورٹس آئی تھیں کہ شعیب دستگیر نے ان کی مشاورت کے بغیر عمر بن شیخ کو حال ہی میں لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) کے تقرر پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تحت کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔
ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ان کے کسی 'مناسب جگہ' پر تبادلہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا، آئی جی پی کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی گئی تھی کہ سی سی پی او نے مبینہ طور پر اپنے عہدے پر آنے کے بعد چند پولیس اہلکاروں سے گفتگو کے دوران چند تبصرے کیے تھے۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں انتظامی تبدیلیاں: آئی جی اور چیف سیکریٹری کے تبادلے
اس پیش رفت سے متعلق معلومات رکھنے والے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ شعیب دستگیر نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی اور ان سے 'کسی اور مناسب جگہ پر تبادلہ' کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ وہ سی سی پی او کی برطرفی تک صوبائی پولیس چیف کے عہدے پر نہیں رہیں گے۔
یہ بھی کہا جارہا تھا کہ وہ پیر کے روز دفتر سے غیر حاضر رہے تھے اور وزیر اعلیٰ سے وردی کے بجائے سادہ کپڑوں میں ملاقات کی تھی جس سے پنجاب حکومت کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ عمر بن شیخ کو کسی قیمت پر سی سی پی او کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ سی سی پی او کے تبصرے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے آئی جی پی مشتعل ہوئے، وہ اپنے دفتر میں چند پولیس افسران سے گفتگو کے دوران ان کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں تھے۔
جیسے ہی یہ بات شعیب دستگیر تک پہنچی تو انہوں نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور وزیر اعظم عمران خان سے شکایت کی اور سی سی پی او کے تبادلے کا مطالبہ کیا تھا جسے انہوں نے مسترد کردیا تھا۔
بعد ازاں لاہور واپسی پر آئی جی پی نے سی سی پی او کے تبادلے تک کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ہی سی سی پی او کے عہدے کے لیے عمر بن شیخ کے نام کی سفارش وزیر اعظم سے کی تھی۔
45 منٹ کے انٹرویو کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے بھیجی گئی ایک وفاقی حکومت کی ٹیم نے عمر بن شیخ کو منتخب کرلیا تھا اور وزیر اعظم نے 3 ستمبر کو اپنے دورہ لاہور کے دوران ان کی حتمی منظوری دے دی تھی، تاہم آئی جی پی کو مبینہ طور پر اس پورے عمل کے دوران اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
نئے آئی جی پنجاب انعام غنی
خیبر پختونخواہ کے ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے پولیس سروس آف پاکستان کے سینئر افسر انعام غنی ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کے عہدے تعینات تھے اور اس سے قبل ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب، سی پی او کے عہدے پر بھی تعینات رہ چکے ہیں۔
انعام غنی نے 1989میں بطوراے ایس پی پولیس سروس آف پاکستان میں شمولیت کی اور ان کا تعلق پولیس سروس کے سترھویں کامن سے ہے۔
انہوں نے اپنے کیریئرکے آغاز میں سی ایس اے اورنیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد میں خدمات سر انجام دیں، جس کے بعد اے ایس پی پیپلزکالونی فیصل آباد، اے ایس پی سٹی فیصل آباد، اے ایس پی نواں کوٹ، لاہور کے عہدوں پر فرائض سر انجام دیے۔
انعام غنی نے ایس ایس پی آپریشنز پشاور، ایس پی ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد اور ایس ایس پی سیکیورٹی اسلام آباد کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
انہوں نے ایس پی سائٹ کراچی، ڈی پی او ہری پور، ڈی پی او کرک، ڈی پی او صوابی، ڈی پی او مانسہرہ اور ڈی پی او چارسدہ بھی مقرر کیا گیا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) میں بھی کلیدی عہدوں پر خدمات سر انجام دیا۔
سینیئر پولیس افسر نے ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب، ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد، ڈائریکٹر ایف آئی اے خیبر پختوانخواہ، کمانڈنٹ ایف آئی اے اکیڈمی، ڈائریکٹنگ اسٹاف نیشنل سکول آف پبلک پالیسی لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی بی اسلام آباد کے عہدوں پر فرائض سر انجام دیا۔
انعام غنی اقوام متحدہ کے مشن موزمبیق، آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی امریکا اور کویت میں پاکستانی سفارتی خانے میں بھی فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔
سینئر پولیس افسر انعام غنی کا شمار پنجاب پولیس کے انتہائی پروفیشنل، منجھے ہوئے اور تجربہ کار بہترین افسران میں کیا جاتا ہے اور آئی جی پنجاب تعینات ہونے سے قبل ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔
2 سال میں 5 آئی جی پنجاب تبدیل
خیال رہے کہ پنجاب میں جب 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تھی تو اس وقت صوبے میں پولیس کے سربراہ سید کلیم امام تھے۔
پنجاب پولیس کی ویب سائٹ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق وہ 11 ستمبر 2018 تک اپنے عہدے پر رہے جس کے بعد محمد طاہر کو نیا آئی جی پنجاب پولیس تعینات کردیا گیا۔
تاہم محمد طاہر ایک ماہ تک ہی اس عہدے کو اپنے پاس رکھ سکے اور 15 اکتوبر 2019 کو انہیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑا اور پھر اسی روز امجد جاوید سلیمی کو یہ ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ‘سی سی پی او کے ہٹائے جانے تک’ آئی جی پی پنجاب نے فرائض انجام دینے سے انکار کردیا
نیشل پولیس اکیڈمی میں بطور کمانڈنٹ فرائض سرانجام دینے والے گریڈ 22 کے پولیس افسر امجد جاوید سلیمی بھی صوبے کی ذمہ داریاں 6 ماہ ہی نبھا سکے اور 17 اپریل 2019 کو ان کا بھی تبادلہ کردیا گیا۔
اسی روز کیپٹن (ر) عارف نواز خان کو ایک مرتبہ پھر آئی جی پنجاب بنا دیا گیا، وہ اس سے قبل بھی سال 2017 سے 2018 کے دوران صوبے کی پولیس کے سربراہ رہ چکے تھے۔
تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایک مرتبہ پھر آئی جی بننے والے عارف نواز خان بھی اس عہدے پر 7 ماہ تک برقرار رہے جس کے بعد انہیں بھی ہٹا دیا گیا۔
اس کے بعد 28 نومبر 2019 کو شعیب دستیگر نے صوبے کے آئی جی پولیس کی ذمہ داری سنبھالی تھیں تاہم 8 اگست 2020 کو ساڑھے 9 ماہ بعد انہیں بھی تبدیل کردیا گیا۔