پولیس اہلکار قتل کیس: بلوچستان حکومت کا عبدالمجید اچکزئی کی بریت کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ
کوئٹہ: بلوچستان حکومت نے ٹریفک پولیس اہلکار کے قتل کیس میں نامزد ملزم سابق رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید خان اچکزئی کی بریت کے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے ڈان نیوز سے بات چیت کے دوران بتایا کہ اپیل کی درخواست کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔
مزید پڑھیں: ٹریفک پولیس اہلکار قتل کیس: عدم ثبوت پر سابق ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی بری
لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلے اور دستاویزات کا جائزہ لے کر درخواست کو حتمی شکل دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف جلد بلوچستان ہائیکورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
بعد ازاں ترجمان بلوچستان حکومت نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پولیس ڈپارٹمنٹ نے ٹریفک پولیس اہلکار کے قتل کیس کو ہائی کورٹ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ حکومت نے عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کی اور یہ کہا کہ عدالتیں میرٹ پر فیصلہ کرتی ہیں۔
لیاقت شاہنواری نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت بلوچستان نے اس کیس میں کسی کو 'فیور' نہیں دی.
خیال رہے کہ 4 ستمبر کو کوئٹہ کی ماڈل کورٹ نے ٹریفک پولیس اہلکار قتل کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدم ثبوت پر سابق چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عبدالمجید خان اچکزئی کو باعزت بری کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹریفک سارجنٹ کی ہلاکت: دہشتگردی ایکٹ کے تحت کیس کی سماعت نہ کرنے کی اپیل مسترد
ماڈل کورٹ کے جج دوست محمد مندوخیل نے ٹریفک پولیس اہلکار قتل کیس کی سماعت کی تھی۔
یاد رہے کہ یہ کیس 2017 سے زیر سماعت ہے اور ابتدا میں یہ کیس انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت تھا کیونکہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات کو شامل کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں ملزم کے وکلا کی جانب سے درخواست دی گئی تھی کہ کیس انسداد دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا اسے ماڈل کورٹ منتقل کیا جائے۔
جس کے بعد کیس سے دہشت گردی کی دفعات کو ختم کرکے اسے ماڈل کورٹ منتقل کردیا گیا تھا۔
ٹریفک پولیس اہلکار کے قتل کا معاملہ
خیال رہے کہ جون 2017 میں ٹریفک پولیس اہلکار سب انسپکٹر حاجی عطاءاللہ کو مجید اچکزئی کی تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا تھا، جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔
اس کیس میں ابتدا میں پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی تاہم میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کے بعد رکن صوبائی اسمبلی کو 24 جون کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پولیس اہلکار کو کچلنے کا واقعہ: سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس
واضح رہے کہ جون 2017 میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کوئٹہ میں سارجنٹ کو کچلنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) بلوچستان پولیس سے 3 دن میں رپورٹ طلب کی تھی۔
دوسری جانب رکن اسمبلی عبد المجید اچکزئی نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ٹریفک پولیس اہلکار کے اہل خانہ کو خون بہا ادا کرنے کو تیار ہیں۔
یاد رہے کہ اسی سال 23 دسمبر کو کوئٹہ کی جوڈیشل مجسٹریٹ نے ٹریفک پولیس اہلکار کے قتل میں استعمال ہونے والی گاڑی کی ٹیمپرنگ کے کیس میں بلوچستان کے رکن اسمبلی عبد المجید خان اچکزئی کو باعزت بری کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹریفک سارجنٹ ہلاکت کیس: رکن اسمبلی مجید اچکزئی جیل سے رہا
خیال رہے کہ کوئٹہ میں پولیس اہلکار کو گاڑی سے کچلنے کے حوالے سے کیس میں انکشاف ہوا تھا کہ عبدالمجید اچکزئی کے زیرِ استعمال گاڑی نان کسٹم پیڈ ہے جس کے بعد ان پر گاڑی ٹیمپرنگ کیس کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
تاہم انہیں 28 دسمبر 2017 کو اس مقدمے میں عدالت نے 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض ضمانت دے دی تھی۔