دنیا

بھارت میں کورونا کی ابتر صورتحال، ایک دن میں 90 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ

بھارت میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 41 لاکھ سے تجاوز کر گئی، وائرس سے متاثرہ دوسرا بڑا ملک بن گیا۔

کورونا وائرس کے مزید 90 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد بھارت دنیا بھر میں امریکا کے بعد وائرس سے متاثرہ دوسرا بڑا ملک بن گیا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بھارت میں گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران کورونا وائرس کے مزید 90 ہزار 632 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد مجموعی کیسز کی تعداد 41 لاکھ 13ہزار 811 ہو گئی ہے جبکہ امریکا 62 لاکھ 49 ہزار 163 کیسز کے ساتھ سرفہرست ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت اور چین سرحدی کشیدگی کم کرنے پر متفق

بھارت میں گزشتہ ایک دن میں ایک ہزار 65 افراد کی موت بھی ہوئی جس کے باعث وائرس سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 70 ہزار 626 ہو گئی ہے۔

بھارت میں ایک ہی دن میں رپورٹ ہونے والے 90 ہزار 632 کیسز ایک ریکارڈ ہے اور اب تک کسی بھی ملک میں کورونا وائرس کے ایک دن میں اتنے زیادہ کیسز رپورٹ نہیں ہوئے۔

ابتدائی طور پر یہ وائرس بھارت کے گنجان آباد علاقوں میں زیادہ تیزی سے پھیلا تاہم اب یہ ملک کی تمام ریاستوں کا رخ کر چکا ہے اور بے انتہا تیزی سے پھیل رہا ہے۔

حکام نے وائرس سے صورتحال بے انتہا بگڑنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے کیونکہ چھوٹے شہروں، گاؤں اور قصبوں میں صحت کی بنیادی سہولیات کی کمی کے سبب وہاں کے لوگ زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس کی تیارکردہ کورونا ویکسین ابتدائی مرحلے میں پاس ہوگئی، رپورٹ

ایک کروڑ 40 لاکھ آبادی کے حامل ملک میں وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ پر ماہرین حیران نہیں ہیں کیونکہ بھارت نے ابتدائی طور پر وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ردعمل میں تاخیر کی اور پھر بعد میں بھی صحیح طریقے سے احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد نہیں کرایا گیا۔

وائرس کا پھیلاؤ دیکھتے ہوئے مارچ میں سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا جس کے سبب دو ماہ تک معاشی سرگرمیاں تقریباً بند رہیں البتہ کمزور طبقے پر لاک ڈاؤن کے سنگین اثرات کو دیکھتے ہوئے حکومت کے پاس لاک ڈاؤن کے خاتمے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

بھارت میں اکثر کیسز ریاست مہاراشٹر، تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تیلنگانہ اور کرناٹکا سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔

سب سے زیادہ ریاست مہاراشٹر متاثر ہوئی ہے جہاں اب تک 8 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعداد بھی 26 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ عوام نے ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے جیسی پابندیوں کو یکسر نظرانداز کردیا ہے جس سے صورتحال مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں: ایشیا میں کورونا وائرس کے باعث مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز

سیوا گرام کے گاؤں میں ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس پی کلنتری نے کہا کہ عوام کے رویوں میں تھکان کا عنصر غالب آ رہا ہے جس کی وجہ سے اب یہ وائرس تیزی سے شہروں سے گاؤں کا رخ کر رہا ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ابھی بری صورتحال سامنے آنا باقی ہے اور سرنگ کے کنارے پر روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔

بھارت میں ٹیسٹنگ بھی بڑھا دی گئی ہے اور روزانہ 10 لاکھ سے زائد ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں البتہ اسکریننگ کے لیے اپنائے جانے والے طریقہ کار سے مزید مسائل جنم لے رہے ہیں کیونکہ یہ ٹیسٹ سستے ہوتے ہیں اور ان سے جلدی نتیجہ بھی آتا ہے البتہ اس سے آنے والے نتائج درست نہیں ہیں جس کی وجہ سے خطرہ یہ ہے کہ وائرس کا شکار کئی افراد غلط جانچ کی وجہ سے کلیئر قرار دیے جا سکتے ہیں۔

بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش میں نظام صحت انتہائی محدود ہے جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ماہرین صحت نے بدترین صورتحال کا عندیہ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کے ساتھ سرحدی مسائل مذاکرات سے حل ہوسکتے ہیں، بھارتی آرمی چیف

اترپردیش میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد متاثر اور 3 ہزار 811 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہسپتال کے بستروں اور سہولیات میں کمی کے باعث یہاں کیسز کا بڑھنا ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔

ریاست کے دارالحکومت لکھنؤ کی نرس سجاتا پرکاش کورونا وائرس کا شکار ہوئیں لیکن وہ جس ہسپتال میں کام کرتی تھیں، اس نے انہیں داخل کرنے سے منع کردیا کیونکہ ہسپتال میں کوئی بستر ہی خالی نہیں تھا۔

نرس کو 24 گھنٹے تک باہر بینچ پر سرجیکل وارڈ کے باہر انتظار کرنا پڑا جس کے بعد انہیں ایک بستر ملا۔

سجاتا پرکاش کے شوہر وویک کمار نے کہا کہ حکومت کورونا کی جنگ سے نبردآزما افراد پر پھولوں کی پتیاں تو نچھاور کر سکتی ہے لیکن جب انہی ڈاکٹرز اور عملے کو جب ہسپتال کی ضرورت ہو تو کیا انتظامیہ انہیں وہ فراہم نہیں کر سکتی؟

مزید پڑھیں: لندن: خواتین کو قتل کے بعد فریزر میں رکھنے والے مجرم کو عمر قید

سجاتا کو تو ایک دن انتظار کے بعد ہسپتال میں بستر مل گیا لیکن دیگر افراد اتنے بھی خوش قسمت نہیں۔

صحافی امرت موہن دوبے اس ہفتے بیمار پڑے تو ان کے دوست نے ایمبولینس کے لیے کال کی جو دو گھنٹے تاخیر سے آئی اور جب تک دوبے کے ہسپتال پہنچایا گیا، اس وقت تک وہ مر چکے تھے۔

ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک صحافی ظفر ارشاد نے کہا کہ اگر ایمبولینس وقت پر آ جاتی تو ہم امرت موہن دوبے کو بچا سکتے تھے۔