پاکستان

کراچی کیلئے 1113 ارب روپے کا پیکج: 62 فیصد وفاق اور 38 فیصد حصہ صوبے کا ہوگا، اسد عمر

شہر قائد کے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وفاق اور صوبے کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب

وفاقی وزیر اسد عمر نے کراچی کے امدادی پیکج پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ شہر قائد کے لیے اعلان کردہ 1113 ارب روپے کے پیکج کے لیے 62 فیصد فنڈنگ وفاقی حکومت اور 38 فیصد سندھ حکومت فراہم کرے گی۔

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کی جانب سے 1113 ارب روپے کے پیکج کے اعلان کے فوری بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ اس پیکج میں 800 ارب روپے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت صرف 300 ارب روپے فراہم کرے گی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا کراچی کیلئے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان

کراچی میں وفاقی وزیر علی زیدی سمیت دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ چونکہ کراچی کے اندر تمام اختیارات ایک ادارے کے پاس نہیں ہیں اور یہاں اختیارات کی تقسیم ہے اور اس کی وجہ سے فیصلہ سازی نہیں ہوپاتی اور کام کرنے میں رکاوٹ آتی ہے جس کی وجہ سے ہم آگے نہیں بڑھ پاتے اور کراچی کو اس کا حق نہیں ملتا، لہٰذا کراچی سے متعلق اس تاریخی پیکج پر کام کرنے کے لیے سب سے کلیدی بات یہ ہے کہ سب اپنی سیاست الگ رکھیں اور عوام کی خدمت کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آکر کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہماری وزیراعلیٰ سے ملاقات ہوئی تو اس میں بھی ہم نے اسی بات کا اظہار کیا جس کی تائید انہوں نے بھی کی تاہم آج اس بات کو دوہرانے کی ضرورت کیوں پیش ہوئی یہ میں واضح کروں گا۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ جب ہم پرسوں بیٹھے ہوئے تھے اور ان منصوبوں کو حتمی شکل دے رہے تھے تو اس وقت ایک دو منصوبوں کے سوا تقریباً تمام منصوبوں پر اتفاق تھا اور اس کی وجہ سے یہ بحث طلب معاملہ ہوگیا کہ وفاق زیادہ پیسے لگا رہا ہے یا صوبہ زیادہ پیسے دے رہا ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مجھے کہا کہ اس کی وجہ سے یہ بحث شروع ہوجائے گی کہ وفاق نے زیادہ پیسہ لگایا، جس پر میں نے انہیں کہا کہ ان منصوبوں پر ہماری بات چیت جاری رہے گی لیکن جب ہم اعلان کریں گے تو یہ نہیں بتائیں گے کہ وفاق کیا کر رہا اور صوبہ کیا کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں، لگتا ہے سندھ اور مقامی حکومت کی شہریوں سے دشمنی ہے'

انہوں نے کہا کہ اگر وفاق اکیلا یہ کام کرسکتا ہوتا تو ہم کرلیتے اور اگر صوبے کے لیے بذات خود یہ ممکن ہوتا تو وہ کرچکے ہوتے، تاہم چونکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پاکستان اور کراچی کے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کی ضرورت ہے تو پھر اسی جذبے کے ساتھ عوام کے سامنے یہ بات رکھتے ہیں کہ ہم یہ کرنے جارہے ہیں اور مشترکہ طور پر کر رہے ہیں، یہ ریس نہیں ہے کہ کس نے کتنا پیسا لگایا اور کس نے نہیں لگایا، ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے بعد مجھے لوگوں کے پیغام آنے لگے کہ پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا پر چل رہا ہے کہ صوبہ 800 ارب روپے لگا رہا ہے لیکن میں نے اسے نظر انداز کردیا کہ چلو یہ سوشل میڈیا کے بچوں نے کیا ہو گا۔

اسد عمر نے کہا کہ اس کے بعد مجھے ایک ویڈیو کلپ بھیجا گیا جو پیپلز پارٹی کے کسی ایم پی اے، ایم این اے کا کلپ نہیں تھا بلکہ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن کا کلپ تھا اور اس میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ 1113 ارب روپے میں سے 800 ارب روپے تو صوبہ دے رہا ہے اور وفاق تو صرف 300 ارب روپے دے رہا ہے۔

مزید پڑھیں: 'وفاق و حکومت سندھ کا 1100 ارب روپے مختص کرنا کراچی کی ترقی کیلئے اچھا آغاز ہے'

ان کا کہنا تھا کہ مجھے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے کوئی گلا نہیں ہے کیونکہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر ہمیں اعتراض ہو لیکن کیونکہ پارٹی چیئرمین نے بات کی ہے اس لیے ہم نے بہتر سمجھا کہ ریکارڈ کی درستگی کے لیے آپ کو بتائیں کہ صورتحال کیا ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم کمرے کے اندر اور باہر ایک ہی بات کرتے ہیں اور پرسوں جو منصوبوں کا پلان رکھا گیا تھا اس میں 62 فیصد فنڈنگ وفاق جبکہ 38 فیصد صوبہ کرے گا یعنی دو تہائی فنڈنگ وفاق کی تھی تاہم ہم اس بحث میں نہیں پڑھنا چاہتے کہ کون کتنا خرچ کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ چاہتے تھے کہ کچھ منصوبوں کی قیادت سندھ حکومت کرے جس پر ہم نے انہیں پیچیدگیوں سے آگاہ کیا اور ہم نے کہا کہ اگر اس میں کوئی عدلیہ کی ہدایت نہ ہو تو آپ کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ سندھ کو 90 فیصد کراچی کما کر دیتا ہے کہ تو یہ شہر اس بات کا مستحق ہے کہ سندھ حکومت اس پر 800 ارب روپے لگائے لیکن یہ ان کا فیصلہ ہے لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کیونکہ ہمیں یہ دکھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم سندھ کی حکومت سے زیادہ کر رہے ہیں، صرف سچ بولیے، جو بات ہے اتنا بتائیے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی جم خانہ میں نئی تعمیرات روکنے، کڈنی ہل پارک کی زمین مکمل واگزار کرانے کا حکم

انہوں نے کہا کہ اگر یہ کاوش کامیاب ہو گی تو صرف اس بنیاد پر ہو گی کہ پاکستان کے تمام ریاستی ادارے، پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اس بات کا ادراک ہو کہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا یہ شہر فعال نہیں ہو گا، اگر اس کے عوام کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی تو پاکستان ویسے ترقی نہیں کر سکتا جیسی ہم سب کی خواہش ہے۔

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ میں پریس کانفرنس کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھا لیکن میں نے فیصلہ کیا اگر ہم نے بالکل ابتدا میں ہی اس بات کو واضح نہ کردیا تو ہو سکتا ہے کہ کل اور زیادہ مشکلات پیدا ہوں اور یہ کاوش ریل کی پٹڑی سے اتر جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کراچی اور سندھ کے عوام کا حق ہے اور یہ کراچی، سندھ اور پاکستان کی قیادت کا فرض ہے کہ یہ جو فرض ہے کہ کراچی کا یہ قرض اتارا جائے اور اس میں کوئی سیاست نہیں ہے۔

اسد عمر نے مزید کہا کہ ہم اس سلسلے میں مشترکہ طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن خدارا، اسی جذبے سے کام کریں کیونکہ آپ اور ہم مانتے ہیں کہ کراچی کی وہ صورتحال نہیں ہے جو ہونی چاہیے اور اگر آپ ایک قدم آگے بڑھائیں گے تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔

مزید پڑھیں: ’کراچی بہتر کا مستحق ہے، بلکہ بہت بہتر کا‘

البتہ انہوں نے واضح کیا کہ یہ نہیں ہو گا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہو، یہ نہیں ہو گا کہ حقائق کو مسخ کر کے بتایا جائے اور ہم خاموش رہیں۔

اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق نے کہا کہ جو پیکج دیا گیا ہے وہ کراچی پر کوئی احسان نہیں ہے، یہ کوئی امدادی پیکج نہیں بلکہ ترقیاتی پیکج ہے جو کراچی کے عوام کو ان کا حق دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی ملک کا معاشی حب ہے اور اگر کراچی پر آئندہ 3 سال میں 1113 ارب روپے لگائے جائیں گے تو اس کے اگلے تین سال میں 3300 ارب روپے کراچی اس ملک کو کما کر دے گا۔

انہوں نے کہا کہ کل متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے وفد کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی اور ہم نے مردم شماری کے حوالے سے اپنے تحفظات سامنے رکھے، جس پر عمران خان صاحب سے کہا کہ کراچی کے عوام کو صحیح طریقے سے گنا جائے کیونکہ چیف جسٹس صاحب نے بھی کہا کہ کراچی کی آبادی ساڑھے 3 کروڑ ہے۔