پاکستان

استعفیٰ منظور کر لیتے تو خود بھی مستعفی ہونا پڑ جاتا، مریم نواز

این آر او کیوں اور کیسے دیا جاتا ہے، کس کو دیا جاتا ہے، ایک دوسرے کو دیا جاتا ہے، قوم کو سمجھانے کا شکریہ، نائب صدر (ن) لیگ

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا ہے کہ استعفیٰ منظور کر لیتے تو خود بھی مستعفی ہونا پڑ جاتا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں مریم نواز نے کہا کہ 'احتساب کا بیانیہ اپنی موت آپ مر گیا، استعفیٰ منظور کر لیتے تو خود بھی مستعفی ہونا پڑ جاتا۔'

انہوں نے کہا کہ 'این آر او کیوں اور کیسے دیا جاتا ہے، کس کو دیا جاتا ہے، ایک دوسرے کو دیا جاتا ہے، قوم کو سمجھانے کا شکریہ، لیکن جواب تو پھر بھی دینا پڑے گا۔ اب لوگے احتساب کا نام؟'

واضح رہے کہ مریم نواز نے اپنی ٹوئٹ میں کسی کا نام نہیں لیا اور ان کا اشارہ کس کے استعفے کی طرف ہے اس کی بھی وضاحت نہیں کی۔

تاہم جمعہ کو ہی معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے وزیر اعظم کو اپنا استعفیٰ پیش کیا جو عمران خان نے منظور نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: 'وزیراعظم نے معاون خصوصی اطلاعات کا استعفیٰ منظور نہیں کیا، کام جاری رکھنے کی ہدایت'

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے جو ثبوت اور وضاحت پیش کی گئی ہے وہ اس سے مطمئن ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعظم نے انہیں بطور معاون خصوصی کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔

گزشتہ روز وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، جو انہوں نے اپنے اہلخانہ کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی میں نے اس حوالے سے فیصلہ کیا ہے اور صبح وزیر اعظم کو اپنا استعفیٰ پیش کروں گا اور درخواست دوں گا کہ مجھے اس عہدے سے ریلیف دے دیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ سی پیک وزیر اعظم کی بہت بڑی ترجیح ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مستقبل ہے اور سی پیک اتھارٹی میں 10 ماہ گزارنے کے بعد میرا اپنا بھی یہی ماننا ہے، لہٰذا مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم مجھے سی پیک پر زیادہ توجہ سے کام کی اجازت دے دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کے معاون خصوصی عاصم سلیم باجوہ کا مستعفی ہونے کا فیصلہ

اس سے قبل اپنے اثاثوں کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ 70 ملین ڈالر کے اثاثے ہیں جس کی تفصیل دیتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ 60 ملین ڈالر بینک کا قرض ہے، 50 سرمایہ کار ہیں اور اس کے بعد اہلخانہ کے چھ اراکین کے 73 ہزار ڈالر کے شیئر کے حوالے سے بھی بتایا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری، بینکنگ اور مالیاتی چینلز کے مطابق امریکا میں یہ کاروبار قائم ہوا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ امریکا میں آپ ایک سینٹ بھی مالیاتی چین کے بغیر ادھر سے ادھر نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کام 2002 میں شروع کیا گیا اور یہ 9/11 کے بعد کی بات ہے تو کیا آپ تصور کرتے ہیں کہ وہاں بینکنگ کے علاوہ بھی کسی ذرائع سے پیسہ جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2002 میں جب کاروبار شروع کیا گیا تو صرف ایک اسٹور کھلا تھا، اس کے بعد ہر سال یہ اسٹورز بڑھتے گئے، کاروبار بڑھتا گیا جبکہ اس کے بعد وہ ریئل اسٹیٹ میں بھی گئے اور ترقی ساتھ ساتھ ہوتی رہی اور سرمایہ کاری کے لیے بنیادی رقم بھی ساتھ ساتھ بڑھتی رہی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ یہ میرے بھائیوں کا کاروبار ہے اور وہ ہی اسے چلا رہے تھے، ان کے 50 سرمایہ کار تھے، 60 ملین ڈالرز تو بینکوں کے ہیں، اس کے علاوہ پیسہ سرمایہ کاروں کا ہے جنہوں نے مختلف رقم کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کون سے پیسے کہاں گئے اس میں ہر چیز کا دستاویزی ثبوت موجود ہے، ان چار پانچ دنوں میں ریکارڈز دیکھ کر تسلی کی، امریکا سے دستاویزات منگوائیں اور بھائیوں سے انٹرویو کر کے تفصیلات لیں جبکہ یہاں ٹیکس مشیر کو دکھایا اور قانونی رائے لینے کے بعد جواب دیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی اہلیہ کے نام پر 31 لاکھ روپے کے اثاثے پاکستان میں ڈکلیئر کیے ہوئے ہیں اور امریکا والی سرمایہ کاری 19ہزار 492 ڈالر ہمارے سکسیشن پلان کا حصہ ہے کیونکہ ہمارے دو بچے امریکا میں رہتے ہیں، وہ رقم ان کو چلی گئی اور ان میں سے کوئی بھی پیسہ پاکستان نہیں آیا، اگر آیا ہوتا تو کہیں ناں کہیں دستاویزات میں موجود ہوتا۔

مزید پڑھیں: فردوس عاشق کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم باجوہ معاون خصوصی اطلاعات مقرر

عاصم سلیم باجوہ نے واضح کیا کہ ان کی اور ان کی اہلیہ کی ان میں سے کسی بھی کمپنی میں شیئرہولڈنگ نہیں البتہ ہمارے دونوں بچے اپنے چچا کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے ساتھ انہی کی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں، نہ میرے نام پر کچھ ہے نہ اہلیہ کے نام پر کچھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری یہ وضاحت وزیر اعظم بھی دیکھ چکے ہیں اور کوئی بھی دستاویز یا تفصیل چاہیے ہو تو میں سب اکٹھی کر چکا ہوں اور مزید کچھ چاہیے تو میں وہ بھی اکٹھی کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کا شہری ہوں اور پاکستان کے قانون کے مطابق مجھے جہاں بھی منی ٹریل یا دستاویز دینی پڑے گی تو میں دینے کے لیے تیار ہوں۔

اس سے قبل وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے اخبار میں ان کے حوالے سے شائع خبر کی تردید کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر چار صفحات پر مشتمل تفصیلی جواب جاری کیا تھا۔