سرجری کے باعث 10 ستمبر تک نواز شریف کی وطن واپسی کا امکان نہیں
لاہور: نیب مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا 10 ستمبر تک پاکستان واپس آنے کا امکان نہیں کیونکہ رواں ماہ لندن میں ان کی سرجری بھی متوقع ہے۔
شریف خاندان کے اراکین نے بھی نواز شریف کا علاج مکمل ہونے تک ان کے قیام میں توسیع کی درخواست کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے شریف خاندان کے ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ لندن میں نواز شریف کا علاج آئندہ کچھ ہفتوں میں ہونا طے ہے، وہ اپنا علاج ادھورا چھوڑ کر کیسے واپس آسکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ شریف خاندان اور ان کی جماعت نواز شریف کی صحت پر سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہے اور چاہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم علاج مکمل ہونے کے بعد واپس آئیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا نواز شریف کو 10ستمبر سے قبل 'سرنڈر' کرنے کا حکم
ذرائع نے کہا کہ شریف خاندان اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کررہا ہے اور عدالت کے (10 ستمبر کو پیش ہونے) کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے یا کیس کی اگلی سماعت پر 'حالیہ میڈکل رپورٹس اور طے شدہ علاج' کی تفصیلات جمع کرانے کے آپشنز پر غور کررہا ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی کے اہم رہنماؤں نے نواز شریف سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے وطن واپس آنے اور سیاست میں حصہ لینے کے لیے اپنا ذہن بنانے سے قبل 'پہلے صحت یاب' ہوجائیں۔
تاہم، پارٹی میں موجود کچھ جذباتی آوازیں چاہتی ہیں کہ ان کا قائد واپس آجائے اور عمران خان کی حکومت کو واپس بھیجنے کی مہم کی راہ ہموار کرے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی ’فوری واپسی کا کوئی ارادہ نہ ہونے' کا عندیہ دیا ہے۔
جب یہ پوچھا گیا کہ کیا نواز شریف 10 ستمبر تک عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے واپس آجائیں گے تو انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ عدالتوں اور قانون کا احترام کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا کے دوران نواز شریف کا باہر نکلنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، میڈیکل رپورٹ
شہباز شریف نے مزید کہا کہ اگر ڈاکٹرز نے (لندن میں) اجازت دی تو نواز شریف وطن واپس آجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی صحت کا معاملہ سنگین ہے اور ایک بار صحتیاب ہوجانے پر وہ یہاں عدالتوں میں پیش ہوں گے۔ کراچی سے واپسی پر شہباز شریف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بڑے بھائی (نواز شریف) اور انہوں نے خود قید کاٹی۔
انہوں نے کہا تھا کہ میری بھتیجی مریم نواز گرفتار ہوئیں اور انہیں جیل بھیجا گیا اور میرا بیٹا حمزہ شہباز تاحال جیل میں ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یکم ستمبر کو نواز شریف کو 10 ستمبر کو اگلی سماعت سے قبل سرنڈر کرنے حکم دیا تھا بصورت دیگر ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ضمانت میں توسیع نہ ہونے کی صورت میں نواز شریف کو پیش ہونا پڑے گا، عدالت
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے نواز شریف کی طبی صورتحال کی تصدیق کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
خیال رہے کہ نواز شریف کی 'تازہ' میڈیکل رپورٹ ایک ماہ سے زائد عرصہ قبل لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔
لندن میں مقیم کنسلٹنٹ کارڈیو تھوریسک سرجن ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کی دستخط شدہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طبی تحقیقات اور آرا سے نواز شریف کے دل کو خون کی سپلائی میں نمایاں کمی اور اس کی خراب کارکردگی کا عندیہ ملتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لازمی طور نواز شریف کی کورونری کیتھیٹرائزیشن ہونی چاہیے کیونکہ ان کے دل کا ایک اہم حصہ خطرے میں ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ نواز شریف کا علاج روایتی طریقے سے کیا جارہا ہے کیونکہ وہ مختلف بیماریوں سے دوچار ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انویزیو سرجری کے لیے آئی ٹی پی (ٖ پلیٹیلیٹس کی غیرمستحکم تعداد) اور دیگر بیماریوں (فشار خون، ذیابیطس اور گردے کی بیماری) کی وجہ سے نواز شریف کی حفاظت کی خاطر کثیر الجہتی نقطہ نظر سے خبردار کیا گیا تھا کیونکہ اس قسم کی سرجری میں خون بہہ جانے کا کافی خطرہ ہوتا ہے۔
جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث جیسے ہی ہسپتال میں دیگر سرجری شروع ہوگی نواز شریف کی سرجری کی جائے گی اور ان کی صحت کافی خطرے میں ہے۔
نواز شریف کی خرابی صحت اور لندن میں قیام
گزشتہ سال 21 اکتوبر 2019 کو نیب کی تحویل میں چوہدری شوگر ملز کیس کی تفتیش کا سامنا کرنے والے نواز شریف کو خرابی صحت کے سبب تشویشناک حالت میں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے۔
بعد ازاں ان کی ضمانت پر رہائی کے لیے پہلے لاہور ہائیکورٹ اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جہاں سے انہیں طبی بنیادوں پر ضمانت دیتے ہوئے ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا تھا۔
جس کے ساتھ ہی حکومت نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر انہیں علاج کے سلسلے میں 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا کہا تھا لیکن حکومت نے شریف خاندان کو 7 سے ساڑھے 7 ارب روپے تک کے انڈیمنٹی بانڈ جمع کروانے کا بھی کہا تھا، جس پر مسلم لیگ (ن) نے حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے 'جانبدارانہ' اور 'بدلے کی سیاست پر مبنی' قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 'نواز شریف کی رپورٹ پر جس کو شک ہے وہ عدالت میں میرا سامنا کرلے'
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے مذکورہ معاملے پر عدالت جانے کا اعلان کیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم نے انڈیمنٹی بانڈز کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور حکومت پر 'گندی سیاست' کرنے کا الزام لگایا تھا۔
بعد ازاں 16 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کو معطل کردیا تھا۔
جس پر سابق وزیراعظم 19 نومبر کو اپنے بھائی شہباز شریف اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ہمراہ قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن گئے تھے۔
علاج کے لیے لندن جانے کی غرض سے دی گئی 4 ہفتوں کی مہلت ختم ہونے پر 23 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نے بیرونِ ملک قیام کی مدت میں توسیع کے لیے درخواست دی تھی جس کے ساتھ انہوں نے ہسپتال کی رپورٹس بھی منسلک کی تھیں۔
تاہم لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں نواز شریف کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد ان کی بیماری کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا جس پر صوبائی حکومت متعدد مرتبہ ان کی تازہ میڈیکل رپورٹس طلب کی تھیں۔
جس کے بعد جون میں بھی سابق وزیراعظم کی سوشل میڈیا پر لندن کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ خاندان کے افراد کے ہمراہ ایک کیفے میں موجود تھے۔
اس تصویر کے وائرل ہونے کے بعد حکومتی نمائندوں کی جانب سے نواز شریف پر تنقید کی گئی تھی اور الزام لگایا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کی تصویر خود لیک کی گئی۔