نقطہ نظر

بچپن سے پچپن: اسٹیم انجن کی سیٹی (دوسری قسط)

اسٹیم انجن کی سیٹی کے ساتھ صرف اس کی تیز آواز کاخوف لاحق نہیں تھا بلکہ یہ ایک اور لاشعوری خوف بھی جگاتی تھی، یعنی بچھڑ جانے کا خوف

بچپن سے پچپن: اسٹیم انجن کی سیٹی (دوسری قسط)

تحریر و تصاویر: عبیداللہ کیہر


اس سلسلے کی بقیہ اقساط: پہلی قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط، پانچویں قسط، چھٹی قسط

ہر انسان کی کوئی نہ کوئی اوّلین یاد ضرور ہوتی ہے۔ یعنی اس کی یادداشت میں موجود زندگی کا وہ سب سے پہلا واقعہ جو اسے بذاتِ خود یاد ہو۔ آپ جب بھی کسی شخص سے یہ کہیں کہ وہ آپ کو اپنی زندگی کا وہ پہلا پہلا واقعہ سنائے کہ جس کے بارے میں اسے اس کے ماں باپ یا بڑے بہن بھائیوں نے نہیں بتایا، بلکہ جو اسے خود ہی یاد رہ گیا ہو، تو وہ آپ کو ایسا ایک نہ ایک واقعہ ضرور سنائے گا۔

جہاں تک میرا ذہن کام کرتا ہے، مجھے اپنی زندگی کا پہلا واقعہ اس گھر کا یاد آتا ہے جو خیرپور کے معروف ‘جاوید’ سنیما کے سامنے ہوتا تھا۔ ان دنوں ہم جیسے لوگوں کے گھروں میں پکے فرش نہیں ہوتے تھے۔ کمروں کے فرش چکنی مٹی کا لیپ کرکے بنائے جاتے تھے اور باہر صحن میں نرم دریائی ریت بچھائی جاتی تھی۔

تو مجھے یاد آتا ہے کہ اس دن ہمارے گھر کے سامنے ایک ٹرک کھڑا تھا اور مزدور اس ٹرک میں لدی ہوئی ریت ٹوکریوں میں بھر بھر کر ہمارے گھر کے صحن میں بکھیرتے جا رہے تھے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد یہ میری زندگی کا پہلا واقعہ ہے جو مجھے ذاتی طور پر یاد ہے کیونکہ اس واقعے میں ایسی کوئی خاص اور اہم بات نہیں کہ جسے بعد میں امّاں ابّا یا بڑے بہن بھائیوں نے میرے سامنے دہرایا ہو اور میں نے ان سے سن لیا ہو۔

بڑا ہونے کے بعد جب ایک مرتبہ میں نے امّاں کو یہ قصہ سنایا تو وہ بڑی حیران ہوئیں، کیونکہ ان کی یادداشت کے مطابق جن دنوں وہ ریت کا ٹرک ہمارے گھر اترا تھا اس وقت میری عمر دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں تھی۔

ہمارا وہ گھر خیرپور کے معروف ‘جاوید سنیما’ کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ یہ سنیما قائم علی شاہ کے خاندان کی ملکیت تھا (وہی قائم علی شاہ جو بعد میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ بنے)۔ جاوید سنیما کی وجہ سے یہاں روزانہ شام کے وقت بڑی رونق ہوا کرتی تھی۔ سنیما دیکھنے کے لیے شہر بھر سے روزانہ کئی لوگ یہاں آتے تھے اور ان کے لیے یہاں طرح طرح کے پھیری والے اور ٹھیلے والے آکر کھڑے ہوتے تھے۔

چھولے، پکوڑے، سموسے، جلیبی، کیلے کے پتوں پر چٹپٹی مونگ کی دال (دال پن) بیچنے والے، کھیت سے تازہ توڑ کر لائے گئے اور لکڑی کی آگ پر بھونے گئے ہرے چنے، توے پر نمک کے ساتھ سینکی گئی ہری پھلیاں، املی کی چٹنی میں ڈوبے نرم اور سوندھے آلو کچالو، بھوبھل میں بھنی یا ابلی ہوئی شکر قندی، بھنے ہوئے بیھ، برفی، کھوئے کا ماوا، سوجی کا حلوہ، فانٹا اور سیون اپ کی گولیاں، دال سیو، پاپڑ، مرمرے اور اللہ جانے کیا کیا۔

ہم بہن بھائیوں کو اس زمانے میں فی کس ایک آنہ (یعنی 6 پیسے) جیب خرچی ملا کرتی تھی، جو بہت ہوا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن مجھے خیرپور کے ‘پنج گولو’ چوک میں تاج ہوٹل کے سامنے سے 5 روپے کا نوٹ پڑا ملا تھا، جو اتنی بڑی دولت محسوس ہوا تھا کہ اس وقت میں نے سوچا شاید میں زندگی بھر اس انوکھے واقعے کو نہیں بھلا پاؤں گا اور دیکھ لیں کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ میں آج تک اس واقعے کو یاد رکھے ہوئے ہوں۔ ہمارے پاس جو بھی جیب خرچ ہوتا تھا وہ صرف کھانے پینے کی چیز لینے کے لیے ہوتا تھا، سنیما دیکھنے کے لیے نہیں۔ ویسے تو ہم بہن بھائیوں یعنی استاد عبدالرحمٰن کے بچوں کو جاوید سنیما کے مالک ڈاڈا شاہ کی طرف سے سنیما کے اندر بلا ٹکٹ جانے کی کھلی اجازت تھی، لیکن ابّا کے ڈر سے ہم کبھی سنیما کے اندر جانے کی ہمت نہیں کر پائے۔

ابھی میں چھوٹا ہی تھا اور اسکول جانا بھی شروع نہیں کیا ہوگا کہ ہمارا گھر بدل گیا۔ اب ہم خیرپور میں ہی انّی کے پڑوسی ہوگئے۔ انّی ایک سرکاری افسر صالح میمن صاحب کی بیوی تھیں اور صالح میمن ابّا کے دوست تھے۔ ابّا کی یہی دوستی ہمیں انّی کے محلے میں کھینچ لائی۔ انّی کا گھر ایک وسیع و عریض سرکاری بنگلے میں تھا جو ہماری اور انّی کے بچوں کی مشترکہ جولان گاہ تھا۔ ہم اکثر وہیں کھیلتے کودتے رہتے یا پھر ڈرائیور کے ساتھ جیپ میں بیٹھ کر میرواہ سے پانی بھرنے جایا کرتے تھے۔ انّی کے گھر کے برابر والا ایک ویران سرکاری بنگلہ بھی انہی تصرف میں ہوتا تھا اور اس بنگلے کے بارے میں مشہور تھا کہ اس میں جن بھوت رہتے ہیں۔ ہمارے لیے تو اس بھوت بنگلے میں بڑی کشش ہوتی تھی مگر جس دن کچھ بچوں کو وہاں ایک خوفناک بھوت دکھائی دیا اس دن کے بعد انّی نے ہمیں کبھی اس طرف نہیں جانے دیا۔

ہم رہتے تو خیرپور میں تھے جبکہ ہمارا گاؤں جیکب آباد میں تھا۔ خیرپور ہمارے لیے شہر تھا اور جیکب آباد گاؤں۔ وہاں نانا نانی، دادا دادی، خالائیں، ماموں اور چاچے چاچیاں تھے اور یہ سارے رشتے بے لوث محبت کرنے والے اور پیار نچھاور کرنے والے تھے۔ اس لیے گاؤں جانا ہمارے لیے عید سے بھی زیادہ پُرمسرت ہوتا تھا۔

ہمارا گاؤں جیکب آباد شہر سے 2 اسٹیشن پہلے ‘آباد’ نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے قریب بہتی ندی ‘نور واہ’ کے کنارے واقع ہے۔ گاؤں جانے کے لیے ہم خیرپور سے کبھی تو کوئٹہ جانے والی ریل گاڑی میں سوار ہوتے تھے جو ہمیں جیکب آباد اسٹیشن پر اتار دیتی تھی، یا پھر اس زمانے کی مشہور لوکل ٹرین ’لنڈو’ پر سفر کرتے تھے جو ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر رکتی جاتی تھی، بلکہ اکثر اسٹیشن کے بغیر ویرانوں میں بھی کھڑی ہوجایا کرتی تھی۔ اس کا ٹکٹ بھی کم ہوتا تھا اور سیٹ کی بکنگ بھی ضروری نہیں ہوتی تھی، بس ٹکٹ لیں، سوار ہوں اور جہاں جگہ ملے وہاں قابض ہوجائیں۔

ہر اسٹیشن پر رکنے کی وجہ سے ہر جگہ کا مسافر اس میں سوار ہوتا تھا۔ یہ چلتی بھی آہستہ تھی اور کہیں کچھ زیادہ مسافر یا دودھ والے اسٹیشن کے بغیر بھی ریلوے لائن کے کنارے کھڑے ہوکر انجن ڈرائیور کو ہاتھ کا ملتجیانہ اشارہ کرتے تو ڈرائیور ان کے لیے بھی گاڑی کی رفتار اس قدر آہستہ کردیتا کہ وہ بھی اچک کر اس پر سوار ہوجاتے تھے۔ پھر جہاں دودھ والے اترتے وہاں انجن ڈرائیور کو چائے کے لیے سیروں دودھ بھی مفت میں مل جاتا تھا۔

خیرپور سے جیکب آباد کے درمیان روہڑی، سکھر، شکارپور اور حبیب کوٹ کے بڑے اسٹیشن آتے تھے۔ روہڑی پہنچنے پر ریل کا انجن اگلے ڈبے سے الگ کر کے پچھلے ڈبے کے ساتھ جوڑ دیا جاتا اور اب ریل گاڑی کو الٹی طرف چلتے ہوئے دریائے سندھ کے لینس ڈاؤن پل کی جانب چلنا ہوتا تھا۔ اس عمل میں چونکہ اچھا خاصا وقت لگتا تھا اس لیے گاڑی بہت دیر تک روہڑی اسٹیشن پر رکی رہتی تھی۔ دریائے سندھ کی وسعت پر معلق آہنی لینس ڈاؤن پل پر آتے ہی ریل گاڑی کی آواز ایسی عجیب گونج دار اور بلند آہنگ ہوجاتی کہ ہمیں ڈر تو بہت لگتا لیکن پھر بھی کھڑکی سے سر باہر نکالے ہم نیچے دریا میں تیرتی کشتیوں اور ساحل پر ٹہلتی بھینسوں کا نظارہ دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ دریائے سندھ عبور کرتے ہی سکھر اسٹیشن آجاتا تھا اور پھر بقیہ منزلیں اس کے بعد شام تک۔ خیرپور سے جیکب آباد کا اس دور کا 7 سے 8 گھنٹے کا سفر آج ہم اپنی گاڑی میں ڈیڑھ گھنٹے میں پورا کر لیتے ہیں۔

ہم جب کوئٹہ والی ٹرین میں سوار ہوتے تھے تو جیکب آباد اسٹیشن پر اترنا پڑتا تھا کیونکہ وہ ‘آباد’ کے چھوٹے ریلوے اسٹیشن پر نہیں رکتی تھی۔ پھر وہاں سے گھوڑا گاڑی یا بیل گاڑی میں بیٹھ کر گاؤں جاتے تھے۔ لکڑی کے پہیوں والی بیل گاڑی چرخ چوں چرخ چوں کرتی چیونٹی کی رفتار سے چلتی چند میل کا فاصلہ کئی گھنٹوں میں طے کرکے گاؤں پہنچاتی تھی، لیکن اس دیر سے ہم بچوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ ہم تو ارد گرد کے کھیتوں کھلیانوں، ندیوں تالابوں اور چرندوں پرندوں کے ان نظاروں میں مگن ہوجاتے تھے۔ لہلہاتے کھیت، سرسراتے درخت، تالابوں میں ہلکورے لیتی مرغابیاں، سروں پر منڈلاتی اور چلاتی ٹٹیریاں، پھڑپھڑاتے کبوتر، ندی کنارے اڑانیں بھرتے بگلے، اجنبیوں کو دیکھ کر بھونکتے کتے، جھینگروں کی چرچراہٹ اور مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ، یعنی وہ سب کچھ جو ہمیں خیرپور شہر کے گلی کوچوں میں میسر نہیں تھا۔

لیکن جب ہم لنڈو ٹرین سے سفر کرکے گاؤں آتے تو جیکب آباد شہر تک جانے کی بجائے آباد ریلوے اسٹیشن پر ہی اتر جاتے کیونکہ وہ وہاں رکتی تھی۔ آباد اسٹیشن سے ہمارا گاؤں ‘گوٹھ امام بخش کیہر’ دو تین میل کے فاصلے پر تھا اور یہ فاصلہ یا تو ہمیں نور واہ کے کنارے کنارے پیدل چلتے ہوئے طے کرنا ہوتا تھا یا کسی بیل گاڑی میں۔

آباد ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم بہت نیچے ہوتا تھا اس لیے یہاں ریل سے اترنے میں بڑی مشکل ہوتی تھی۔ دروازے کے نیچے والے 3 تختوں سے اترنے کے بعد بھی زمین اتنی نیچے ہوتی تھی کہ مجبوراً چھلانگ ہی لگانی پڑ جاتی تھی۔ اس مصیبت پر مستزاد ریل گاڑی کا قدیم اسٹیم انجن تھا کہ جس کی بھیانک آواز سے ہماری جان جاتی تھی۔ خصوصاً اس کی سیٹی کی آواز سے۔ ہم سارے بچے جب تک لڑھکتے پڑھکتے ریل گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم تک پہنچتے، تب تک اسٹیم انجن کی گھگھیائی ہوئی بھیانک سیٹی اس قدر بلند آہنگ سے فضا میں گونج اٹھتی کہ اس کی آواز میلوں دُور تک سارے گوٹھوں اور قصبوں میں صاف سنائی دی جاتی اور ہم، جو اس آواز سے چند ہی قدم کے فاصلے پر موجود ہوتے تھے، ہماری تو سٹی ہی گم ہو جاتی تھی۔

لیکن اسٹیم انجن کی اس سیٹی کے ساتھ جو خوف وابستہ ہوتا تھا اس کا تعلق صرف اس کی تیز آواز سے نہیں تھا، بلکہ یہ ایک اور لاشعوری خوف بھی جگاتی تھی، بچھڑ جانے کا خوف، یعنی کہیں یہ ریل گاڑی صرف ہمیں چھوڑ کر اور امّاں ابّا کو ساتھ لے کر چلی گئی تو کیا ہوگا؟ ہم تو گم ہوجائیں گے، کوئی خرکار ہمیں بوری میں بند کرکے اغوا کرکے اللہ جانے کہاں لے جائے گا جہاں ہم ساری عمر اس کے گدھے چراتے رہیں گے، بس یہ اور اسی طرح کے کئی دوسرے خدشات کی وجہ سے اسٹیم انجن کی وہ گونجدار سیٹی ہمیں بڑے خوف میں مبتلا کیا کرتی تھی۔

وہ آج کی طرح کمیونیکیشن کا ترقی یافتہ زمانہ نہیں تھا، بس خط لکھنے اور ڈاک پہنچانے کا زمانہ تھا۔ ٹیلی فون تو شاذ و نادر ہی کسی کے پاس ہوتا تھا جبکہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ انسان ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہی آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کی مانند گم ہوجاتے تھے۔ اس زمانے کے شاعروں کی شاعری بھی زیادہ تر بچھڑ جانے اور یاد آنے کے موضوعات پر ہوتی تھی اور فلموں میں بھی یہی کچھ دکھایا جاتا تھا۔ رابطوں کی کمی کے اس دور میں کسی بچے کا والدین سے جدا ہوجانا زندگی بھر کے لیے جدائی کا سبب بن جاتا تھا اور یہ اپنوں سے جدائی کا سب سے زیادہ امکان اسی ریل کے سفر میں ہی ہوتا تھا۔ اس لیے ریل کی سیٹی ہم بچوں کو دہشت میں مبتلا کر دیتی تھی۔

ان دنوں نہ صرف اخبارات میں روزانہ ‘تلاش گمشدہ’ کے اشتہار چھپتے تھے بلکہ ریڈیو پر گمشدہ بچوں کے حوالے سے ایک باقاعدہ پروگرام بھی چلتا تھا جس کا عنوان تھا ’یہ بچہ کس کا ہے؟’ اور تقریباً ہر گمشدہ بچہ یہی کہانی سناتا تھا کہ یا تو وہ ریل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کسی اسٹیشن پر ماں باپ سے بچھڑ گیا، یا کسی بات پر گھر والوں سے ناراض ہوکر ریل گاڑی میں چڑھ گیا اور کہیں کا کہیں پہنچ کر گمشدہ ہوگیا۔ محلے کی مسجدوں سے بھی اکثر کسی نہ کسی بچے کا اعلانِ گمشدگی سنائی دیتا تو چھوٹے بچوں کے ماں باپ بیچارے سہم سہم جاتے۔ بچوں کے اس طرح گم ہونے سے پریشان ہوکر والدین نے بچوں کے گلے میں ایسے تعویذ باندھنے شروع کردیے تھے کہ جن کے اندر لپٹے کاغذ پر وظائف کی جگہ صرف گھر کا ایڈریس لکھا ہوتا تھا، تاکہ بچہ گم ہوکر کسی کو ملے تو وہ اس ایڈریس پر اسے گھر پہنچا کر ثواب دارین حاصل کرے۔

اب تو وہ دور آگیا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے بھی گم ہونا چاہیں تو گم نہیں ہوسکتے۔ پچھلے دنوں دبئی میں ہمارے دوست عمیر صدیقی کا بیٹا ایک شاپنگ مال میں ٹیبلٹ پر ابّا کے موبائل ڈیٹا ہاٹ سپاٹ کے وائی فائی سگنلز استعمال کرتے ہوئے اچانک ماں باپ سے بچھڑ گیا۔ امّاں ابّا تو گھبرا ہی گئے لیکن بچہ بالکل نہیں گھبرایا۔ وہ وہیں گھومتے گھومتے ابّا کے گمشدہ وائی فائی سگنل پکڑنے کی کوشش کرتا رہا اور جیسے ہی وہ ابّا کے موبائل سے کنیکٹ ہوا وہیں اپنا ہاتھ فضا میں بلند کرکے ڈیڈی ڈیڈی کا شور مچا دیا۔ ابّا لپک کر اس کے پاس پہنچے اور بچے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔

مجھے پاکستان میں ہر طرح کی سواریوں میں سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔ سائیکل، بیل گاڑی، گھوڑا گاڑی، موٹر سائیکل، کار، بس، ٹرین، ہوائی جہاز اور بحری جہاز سب میں سفر کرنے کا تجربہ ہے۔ ہر ذریعہ سفر کے اپنے فائدے اور نقصان ہیں۔ 70ء اور80ء کی دہائی میں تو ملک کے طول و عرض میں سفر کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ریل گاڑی ہی تھا، البتہ 80ء کے اواخر میں ملکی سڑکوں کی حالت کچھ بہتر ہونا شروع ہوئی تو دُور دراز سفر کے لیے بسوں میں سفر کا رجحان بھی بڑھنے لگا۔ خصوصاً لاہور سے اسلام آباد براستہ جی ٹی روڈ جو ایئر کنڈیشنڈ کوسٹر ‘فلائنگ کوچ’ کے نام سے چلنا شروع ہوئی تو اس نے جیسے دھوم ہی مچا دی۔ ٹھنڈی ٹھار اور آرام دہ، ہوائی جہاز کی طرح سبک رفتار اور پُرسکون۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد ایئر کنڈیشنڈ بسیں بھی میدان میں آگئیں، جو کراچی سے گلگت تک بین الصوبائی روٹس پر چلنا شروع ہوگئیں۔ ان کا کرایہ بھی ریل کی نسبت کم تھا، منزل تک پہنچانے میں وقت بھی کم لیتی تھیں اور ٹکٹ کی ایڈوانس بکنگ بھی آسانی سے ہوجاتی تھی، اس لیے یہ تیزی سے مقبول ہوئیں۔ بس میں سفر کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ رستے میں جہاں بھی رکتی ہے، وہاں سے چلتے وقت بس کا عملہ لازماً مسافروں کی گنتی پوری کرتا ہے اور اس وقت تک روانہ نہیں ہوتا جب تک مسافر پورے نہ ہوجائیں۔ چنانچہ اس میں ریل گاڑی کی طرح کسی اسٹیشن پر رہ جانے کا خوف نہیں ہوتا۔

ایک مرتبہ میں اسی طرح کی ایک بس میں اسلام آباد سے کراچی آرہا تھا۔ مظفر گڑھ کے قریب کسی جگہ صبح سویرے نمازِ فجر سے بھی پہلے گاڑی پیٹرول لینے کے لیے رکی تو ایک مسافر رفع حاجت کے لیے پیٹرول پمپ کے واش روم چلا گیا اور بس چلنے سے پہلے پہلے واپس آگیا۔ بس دوبارہ چل پڑی اور تقریباً نصف گھنٹہ چلنے کے بعد ایک جگہ نمازِ فجر کے لیے رک گئی۔ بس سے اترتے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہی مسافر جو پیٹرول پمپ پر رفع حاجت کے لیے اترا تھا، ڈرائیور سے ملتجیانہ کچھ کہہ رہا تھا اور ڈرائیور اسے غصے سے گھور رہا تھا۔ جیسے ہی نماز پڑھنے والے سارے مسافر بس سے اترے، ڈرائیور نے بس اسٹارٹ کی اور گھما کر دوبارہ اسی طرف چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بہرحال جب تک ہم نے وضو کیا، نماز پڑھی، اس وقت تک بس واپس آگئی۔ ہم دوبارہ بس میں سوار ہوئے تو مسافروں سے پتہ چلا کہ بس دوبارہ آدھا گھنٹہ چل کر اسی پیٹرول پمپ تک واپس گئی تھی جہاں سے کچھ دیر پہلے ڈرائیور نے پیٹرول ڈلوایا تھا۔ وہاں تک واپس جانے کی وجہ یہ تھی کہ جس مسافر نے وہاں واش روم استعمال کیا تھا وہ وہاں اپنا موبائل فون بھول آیا تھا۔ جب اس نے ڈرائیور سے التجا کی کہ وہ اس کے ساتھ وہاں واپس چلے تو ڈرائیور ناراض تو بہت ہوا، لیکن پھر بھی اس کے ساتھ واپس گیا اور وہ وہاں رہ جانے والا موبائل اٹھا کر لے آیا۔ اب یہ ایک ایسی مسافر نواز سروس تھی کہ جو ریل گاڑی کے سفر میں ممکن ہی نہیں۔

اسی طرح کچھ عرصہ پہلے میں اپنے بھانجے فہد کیہر کے ساتھ بس میں لاہور سے اسلام آباد آ رہا تھا۔ رات کا سفر تھا۔ ہمارے پاس بیگز کے علاوہ ایک ڈبہ اور بھی تھا جس میں لاہور کی ایک مشہور بیکری سے خریدے گئے تقریباً ہزار روپے مالیت کے کیک بسکٹ تھے۔ بیگ اور بسکٹوں کا ڈبہ ہم نے سیٹوں کے اوپر والے ریک پر جمایا اور اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے۔ بس نے صبح فجر سے پہلے ہمیں اسلام آباد میں اتارا اور بقیہ مسافروں کو لے کر ایبٹ آباد چلی گئی۔ ہم بس سے اتر کر جیسے ہی آگے بڑھے تو یاد آیا کہ بسکٹوں کا ڈبہ تو بس میں ہی رہ گیا۔ بڑا افسوس ہوا۔ خیر اب کیا ہوسکتا تھا۔ ہم گھرآ گئے۔ میں نے بس کا ٹکٹ نکال کر دیکھا تو اس پر بس کمپنی کے لاہور آفس کا فون نمبر لکھا تھا۔ میں نے ویسے ہی فون کرکے دیکھا تو وہاں سے کسی نے اٹھا لیا۔ میں نے جب اسے بتایا کہ اس بس میں ہمارا یہ سامان رہ گیا ہے تو اس نے فوراً بس ڈرائیور کا موبائل نمبر دے دیا۔ اب میں نے بس ڈرائیور کو فون کیا۔ وہ ایبٹ آباد کے راستے میں تھا۔ میرے دریافت کرنے پر اس نے کنفرم کیا کہ ہمارا سامان بس میں موجود ہے۔ لیکن اس نے مجھے اطمینان دلایا کہ صبح واپسی پر جب وہ اسلام آباد پہنچے گا تو مجھے فون کرے گا تاکہ میں اسٹینڈ پر جاکر اپنا سامان اس سے وصول کرلوں۔ میں بھی مطمئن ہوگیا۔

اگلے دن دوپہر کو حسبِ وعدہ ڈرائیور کا فون تو آگیا، لیکن اس معذرت کے ساتھ کہ وہ واپسی میں اسلام آباد نہیں آرہے بلکہ موٹر وے کے راستے سیدھے لاہور نکل جائیں گے۔ ’کیا آپ اپنا سامان لاہور کے اڈے سے آکر وصول کرسکتے ہیں؟’ وہ بولا۔

یہ تو عجیب صورتحال ہوگئی۔ میں نے اس بتایا کہ میں لاہور نہیں آسکتا۔

‘تو آپ اپنے کسی عزیز کو اڈے پر بھیج دیں’، وہ بولا۔

‘نہیں، ایسا کوئی بھی نہیں، اور اس ڈبے میں چونکہ کھانے کی چیزیں ہیں لہٰذا اتنا ٹائم گزرنے کے بعد وہ ویسے بھی قابلِ استعمال نہیں رہیں گی’، میں نے مایوسی سے کہا۔

‘تو پھر آپ ایسا کریں کہ مجھے ان چیزوں کے پیسے بتا دیں، میں آپ کو آن لائن بھیج دیتا ہوں اور یہ میں اپنے گھر لے جاتا ہوں’، ڈرائیور نے خوشدلی سے کہا۔ میں تو حیران ہی رہ گیا۔

‘ارے نہیں بھائی’، میں بولا۔ ‘آپ یہ سمجھیں کہ یہ میرے نہیں بلکہ آپ کے بچوں کا نصیب ہیں۔ یہ میری طرف سے آپ کے بچوں کے لیے تحفہ ہے۔’ میں نے بات ختم کی۔ ڈرائیور کے اخلاقی رویے کے سامنے میں تو لاجواب ہی ہو گیا تھا۔

پاکستان میں دُور دراز شہروں کے لیے سب سے پہلےسرکاری بسیں چلنا شروع ہوئی تھیں۔ سندھ میں SRTC یعنی ‘سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن’ کی سرخ بسیں چلتی تھیں، جبکہ صوبہ پنجاب اور سرحد میں GTS یعنی ’گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کارپوریشن’ کی نیلی بسیں چلا کرتی تھیں۔

80ء کی دہائی میں جب ہم نے ملک کے طول و عرض میں سفر کرنا شروع کیا تو کراچی سے لاہور تک کا سفر بذریعہ ٹرین کرتے تھے۔ پھر لاہور سے آگے راولپنڈی یا پشاور تک جی ٹی ایس کی بسوں میں سفر ہوتا تھا۔ کراچی سے لاہور تک ریل گاڑی میں سفر کے لیے ہم یونیورسٹی سے اسٹوڈنٹس ریلوے کنسیشن فارم بھر کے لاتے تھے جس پر ہمیں لاہور کا ٹکٹ آدھی قیمت پر صرف 50 روپے میں مل جاتا تھا۔ پھر لاہور سے راولپنڈی تک جی ٹی ایس کی بس اسٹوڈنٹس سے 15 روپے لیتی تھی۔ راولپنڈی سے گلگت کے لیے NATCO یعنی ‘ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن’ کی بس چلتی تھی جو 40 روپے لے کر 18 گھنٹے میں گلگت پہنچاتی تھی۔ یوں کراچی سے گلگت تک 5 روزہ سفر میں ہمارے ٹوٹل 105 روپ خرچ ہوتے تھے۔لیکن یہ بسوں کے سفر تو بہت بعد کی باتیں ہیں۔ ابھی تو 70ء کی دہائی اور یہ ہمارا بچپن چل رہا تھا۔ جب ہم پیدل ہانپتے یا بیل گاڑی میں جھٹکے کھاتے گاؤں پہنچتے تو نانا نانی اور ماموں خالائیں اپنی بانہیں کھولے ہمیں آغوش میں لینے کے منتظر کھڑے ہوتے۔

(جاری ہے)


عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہے۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔