یقیناً پانی تو واپس چلا جائے گا، مگر سوالات موجود رہیں گے۔
شہرِ کراچی میں آنے والے شدید سیلاب نے بہت کچھ بے نقاب کردیا ہے مگر یہاں کام کرنے اور نہ کرنے سے متعلق عدم استحکام سے متعلق پالیسی زیادہ واضح ہوچکی ہے۔
اس لیے یہ حالات یقینی طور پر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوسکتے ہیں، بلکہ ہونے چاہئیں۔
لیکن کیسے؟
ہمیں بار بار یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ کراچی کے مسائل بہت زیادہ گھمبیر ہیں، جو محض نالوں کی صفائی یا ایک مکمل بااختیار میئر کی تعیناتی سے حل نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان مسائل کی جڑیں بے تحاشہ تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات، سیاسی مفادات اور اداروں کے درمیان کشیدگی کے نیچے دب چکی ہیں۔
مختصر یہ کہ کوئی بھی حکومت تنِ تنہا ان مسائل کو حل نہیں کرسکتی۔ اس کا نتیجہ کئی دہائیوں سے اس بحث کی صورت نکل رہا ہے کہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اس بارے میں بات ہوتی ہے کہ اب تک یہ سب کیوں نہیں کیا جاسکا۔
لیکن اب ان حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر اس بحث کو گرما دیا ہے۔
بارش کے بعد کھڑے اس پانی نے تازہ سیاسی اور انتظامی مفادات کے لیے زبردست ماحول بنادیا ہے۔ اب یہاں روایتی طرزِ حکمرانی کو جاری رکھنے اور اس کی دلیل دینے والے کم کم نظر آئیں گے۔ اور اگر ایسا کرنے والے نظر آئے بھی تو ان کی بات کو اب زیادہ اہمیت نہیں دی جائے گی۔ یعنی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کمزور ہوگی اور اصلاحات سے متعلق راستے ہموار ہوتے چلے جائیں گے۔