تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ، ویلز اور اسکاٹ لینڈ میں کورونا وائرس کے ایک فیصد سے بھی کم کیسز بچوں میں سامنے آئے، جبکہ ان میں سے ہلاکتوں کی شرح ایک فیصد تھی۔
متعدد برطانوی اداروں کی اس تحقیق میں 19 سال سے کم عمر 651 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو برطانیہ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں جنوری سے جولائی کے دوران 138 ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس عرصے میں زیرعلاج رہنے والے تمام مریضوں میں سے ان کم عمر مریضوں کی شرح 0.9 فیصد تھی۔
جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ان کم عمر مریضوں میں سے 6 یا ایک فیصد کا ہسپتال میں انتقال ہوا جبکہ دیگر عمر کے کووڈ 19 کے مریضوں میں اس عرصے کے دوران یہ شرح 27 فیصد رہی۔
محققین کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر 18 فیصد بچوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑی جبکہ ان میں سب سے عام علامات بخار، کھانسی، دل متلانا یا قے اور سانس لینے میں مشکلات تھیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11 فیصد مریضوں میں ملٹی سسٹم انفلیمٹری سینڈروم یا ایم آئی ایس سی کو دیکھا گیا جس کے نتیجے میں جسم کے مختلف حصے پھول جاتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں جن بچوں میں ایم آئی ایس سی کی پیچیدگی سامنے آئی ان کی عمر دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھیں اور دیگر کے مقابلے میں انہیں زیادہ نگہداشت کی ضرورت پڑی۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ ہسپتالوں میں زیرعلاج مریض بچوں پر ایک مشاہداتی تحقیق تھی اور اس میں تمام کیسز کو شامل نہیں کیا گیا، تو ہوسکتا ہے کہ اس میں بچوں میں کووڈ 19 کی شرح کی درست عکاسی نہ ہوئی ہو، تاہم یہ ایک اہم تحقیق ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ بیشتر بچوں میں اس بیماری کی شدت اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ انہیں ہسپتال میں زیرعلاج رہنا پڑے۔
دیگر طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ بہت کم تعداد میں بچوں کو آئی سی یو میں داخل ہونا پڑتا ہے ، جبکہ تحقیق میں اموات کی شرح بھی بہت کم دکھائی گئی ہے،خصوصاً بالغ افراد کے مقابلے میں۔
تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان میں سے کتنے بچے براہ راست کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے اور ایسے کتنے بچے تھے جو کسی اور وجہ سے ہسپتال پہنچے مگر وہاں وائرس کی تشخیص ہوئی۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اس حوالے سے تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ وہاں بچوں میں کیسز کی شرح کتنی ہے۔
کچھ عرصے پہلے برطانیہ کے ماہرین طب نے بتایا تھا کہ بچوں میں اس وائرس کے خلاف مزاحمت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ ان کا مدافعتی نظام پہلے ہی عام نزلہ زکام سے نمٹنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
شاید بیشتر افراد کو معلوم نہ ہو مگر عام نزلہ زکام 4 مختلف اقسام کے کورونا وائرس کے نتیجے میں ہوتا ہے جو عام طور پر بے ضرر ہی ہوتا ہے، مگر بالغ افراد میں اگر یہ ایک سال میں اوسطاً 2 سے 4 دفعہ نظر آتا ہے تو اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں یہ سالانہ اوسط 12 ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان بیل نے برطانوی پارلیمانی کی سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی کو بتایا کہ اسی وجہ سے بچوں میں اس وائرس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے جو بالغ افراد میں نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا 'یہ اس وقت حیران کن قیاس ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ بیشتر نوجوان یا درماینی عمر کے افراد میں ایسے حفاظت کرنے والے خلیات یا ٹی سیلز ہوسکتے ہیں جو پہلے ہی کورونا وائرس کا سامنا کرچکے ہوتے ہیں، جس سے انہیں وائرس سے کچھ تحفظ مل جاتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا 'متعدد بچے سیزنل کورونا وائرسز سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ ہماری آبادیوں میں بہت عام ہے، جس کی وجہ سے بیشتر بچوں میں کورونا وائرسز کے خلاف مضبوط مدافعت پیدا ہوجاتی ہے، ابھی یہ ثابت شدہ نہیں، مگر ٹی سیلز کے شواہد موجود ہیں، جن سے نئے کورونا وائرس کے اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے'۔
تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا کہ 4 سال کی عمر میں 70 فیصد بچوں میں سیزنل کورونا وائرسز کے خلاف اینٹی باڈیز بن چکی ہوتی ہیں، جو انہیں اہم تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
جون میں طبی جریدے دی لانسیٹ چائلڈ اینڈ ایدولینٹ ہیلتھ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے شکار ایک فیصد سے بھی کم بچے اس بیماری کے نتیجے میں انتقال کرتے ہیں اور بڑی تعداد کو آئی سی یو کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس کے مقابلے میں کووڈ 19 سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں بالغ افراد کی اموات کی شرح (ابتدائی ڈیٹا کے مطابق) 10 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اس تحقیق میں 21 یورپی ممالک میں 600 کے قریب ایسے بچوں کو دیکھا گیا جن میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی تھی۔
ان بچوں کی عمریں 3 دن سے لے کر 18 سال کے درمیان تھیں جبکہ 75 فیصد کے قریب بچوں میں پہلے سے کوئی بیماری نہیں تھی۔
محققین نے دریافت کیا کہ 50 فیصد سے زیادہ بچوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا مگر صرف 8 فیصد کو آئی سی یو کی ضرورت پڑی جبکہ صرف 4 اس بیماری کے نتیجے میں چل بسے، اموات کی شرح 0.69 فیصد رہی۔