پاکستان

'کراچی کے 3 بڑے مسائل حل کرنے کیلئے وفاقی، صوبائی حکومت مل کر کام کریں گی'

نالوں کی صفائی، تجاوزات سے نمٹنا، کوڑا کرکٹ، نکاسی آب اور شہر کو پانی کی فراہمی کے مسائل حل کیے جائیں گے، وزیراعظم
| |

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 'پوری قوم اس درد کو محسوس کررہی ہے جس میں کراچی کے عوام مبتلا ہیں'، ساتھ ہی انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ کراچی کے بڑے مسائل حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ' پوری قوم اس درد کو محسوس کررہی ہے جس میں کراچی کے عوام مبتلا ہیں، تاہم اس تباہ کن صورتحال اور تمام تر مشکلات کے ہنگام میں مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ میری حکومت سندھ حکومت کے ساتھ مل کر فوری طور پر کراچی کے 3 بڑے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے'

جن مسائل پر حکومتیں مل کر کام کریں گی اس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم نے بتایا کہ 'ان میں شہر بھر کے نالوں کی مکمل صفائی، آبی گزرگاہوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تجاوزات سے نمٹنا، کوڑا کرکٹ اور نکاسی آب کے مسائل کا مستقل حل تلاش کرنا اور کراچی کے عوام کو پانی کی فراہمی جیسے بنیادی اور اہم ترین مسئلے کا حل شامل ہے'۔

کراچی شہر کی موجودہ صورتحال

کراچی میں جمعرات کو ہونے والی موسلادھار بارشوں کے بعد انڈر پاسز سے تاحال پانی نہیں نکالا جاسکا اور کلفٹن میں واقع انڈر پاس تالاب کا منظر پیش کررہا ہے، ادھر پانی بھر جانے کی وجہ سے پنجاب چورنگی اور کلفٹن انڈر پاس کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں کئی گھنٹوں تک ریکارڈ بارش، متعدد علاقے زیر آب، 19 افراد جاں بحق

شہر میں اب بھی متعدد علاقوں سے پانی نہیں نکالا جاسکا جس میں کراچی کا سب سے پوش علاقہ ڈیفنس بھی شامل ہیں جہاں 3 روز گزرنے کے بوجود بجلی بھی تاحال بحال نہ ہوسکی۔

اس کے علاوہ شہر کی متعدد سڑکیں بدستور تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں جس میں جناح ہسپتال کے سامنے والی سڑک، پنجاب چورنگی سے ریس کورس تک جانے والی سڑک، ایوان صدر روڈ، ٹاور، کے پی ٹی بلڈنگ، آئی آئی چندریگر روڈ کے کچھ حصے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ شاہراہ فیصل اور راشد منہاس روڈ کے سنگم پر ڈرگ روڈ کے مقام پر موجود انڈر پاس کو پانی نکال کر ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) انڈرپاس اور پنجاب کالونی انڈر پاس میں کام جاری ہیں اور کہا کہ کچھ علاقوں میں بجلی بحال ہونے سے پانی نکالنے کا کام تیزی سے کیا جارہا ہے۔

بارش کے باعث حادثات میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ

مون سون کے چھٹے اسپیل کے دوران شہر میں برسنے والی ریکارڈ توڑ بارش میں جہاں متعدد ہلاکتیں ہوئی تھیں وہیں کئی افراد پانی کے ریلے کے ساتھ بہہ کر لاپتہ ہوگئے تھے۔

ان لا پتہ افراد کے بارے میں ایدھی فاؤنڈیشن نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شدید بارش کے باعث لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے بچنے کے امکانات معدوم ہیں جس کے بعد پانی کے ریلے کے ساتھ بہہ کر ڈوب کر جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشیں ملنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: رواں سال مون سون سیزن میں 30 افراد جاں بحق

چنانچہ کراچی میں بارش کے بعد مختلف حادثات میں ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور آج 29 اگست کو بھی شہر میں مزید 8 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔

پولیس حکام کے مطابق منظور کالونی جونیجو ٹاؤن نالے میں ڈوبنے والے شخص کی لاش نکال لی گئی جس کی شناخت بلال کے نام سے ہوئی۔

اس کے علاوہ کورنگی کراسنگ ندی سے خاتون کی لاش برآمد ہوئی جبکہ ناتھا خان میں کرنٹ لگنے سے ایک شخص جاں بحق ہوگیا جس کی شناخت غازی خان ولد لال خان کے نام سے ہوئی۔

کورنگی کی یونین کونسل 37 کے چیئرمین مشتاق تنولی نے کہا کہ ڈوبنے والے ایک شخص کی لاش نکالی گئی جسے ایدھی ہوم بھیج دیا گیا، جہاں جاں بحق شخص کے رشتہ داروں نے ان کی شناخت امجد کے نام سے کی۔

متوفی پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے سینئر عہدیدار کے قریبی رشتہ دار تھے۔

سعید آباد پولیس نے کہا کہ تقریباً 16 سالہ نامعلوم نوجوان کی لاش مشرف کالونی میں ندی سے نکالی گئی، جسے بعد ازاں ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال منتقل کیا گیا۔

چھیپا کے مطابق اورنگی ٹاؤن کے سیکٹر 14 ڈی کے ایک گھر میں 40 سالہ خاتون عشرت جہاں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئیں۔

ترجمان چھیپا نے کہا کہ لیاری کے اَٹھ چوک میں اپنے گھر میں کرنٹ لگنے سے 50 سالہ نور حسین انتقال کر گئے اور ان کی لاش سول ہسپتال منتقل کی گئی

ڈیفنس میں سَن سیٹ بولیوارڈ میں واقع گھر میں کرنٹ لگنے سے 26 سالہ عالم زیب جاں بحق ہوئے، ان کی لاش کو ضابطے کی کارروائی کے لیے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز 10 افراد کی ہلاکت رپورٹ ہوئی تھی جس کے بعد کراچی میں مون سون کے حالیہ اسپیل کے دوران مرنے والوں کی تعداد 40 تک جا پہنچی تھی۔