صدارتی نظام پر ریفرنڈم کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست
اسلام آباد: ملک میں صدارتی نظام حکومت متعارف کروانے کی قیاس آرائیاں پٹیشن کی صورت میں سپریم کورٹ تک پہنچ گئیں جس میں وزیراعظم عمران خان کو موجود پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لیے ملک گیر ریفرنڈم کروانے کا کہا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک غیر معروف تنظیم ہم عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ طاہر عزیز خان کی دائر کردہ درخواست میں کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظوری لے کر ریفرنڈم کروانا چاہیئے۔
پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہہ آئین کے باب اول اور دوم میں عوام کے فراہم کردہ بنیادی حقوق موجودہ پارلیمانی حکومت کی جانب سے ان کی فلاح و بہبود اور مختلف شعبہ زندگی میں پیش رفت میں ناکامی کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام‘ کی بحث ایک بار پھر زندہ
پٹیشن کے مطابق لہٰذا انصاف کے مفاد میں ہے کہ عوام اگر صدارتی نظام حکومت چاہیں تو انہیں اس کے انتخاب کا موقع دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ پاکستان کے عوام کی خراب حالت پاکستان کے نظام حکومت کی براہ راست عکاس ہے کیوں کہ پارلیمانی نظام حکومت ناکام ہوچکا ہے اور مارچ 2020 تک ملک کا سرکاری قرض 428 کھرب روپے یا 2 ارب 56 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
ملک کے مالیاتی بوجھ کے مایوس کن اعدادو شمار کا ذکر کرنے کے بعد درخواست میں پارلیمینٹیرینز کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے نظام کو تنقید کا نشاہ بنایا گیا 'جو اپنے ذاتی مفادات کے فروغ کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں'۔
چنانچہ اس وجہ سے اکثر عوام کی فلاح و بہبود اور حالات کا خیال رکھنے کے لیے صحت مند اپوزیشن اور مضبوط حکومت سامنے نہیں آسکتی۔
درخواست میں کہا گیا کہ حکومت اور مقننہ کے مابین اختیارات کو علیحدہ کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں، اور اسے انتظامیہ کو سیاسی بنانے، نان پروفیشنل ازم، اقربا پروری اور بدعنوانی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔
مزید پڑھیں: کون چاہتا ہے کہ ایوب خان اور ضیاء الحق کا دور لوٹ آئے؟
پٹیشن میں اسمبلیوں میں کورم کی مسلسل کمی کی وجہ سے 'معمولی قانون سازی' اور اپوزیشن کے سمجھوتے کے کردار پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔
درخواست میں یہ کہتے ہوئے صدارتی نظام کی حمایت کی گئی کہ یہ ملک کے لیے سبب سے بہتر ہے کیوں کہ اس میں صدر کو اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کے لیے پارلیمان سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑتی جس کی وجہ سے صدارتی نظام حکومت میں فیصلے تیزی سے ہوتے ہیں۔
پٹیشن میں ان ممالک کی مثال بھی بیان کی گئی جنہوں نے صدارتی نظام حکومت اختیار کر کے ترقی کی جس میں ترکی بھی شامل ہے جہاں 2017 میں ہوئے ایک ریفرنڈم میں وزیراعظم کا عہدہ ختم کرنے اور صدارتی نظام حکومت کے لیے ریفرنڈم ہوا تھا۔