پاکستان

حکومت نے شوگر کمیشن کیخلاف سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں چینی کے 20 مختلف مینوفکیچررز کو فریق بنایا ہے۔

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شوگر کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے درخواست میں موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ نے مکمل طور پر تکنیکی بنیادوں پر کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جبکہ کمیشن کے ساتوں اراکین کی تعیناتی کو وفاقی کابینہ نے منظور کرلیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست میں چینی کے 20 مختلف مینوفکیچررز کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ کسی شوگر مینوفیکچرر نے کمیشن کی کارروائی کی معلومات نہ ہونے کا دعویٰ کیا نہ کرسکتا ہے جس کے لیے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایچن (پی ایس ایم اے) سے مکمل طور پر رابطہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ: شوگر کمیشن کی تشکیل اور رپورٹ غیر قانونی قرار

درخواست میں کہا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے مکمل طور پر قانون اور حقائق کی غلطی کی اور پوری طرح سے بلاجواز مفروضے پر چیلنج کے تحت حکم کی بنیاد رکھی کہ اس معاملے میں متاثرہ فریق چینی کے مینوفیکچررز ہیں۔

درخواست میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 'اس حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا کہ اس معاملے میں اصل اور متاثرہ فریق وہ صارفین ہیں جن سے شوگر مینوفیکچررز کے ایک کارٹل نے اس ضروری چیز یعنی چینی کی زائد قیمت حاصل کی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ صارفین کے ساتھ ساتھ گنے کے ہزاروں کاشت کار بھی متاثرہ فریق ہیں جن کے اگائے گئے گنوں کی مناسب قیمت کی ادائیگی سے مسلسل انکار کیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ مینوفیکچررز کی جانب سے اصل پیداوار کم کر کے بتانے سے عوام کو ٹیکس چوری کی صورت میں اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

پٹیشن میں مؤقف اپنایا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے کمشین میں تعیناتیوں کے ساتھ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو کالعدم قرار دے دیا جس میں کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا گیا تھا نہ ہی اس کے نتیجے میں اپنی طرف سے کوئی مخالف کارروائی کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: چینی مافیا-سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ، صارفین اور کسانوں کو دھوکا دینے میں ملوث

پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ وفاقی حکومت اور اس کے ادارے عوام کے مفاد میں اقدامات کرنے اور تمام کیسز کی تحقیقات کرنے اور محکموں، حکام یا اداروں میں جاری کارروائیوں کو آگے بڑھانے کے پابند ہیں کیوں کہ یہ عوام کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتا ہے۔

خیال رہے کہ 16 اگست کو سندھ ہائی کورٹ نےچینی بحران کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کے تشکیل کردہ شوگر انکوائری کمیشن اور اس کی رپورٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کمیشن کو غیر قانونی قرار دینے کی 8 وجوہات کا ذکر کیا جس میں ضروری قواعد و ضوابط پر عمل کرنے میں ناکامی، کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن بروقت گزیٹ میں شائع نہ ہونا، کمیشن کی نامکمل تشکیل، کمیشن کی جانبداری، درخواست گزاروں کو صفائی کا موقع نہ دینا شامل ہیں۔

حکومت کا ’شوگر مافیا‘ کے خلاف کارروائی کا باضابطہ حکم

یاد رہے کہ 27 جولائی کو وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو خطوط ارسال کرتے ہوئے شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو، قومی احتساب بیورو (نیب)، سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن پاکستان، وفاقی تحقیقاتی ادارے، گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان (ایس بی پی)، مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے علاوہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹریز کو خطوط لکھے گئے تھے۔

مذکورہ خطوط میں متعلقہ حکام سے 90 روز میں عملدرآمد رپورٹ طلب کی گئی تھی۔

چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ

یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

بعد ازاں حکومت چینی بحران پر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

شہزاد اکبر نے کہا تھا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔