پاکستان

افغان امن مذاکرات: وزارت خارجہ کی دعوت پر طالبان وفد کی پاکستان آمد متوقع

طالبان وفد امن مذاکرات سے متعلق پیش رفت پر بات چیت کیلئے پاکستان آرہا ہے، ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری
|

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغان امن مذاکرات سے متعلق پیش رفت پر بات چیت کے لیے افغان طالبان کا وفد پاکستان پہنچ رہا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے جاری مختصر بیان میں بتایا گیا کہ وزارت خارجہ کی دعوت پر امن مذاکرات سے متعلق پیش رفت پر بات چیت کے لیے افغان طالبان کا وفد پاکستان پہنچ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور طالبان کا افغان مفاہمتی عمل کی جلد بحالی پر اتفاق

دوسری جانب عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق قطر کے شہر دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک جاری بیان میں کہا کہ اتوار کے روز طالبان کا اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان کی وزارت خارجہ کی دعوت پر اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگیا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ اسلامی امارات کے وفد کا خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کا دورہ امن مذاکرات کے حوالے سے ہماری سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملا برادر طالبان وفد کی سربراہی کررہے ہیں اور یہ وفد اسلام آباد میں افغانستان کے حوالے سے جاری امن مذاکرات پر پاکستان کے سینئر حکام سے تبادلہ خیال کرے گا۔

دوحہ میں موجود طالبان ذرائع کے مطابق وفد کے دیگر اراکین میں خیر اللہ خیر خواہ، محمد نبی عمر، شاہ بدین دلاور اور عبدالطیف منصور شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، طالبان امن مذاکرات، کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ طالبان وفد کی جانب سے پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہونے والا ہے جب صرف چند روز قبل 18 اگست کو وزارت خارجہ نے 2 سیچوریٹی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیے تھے جس میں افغان طالبان سمیت متعدد دہشت گرد عناصر پر اثاثے منجمد، سفر اور اسلحے سے متعلق پابندیوں کا حکم دیا گیا تھا۔

اس ضمن میں ڈان سے بات کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ زاہد چوہدری نے کہا تھا کہ ’18 اگست کو جاری کردہ ایس آر او صرف عملی اقدام کے طور پر پہلے سے اعلان کردہ ایس آر اوز کو مستحکم اور دستاویزی بناتے ہیں اور پابندیوں کی فہرست یا پابندیوں کے اقدامات میں کسی قسم کی تبدیلی ظاہر نہیں کرتے‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی طالبان پابندی کمیٹی، طالبان اور ان سے منسلک اداروں یا افراد پر پابندی کے معاملات طے کرتے ہیں۔

جس کے بعد طالبان نے ایک جاری بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے مذکورہ پابندیوں کی وجہ سے بین الافغان امن مذاکرات متاثر ہوسکتے ہیں۔

سہیل شاہین نے مذکورہ معاملے پر عرب نیوز کو بتایا تھا کہ یہ نئی پابندیاں نہیں ہیں اور اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ اسلامی امارات کے اراکین پر ایسی پابندیاں لگائی گئی تھیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب ہم بین الافغان مذاکرات کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس کے لیے ہمیں سفر کی ضرورت ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی پابندی اس امن عمل کو متاثر کرسکتی ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا تھا کہ کسی بھی طالبان رہنما کے پاکستان میں اثاثے یا بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں اور نا ہی انہوں نے کبھی ہتھیار ہی پاکستان سے خریدے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ افغان طالبان کا وفد پاکستان آرہا ہے اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبر میں بھی طالبان کا اعلیٰ سطح کا وفد امن عمل پر بات چیت کے لیے اسلام آباد کا دورہ کرچکا ہے اور اس دوران انہوں نے پاکستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقات بھی کی تھی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم سے طالبان وفد نے کوئی ملاقات نہیں کی، معاون خصوصی کی وضاحت

رپورٹس کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کے چیف ملا عبدالغنی کی سربراہی میں 12 رکنی طالبان وفد حکومت پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد پہنچا تھا۔

دفتر خارجہ میں وفد کی آمد کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے استقبال کیا، ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کے دوران خطے کی صورتحال اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دفتر خارجہ میں ہونے والی اس ملاقات میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور دفتر خارجہ کے دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔

یاد رہے کہ تقریباً دو دہائیوں پر محیط امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ اور امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے سلسلے میں رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان نے ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

اس امن معاہدے کے تحت امریکی فوج کے ملک سے انخلا اور طالبان قیدیوں کی رہائی کے ساتھ متعدد دیگر وعدے بھی کیے گئے تھے جس کا مقصد مکمل سیز فائر کرتے ہوئے پائیدار امن کا قیام ہے۔

علاوہ ازیں افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کو دونوں جانب سے کچھ قیدیوں کی رہائی نہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔