لاہور ہائی کورٹ کے نامزد ججوں کی فہرست لیک ہونے پر وکلا کو تشویش
لاہور ہائیکورٹ میں ججوں کی ترقی گزشتہ کئی سالوں سے اہم مسئلہ بن گئی ہے، جہاں ہر تھوڑے دنوں بعد پیش کردہ امیدواروں کی فہرست بغیر کسی حتمی فیصلے کے سوشل میڈیا ہر گردش کرنے لگتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) گلزار احمد اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان کے درمیان ملاقات بھی ہوئی، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس فہرست کی حتمی منظوری نہیں دی گئی ہے۔
منظور شدہ 60 ججز کی ضرورت میں سے 20 ججز کی ترقی ہائی کورٹ میں موجودہ خالی اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے ضروری ہے جو تقریباً دو سالوں سے خالی ہیں۔
پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے اس ملاقات کے بارے میں سوشل میڈیا پر آنے والی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے مبینہ طور پر ہائی کورٹ کے جج مقرر ہونے والے افراد کی فہرست پر تبادلہ خیال کیا اور حتمی شکل دی جو، کونسل کا خیال ہے کہ اس فہرست میں ان لوگوں کے نام بھی شامل ہیں جو کبھی اپنی ترقی میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جسٹس محمد قاسم خان کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا گیا
پی بی سی کے نائب صدر عابد ساقی نے اپنے بیان میں مطالبہ کیا کہ متعلقہ حکام اس طرح کی رپورٹس کی جانچ پڑتال کریں اور حقیقی پوزیشن کو واضح کریں۔
پی بی سی نے چیف جسٹس سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) میں پی بی سی کی نمائندگی کرنے والے اختر حسین کے ساتھ بامقصد مشاورت کے لیے فوری طور پر ترقی کے لیے زیر غور ججز کی اصل فہرست شیئر کریں۔
جے سی پی آرٹیکل 175 اے کے تحت ایک آئینی ادارہ ہے جو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ ججوں کی ترقی کا فیصلہ کرتا ہے۔
عابد ساقی نے کہا کہ فہرست آنے کے بعد پی بی سی ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہونے کی وجہ سے بار کے ساتھ معنی خیز مشاورت کے حقیقی مقصد کی تکمیل کے لیے صوبائی اور اسلام آباد بار کونسلوں کے نمائندوں سے بات چیت کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہی جے سی پی کو اس کے اجلاس میں اس معاملے پر غور کرنا چاہیے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ جے سی پی میں اپنے نمائندوں کے ساتھ بامقصد مشاورت کے بغیر قانونی برادری کسی بھی ترقی کو قبول نہیں کرے گی۔
واضح رہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کے عمل میں شفافیت بار ایسوسی ایشن کا مستقل مطالبہ رہا ہے۔
پی بی سی کا مؤقف ہے کہ جے سی پی کے کسی بھی ممبر کو کمیشن کے اجلاس میں ججز کے نام تجویز کرنے کا حق ہونا چاہیے۔
تاہم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر وکیل نے بتایا کہ جے سی پی سے پاکستان بار کونسل کا مطالبہ آئین میں موجود نہیں لہذا کونسل کا مطالبہ غیر آئینی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کی پہلی خاتون جج سمیت 3 ججز نے حلف اٹھا لیا
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے مطالبات کے لیے وقتا فوقتا چیف جسٹسز پر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے تاکہ فہرست میں بار کے نمائندوں کے پسندیدہ افراد کو شامل کیا جاسکے۔
انہوں نے تجویز دی کہ اصل میں جے سی پی سے جو مطلوبہ تقاضا کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ نامزدگی کا ایک بہتر اور شفاف نظام تیار کیا جائے جس کی درخواست کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا 'بار کونسلز کو پہلے ہی ریگولیٹری گرفت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے عدالتی تقرریوں کو اس طرح کے ریگولیٹری گرفت میں یرغمال نہیں بنایا جاسکتا، امیدوار اتنے مضبوط ہونے چاہئیں کہ قانونی برادری سمیت تمام حلقوں کے غیر مناسب دباؤ کا مقابلہ کرسکے'۔
عمل غیر شفاف قرار
لاہور میں قانونی برادری کے سینئر رہنماؤں نے لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے لیے نامزد امیدواروں کی فہرست کے سامنے آنے پر تشویش کا اظہار کیا اور تقرر کے عمل کو غیر شفاف قرار دیا۔
پی بی سی کے وائس چیئرمین عابد ساقی، اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر طاہر نصراللہ وڑائچ کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ 'ہم سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی نام نہاد فہرست کی مذمت کرتے ہیں جس میں ججز کی حیثیت سے تقرری کے لیے دوسروں کے ساتھ ہمارے نام بھی شامل ہیں'۔
وکلا کے نمائندوں نے واضح کیا کہ انہوں نے مذکورہ تقرریوں کے لیے نہ تو درخواست کی تھی اور نہ ہی اس پر رضامندی کا اظہار کی تھا۔
تاہم بیان میں کہا گیا کہ وہ ہائی کورٹ میں تقرری کے عمل پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں اور اسے غیر شفاف قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام کچھ عناصر نے انہیں بار کے عہدیداروں کی حیثیت سے بدنام کرنے کے لیے کیا ہے۔ انہوں نے متعلقہ حلقوں سے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا۔