پاکستان

سندھ ہائی کورٹ نے عمر شیخ اور دیگر کو حراست میں رکھنے کی تفصیلات طلب کر لیں

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ملزمان کو بری کیے جانے کے باوجود حراست میں رکھنے پر عدالت نے تفصیلات طلب کیں۔

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں ٹرائل کورٹ کے حکم کو مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے آزاد کیے گئے چار افراد کی نظربندی کو چیلنج کرنے والی درخواست پر قیدیوں کی نظربندی سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اختیارات کے بارے میں تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں ججوں کے دو رکنی بینچ نے جیل حکام کو ہدایت کی کہ وہ جیل مینوئل کے مطابق احمد عمر شیخ کے والدین کو ان سے ملنے کی اجازت دیں۔

مزید پڑھیں: عمر سعید شیخ: ایک طالبعلم سے مجرم تک کا سفر

عمر شیخ، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل نے اپریل میں بریت کے باوجود صوبائی حکام کی جانب سے حراست میں رکھنے پر اپنے وکیل کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

صوبائی محکمہ داخلہ اور جیل حکام نے اپنے تاثرات جمع کرائے اور مؤقف اختیار کیا کہ یکم اپریل کو درخواست گزاروں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کے تحت تین ماہ کے لیے حراست میں لیا گیا تھا اور جولائی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ وابستگی اور دہشت گردی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ان کی نظربندی میں مزید تین ماہ کی توسیع کردی گئی تھی۔

بینچ نے درخواست گزاروں کے لیے وکیل کو آئندہ سماعت تک دوبارہ امیدوار داخل کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس درخواست کا فیصلہ 15 ستمبر کو دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیا جائے گا۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلیل دی کہ عمر شیخ کے والدین لندن سے ان سے ملنے آئے تھے لیکن جیل حکام نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا

انہوں نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت لوگوں کو نظربند کرنے کے صوبائی حکومت کے اختیار پر بھی سوال اٹھایا اور استدلال کیا کہ صرف وفاقی حکام انسداد دہشت گردی کی سرگرمیوں کے تحت اس طرح حراست میں لینے کے احکامات جاری کرسکتی ہے۔

درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ صوبائی حکام نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد یکم اپریل کو ایم پی او کے تحت ان کی نظربندی کا حکم دیا تھا اور یکم جولائی کو صوبائی محکمہ داخلہ نے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں اے ٹی اے کی دفعہ 11-ای ای کے تحت نام چوتھے شیڈول میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ تین ماہ کی نظربندیاں کا حکم دیا گیا۔

وکیل نے دلیل دی کہ درخواست گزار گزشتہ 20سالوں سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور بری ہونے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ نظربندی قانون کے مطابق نہیں ہے اور انہوں نے نوٹیفکیشن کو روکنے کی استدعا کی ہے۔

دو اپریل کو سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں کے اپیلٹ بینچ نے قتل اور اغوا برائے تاوان کے الزامات سے تمام اپیلوں کو بری کردیا اور صرف مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو مقتول صحافی کو اغوا کرنے کا مجرم پایا گیا تھا اور اسے سات سال قید کی سزا سنائی تاہم جب سے سزا سنائی گئی ہے، مجرم پہلے ہی 18سال قید میں گزار چکا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس: حراست کیخلاف عمر شیخ کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری

حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2002 میں وال اسٹریٹ جرنل کے 38 سالہ جنوبی ایشیا کے بیورو چیف کے اغوا برائے تاوان اور قتل کے الزام میں عمر شیخ کو سزائے موت سنائی تھی اور ساتھی ملزموں کو اغوا میں مرکزی مجرم کی مدد کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

صوبائی حکومت اور مقتول صحافی کے والدین نے سپریم کورٹ کے سامنے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیلیں دائر کی ہیں۔

یہ خبر 21 اگست 2020 بروز جمعہ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔