تحقیق میں بتایا گیا کہ جسمانی وزن میں اضافے سے دماغ کی جانب دوران خون کم ہوتا چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے الزائمر امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیق کے نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کس طرح موٹاپے الزائمر امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
تحقیق کے دوران 17 ہزار سے زائد مردوں اور خواتین کے دماغی اسکین کیے گئے جن کی اوسط عمر 41 سال تھی اور محققین کی جانب سے دماغ کے 128 حصوں میں دوران خون کا تجزیہ کیا گیا۔
ان افراد کو جسمانی وزن کے مطابق مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا، یعنی اوسط سے کم وزن، معمول کا وزن، زیادہ وزن، موٹاپا اور حد سے زیادہ جسمانی وزن کے مطابق گروپس تشکیل دیئے گئے ہیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ جسمانی وزن میں اضافے سے دماغ کے ان 5 حصوں کو خون کی فراہمی کم ہوجاتی ہے جو الزائمر امراض سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
طبی جریدے جرنل آف الزائمر ڈیزیز میں شائع تحقیق میں جسمانی وزن اور دماغ کو خون کی فراہمی کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی گی۔
جسمانی وزن اور دماغ کو خون کی فراہمی کے درمیان تعلق نوجوان افراد میں بھی واضح طور پر دیکھا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی وزن میں اضافہ دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے جسموں کو صحت مند رکھ کر دماغ کی نگہداشت کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ الزائمر جیسے لاعلاج امراض کا خطرے میں کمی کے لیے کنٹرول آپ کے ہی ہاتھ میں ہے۔
چند سال قبل جرمنی کی لائیپزیگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ موٹاپا دماغ کے گرے میٹرز پر منفی انداز سے اثرانداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں عمر میں اضافے کی صورت میں یاداشت سے محرومی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جسمانی وزن میں کمی درمیانی عمر میں بہتر دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند امر ہے۔
اس حوالے سے محققین نے موٹاپے کے شکار 617 افراد کے دماغی افعال کا جائزہ لیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ زیادہ جسمانی وزن جسمانی گرے سیلز میں کمی کا باعث بنتے ہیں خاص طور پر یاداشت سے متعلق حصے میں۔
محققین کا کہنا ہے کہ درمیانی عمر میں موٹاپے کا شکار ہونا ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور امراض قلب وغیرہ کا سبب بنتا ہے مگر اب معلوم ہوا کہ یہ دماغی صحت کے لیے بھی تباہ کن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اضافی جسمانی وزن بیکٹریا کو متحرک کرنے اور دماغ تک آکسیجن کی فراہمی میں کمی لاتا ہے جبکہ بلڈ گلوکوز میں اضافہ بھی دماغی افعال اور ساخت پر منفی انداز ہوتا ہے۔
یہ تحقیق طبی جریدے نیوروبائیولوجی آف ایجنگ جرنل میں شائع ہوئی۔