پاکستان

سفارتی عمارت کی کم قیمت فروخت پر سابق سفیر کے خلاف نیب ریفرنس دائر

سابق سفیر سید مصطفیٰ انور حسین نے جلارتہ میں خلاف ضابطہ عمارت فروخت کر کے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا۔

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے جکارتہ میں سفارتی عمارت انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنے پر سابق سفیر ریٹائرڈ میجر جنرل سید مصطفیٰ انور حسین کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کردیا۔

ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ انڈونیشیا میں سابق سفیر مسٹر سید مصطفیٰ انور حسین نے عمارت کو فروخت کرنے کے طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی کی، یہ ریفرنس ڈاکٹر قیصر رشید کی شکایت پر دائر کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی جم خانہ میں نئی تعمیرات روکنے، کڈنی ہل پارک کی زمین مکمل واگزار کرانے کا حکم

نیب کی تحقیقات کے مطابق سید مصطفیٰ انور حسین نے انڈونیشیا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اپنے تقرر کے بعد جکارتہ میں پاکستان کی سرکاری ملکیت کی جائیدادیں فروخت کرنے پر کام شروع کیا، سابق سفیر نے وزارت امور خارجہ یا حکومت کی منظوری کے بغیر ایم ایس پالما سیٹرا پرمائی کا سفارتی عمارت کی فروخت کے لیے بطور ایجنٹ/بروکر تقرر کر لیا۔

تحقیقات میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ملزم کے بدنیتی پر مبنی عزائم کے حامل ملزم نے 8 اگست 2001 کو ایک سرکاری خط کے ذریعے جائیدادوں کو دو مراحل میں فروخت کرنے سے متعلق ایک تجویز پیش کی، سید مصطفیٰ انور حسین نے اپنے ذرائع کے ذریعے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر اشتہارات کے ذریعے کوٹیشن طلب کیے بغیر وزارت خارجہ کو ایک تخمینے کے تحت قیمت بتائی اور وزارت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسے جائیدادیں فروخت کرنے کی اجازت دے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 2016 میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور سابق سفیر کے خلاف ریفرنس داخل نہ کرنے پر نیب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جن کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دوست تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت، نیب کے اختیارات کم کرنے کے لیے متحرک

آڈٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ریٹائرڈ جنرل سید مصطفیٰ انور حسین نے فروری 2002 میں سفارتی عمارت فروخت کردی تھی جس سے قومی خزانے کو 13 لاکھ 20 ہزار ڈالر کا نقصان ہوا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ مسابقتی بولی لگانے یا مہر بند بولی کی دعوت دینے کے لیے پریس میں اشتہار کے بغیر غیر شفاف طریقے سے جائیداد کو بیچ دیا گیا تھا۔

اس فروخت کا تنازع پیدا ہونے کے بعد وزارت خارجہ نے چیف ایگزیکٹو (جنرل مشرف) کو ایک سمری پیش کی تھی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ سفیر کو فروخت کے معاہدے کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی جائے اور ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی کو تحقیقات کے لیے جکارتہ بھیجا جائے۔

16 مئی 2002 کو جنرل مشرف نے اس عمارت کو فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔

نیب ریفرنس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ریٹائرڈ جنرل حسین نے بغیر کسی اختیار کے سفارتی عمارت کی فروخت کا معاہدہ کیا اور اسے وزارت سے پوشیدہ رکھا۔

تاہم ملزم نے خود کو بچانے کے لیے 10 اپریل 2002 کو لکھے گئے خط کے ذریعے وزارت خارجہ کے دفتر کو نظرانداز کرتے ہوئے سفارتی عمارت کی فروخت سے متعلق منظوری حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کے دفتر تک رسائی حاصل کی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ جنرل مشرف نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں سابق سفیر کو غلطی کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب سمیت متعدد افراد کو 'بلیک میل کرنے والے گروہ' کے خلاف ریفرنس دائر

ریفرنس میں بتایا گیا کہ سفارتی عمارت کی تشخیص ایم ایس رے وائٹ کے ذریعے پاکستان کے سفارتخانے نے قیمت کی جانچ کی تھی، اس رپورٹ میں کہا گیا کہ جائیداد فروخت کرکے ملزم نے قومی خزانے کو 13 لاکھ 20 ہزار ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔

نیب کے مطابق قومی احتساب آرڈیننس کے تحت ملزم نے کرپشن اور بدعنوانی کے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

بیورو نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ ملزم کو قانون کے مطابق سزا دینے کی کوشش کرے۔


یہ خبر 20 اگست 2020 بروز جمعرات ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔