صحت

کیا پاکستان میں کورونا کیسز میں اچانک کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے؟

اس کا عندیہ ایک نئی طبی تحقیق میں دیا گیا ہے، جس کے مطابق ہوا میں زیادہ نمی اس وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان میں جولائی کے مہینے سے نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے کیسز میں نمایاں کمی ہوئی اور دنیا بھر میں ماہرین اس کامیابی پر حیران رہ گئے۔

اب کورونا وائرس کی وبا کی شرح اتنی میں اتنی تیزی سے کمی آنے کی واضح وجوہات تو کچھ عرصے میں سامنے آسکیں گی، مگر حکومت اسے اسمارٹ یا مائیکرو لاک ڈاؤن اور دیگر احتیاطی اقدامات کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔

مگر ایک ممکنہ وجہ موسم کا اثر بھی ہوسکتا ہے جس کا عندیہ ایک نئی طبی تحقیق میں دیا گیا ہے، جس کے مطابق ہوا میں زیادہ نمی اس وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان میں جولائی سے مون سون کے سیزن کے باعث ہوا میں نمی کی سطح میں نمایاں حد تک اضافہ ہوا ہے، تاہم یہ خیال کس حد تک درست ہے، اس کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہوگا۔

وائرس سے ہونے والی بیماریاں جیسے انفلوائنزا یا فلو عام طور پر مخصوص موسم میں زیادہ پھیلتی ہیں جبکہ موسمی نزلہ زکام بھی سردیوں میں زیادہ نظرآتا ہے اور سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ نوول کورونا وائرس کیا مخصوص موسم میں زیادہ آسانی سے پھیل سکتا ہے یا نہیں۔

آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی اور چین کی فوڈان یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ کی مشترکہ تحقیق میں اس کا جواب دیتے ہوئے عندیہ دیا گیا کہ ہوا میں کم نمی اس نئے کورونا وائرس کے زیادہ پھیلنے کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

کووڈ کے پھیلاؤ میں متاثرہ افراد کے منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

مئی کے آخر میں دونوں یونیورسٹیوں کی ایک الگ تحقیق میں کووڈ 19 کی وبا کے ابتدائی مرحلے میں ہوا میں کم نمی اور برادری کی سطح پر کیسز زیادہ پھیلنے کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا تھا۔

اب محققین نے اس حوالے سے مزید گہرائی میں جاکر اس خطرے یا تعلق کی تصدق کرتے ہوئے بتایا کہ درجہ حرارت کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کس طرح کردار ادا کرتا ہے اور نمی زیادہ یا کم ہونے سے کیا فرق آتا ہے۔

طبی جریدے ٹرانس باؤنڈریز اینڈ ایمرجنگ ڈیزیز میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سڈنی میں کورونا وائرس کے کیسز کی شرح میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب ہوا خشک اور نمی کی سطح کم ہوگئی۔

محققین کا کہنا تھا کہ دوسری تحقیق ان شواہد میں اضافہ کرتی ہے کہ ہوا میں نمی کووڈ 19 کے پھیلاؤ میں بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

کم نمی کے لیے خشک آب و ہوا کی اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے اور محققین نے دریافت کہا کہ ہوا میں نمی کی شرح میں ہر ایک فیصد کمی کے نتیجے میں کیسز کی تعداد میں 7 سے 8 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں ہوا میں نمی میں 10 فیصد کمی کے نتیجے میں کووڈ 19 کے کیسز کی شرح میں دوگنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ خشک ہوا کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے لیے موزوں ہوتی ہے اور موسم کے اس اثر کو دیکھتے ہوئے یہ تصور مضبوط ہوتا ہے کہ یہ مستقبل میں سیزنل بیماری کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایسی حیاتیاتی وجوہات موجود ہیں جو نمی کو اس طرح کے وائرسز کے پھیلاؤ کے لیے اہم ثابت کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب نمی کی سطح کم ہوتی ہے تو ہوا خشک ہوجاتی ہے اور ذرات کا حجم کم ہوجاتا ہے، جب آپ چھینکتے اور کھانستے ہیں تو یہ ننھے ذرات ہوا میں زیادہ دیر تک معطل رہتے ہیں، جس سے دیگر افراد کے بیمار ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اس کے مقابلے میں جب ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے تو یہ ذرات بڑے اور بھاری ہوتے ہیں اور بہت جلد سطح پر گرجاتے ہیں۔

اس حوالے سے مزید تحقیق پر بھی زور دیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ خزاں یا سرما میں ہوا میں نمی میں کمی کووڈ 19 کے کیسز کی شرح پر کس حد تک اثرانداز ہوتی ہے۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو مگر ہوا میں نمی کی مقدار کیسز کی شرح پر اثرانداز ہوتی ہے۔

مگر انہوں نے نئے کورونا وائرس کے کیسز اور بارشوں، درجہ حرارت یا ہوا کی رفتار کے درمیان کوئی فرق دریافت نہیں کیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق کے دوران آسٹریلیا میں موسم خزاں چل رہا تھا اور ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ گرما کے اختتام اور خزاں کے آغاز میں آسٹریلیا میں موسم اور کووڈ 19 کے درمیان کیا تعلق سامنے آتا ہے۔

اس سے قبل اپریل میں یالے یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔

جریدے Annual Review of Virology میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس کے پھیلنے اور موسم کے درمیان تعلق کا جائزہ مختلف تحقیقی رپورٹس میں لیا جارہا ہے اور، 2 بنیادی عناصر اس کے لیے اہمیت رکھتے ہیں وہ ہے ماحولیاتی پیرامیٹر اور انسانی رویوں میں تبدیلیاں۔

مختلف درجہ حرارت اور نمی سے وائرسز کے پھیلائو اور استحکام پر اثرانداز ہوتے ہیں، مثال کے طور پر ایک نئے تجزیے سے عندیہ ملتا ہے کہ سرد خشک ہوا سردیوں میں انفلوائنزا کے پھیلنے میں کردار ادا کرسکتی ہے۔

تحقیق میں وضاحت کی گئی کہ کس طرح سردی کی ٹھنڈی اور خشک ہوا نئے کورونا وائرس کے پھیلنے پر ممکنہ طور پر اثرانداز ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ جب سرد، خشک ہوا چاردیواری کے اندر آتی ہے اور پھر گرم ہوتی ہے تو گھر کے اندر نمی کا تناسب گھٹ کر 20 فیصد رہ جاتا ہے، نمی میں اتنی کمی ہوا میں موجود وائرل ذرات کے سفر کو آسان بنادیتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جسم کی سانس کی نالی کے باہر موجود خلیات خشک ماحول میں اچھی طرح کام نہیں کرپاتے، وہ وائرل ذرات کو اس طرح خارج نہیں کرپاتے، جیسا دیگر حالات میں کرتے ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کھلے ماحول میں بہت زیادہ نمی بھی وائرس کے پھیلائو میں معاونت کرتی ہے، مثال کے طور پر استوائی علاقوں میں ہوا میں موجود ذرات زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں بیشتر گھروں اور عمارات میں ہوا کے اخراج کا نظام ناقص ہوتا ہے، جبکہ لوگ بہت قریب رہتے ہیں، جس سے زیادہ نمی کے نتیجے میں وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ لوگ سال کے کسی بھی حصے میں وائرس کو ایک دوسرے سے تعلق اور آلودہ سطح کو چھونے سے پھیلا سکتے ہیں اور بچنے کا بہترین طریقہ ہاتھوں کی صفائی اور سمای دوری کی مشق ہے۔

کیا کووڈ 19 سے لوگ کئی بار بیمار ہوسکتے ہیں؟ ممکنہ جواب سامنے آگیا

بل گیٹس کی کورونا وائرس کی وبا کے دوران ایک اور جان لیوا خطرے کی نشاندہی

کورونا وائرس ہوا میں 5 میٹر تک سفر کرسکتا ہے، تحقیق