دوسرے پارلیمانی سال میں حکومت کے آرڈیننس کی تعداد قانون سازی سے زیادہ
اسلام آباد: 12 اگست کو اختتام پذیر ہونے والے دوسرے پارلیمانی سال کے دوران حکومت کے نافذ کردہ آرڈیننس کی تعداد قومی اسمبلی سے منظور شدہ قوانین کی تعداد سے تجاوز کر گئی جو نہ صرف قانون سازی کے تناظر میں بلکہ اسمبلی کی کارروائی اور وزیراعظم کی حاضری کے حوالے سے ملک کی اعلیٰ مقننہ کی مایوس کن کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔
سرکاری ڈیٹا کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی سخت تنقید کے باوجود قانون سازی کے لیے زیادہ تر آرڈیننس کا سہارا لیا اور گزشتہ پارلیمانی سال میں نافذ کیے گئے 7 آرڈیننس کے مقابلے میں دوسرے پارلیمانی سال کے دوران 31 آرڈیننس جاری کیے۔
ڈان اخبار کیرپورٹ کے مطابق ان میں 2 سب سے متنازع آرڈیننس بھی شامل ہیں جس میں ایک قومی احتساب آرڈیننس 1999 اور دوسرا بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں قونصلر رسائی دینے سے متعلق تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ’پہلے پارلیمانی سال میں قومی اسمبلی کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی‘
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین نے ابتدا میں حکومت کی جانب سے گزشتہ ماہ آرڈیننس پیش کرنے کو ناقابل برداشت، ناقابل قبول اور قومی وقار کے خلاف قرار دے کر اس اقدام کی مخالفت کی تھی تاہم حکومت کے ساتھ پس پردہ سمجھوتہ ہونے کے بعد آرڈیننس پیش کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
قانون سازی
دوسری جانب حکومت اپنے دوسرے پارلیمانی سال کے دوران قومی اسمبلی سے 29 بل منظور کروا سکی جس میں ایک پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران منظور کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال قومی اسمبلی سے منظور کیے جانے والے 10 بل میں آئینی ترامیم اور 3 مالیاتی جبکہ 2 ضمنی مالیاتی بلز تھے، اس کے علاوہ اس میں 2 بلز گزشتہ قوانین کو ختم کرنے سے متعلق تھے جو محض رسمی کارروائی تھی۔
اس برس حکومت نے پارلیمان سے مجموعی طور پر 30 بلز منظور کروائے جس میں فنانس ایکٹ 2020 اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط سے متلق ایک درجن بلز شامل تھے۔
مزید پڑھیں: ’پارلیمانی سال کے دوران سینیٹ میں اراکین کی حاضری 100 فیصد نہیں رہی‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے پہلے پارلیمانی سال کے دوران 19 بلز کےمقابلے میں دوسرے پارلیمانی سال کے دوران 52 بلز متعارف کروائے، ایوان زیریں میں 110 پرائیویٹ ممبرز بلز پیش کیے گئے جن کی تعداد اس سے قبل 49 تھی۔
دوسری جانب متعدد قائمہ کمیٹیوں میں زیر التوا پرائیویٹ ممبرز کے بلز کی تعداد 150 سے تجاوز کر چکی ہے۔
اجلاسوں کی تعداد
اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے ایک پارلیمانی سال کے دوران کم از کم 130 دن اجلاس کی شرط کو پورا کرنے کے لیے اسمبلی اجلاسوں کو کم از کم 2 ماہ تک محیط کردیا۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دوسرے پارلیمانی سال کے دوران قومی اسمبلی میں 133 دن اجلاس ہوا تاہم 2 ورکنگ دنوں کے درمیان آنے والی 2 چھٹیوں کو شامل کیا گیا جبکہ اجلاسوں کی حقیقی تعداد 91 تھی۔
اجلاس کے دوران کشیدہ صورتحال
گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی متعدد اجلاس حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایوان میں کشیدہ صورتحال کے باعث ہنگامہ آرائی کا شکار ہوئے جس پر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو ایوان میں نظم و ضبط برقرار رکھنے میں ناکامی پر عجلت میں اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
اس دوران اپوزیشن نے متعدد مرتبہ وزرا بالخصوص وزیر مواصلات مراد سعید کو جواب دینے سے روکنے کے لیے واک آؤٹ اور کورم کی نشاندہی کرنے کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔