کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے بھرے منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ننھے ذرات ہوا میں طویل وقت تک موجود رہ سکتے ہیں اور اس عرصے میں زیادہ افراد کو بیماری کا شکار کرسکتے ہیں۔
سائنسدان فلوریڈا یونیورسٹی ہیلتھ شانڈز ہاسپٹل میں زیرعلاج مریضوں سے 4.8 میٹر کی دوری پر وائرس والے وبائی ذرات کو الگ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
نتائج اس لیے اہم ہیں کیونکہ اس وقت سماجی دوری کے لیے 2 میٹر کی دوری کا مشورہ دیا جاتا ہے، جس کے بارے میں محققین کا کہنا تھا کہ اس سے لوگوں میں سیکیورٹی کا غلط احساس ہوتا ہے اور متعدد افراد وبائی مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں سائنسدانوں میں کئی ماہ سے یہ بحث ہورہی ہے کہ منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات ہوا میں رہ کر کس حد تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کررہے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے اور اس میں بتایا گیا کہ نتائج سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ کووڈ 19 ہوا کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس وقت کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جو طریقے اپنائے گئے ہیں، ان میں سماجی دوری، فیس ماسک کا استعمال اور ہاتھوں کی صفائی ہے۔
کچھ طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج احتیاط سے جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ابھی یہ واضح نہیں کہ محققین نے وائرس کے جن نمونوں کو الگ تھلگ کیا، وہ مقدار کسی کو بیمار کرنے کے لیے کافی تھی یا نہیں۔
کولوراڈو یونیورسٹی کی ماہر شیلی ملر کا کہنا تھا کہ ہوا سے حیاتیاتی میٹریل کے نمونے اکٹھے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، ہمیں اس طرح کے نمونوں کے حوالے سے زیادہ دانشمندانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے ہسپتال میں مریضوں کے کمرے میں 2 میٹر اور 4.8 میٹر سے نمونے اکٹھے کیے۔
وہ دونوں فاصلوں سے وائرس کو اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے اور لیبارٹری ٹیسٹوں سے انکشاف ہوا کہ نمونے خلیات کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھے۔
محققین نے تحقیق کے دوران وہ طبی طریقہ کار استعمال نہیں کیا جس کو ماضی میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ہوا سے بیماری کے پھیلاؤ کی شناخت کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے۔
مزید براں ہسپتال کے کمرے کی ہوا کو مسلسل خصوصی آلات کے ذریعے صاف کیا جارہا تھا۔
اس کے باوجود ہوا کے نمونوں میں وائرس کو الگ کرنے کے باعث سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چاردیواری کے اندر وائرس کے پھیلنے کا خطرہ سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں کیسز کی تعداد میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ہوا میں موجود ذرات کے حوالے اقدامات کے لیے واضح رہنمائی کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ڈبلیو ایچ او نے یہ موقف اختیار کیا ہوا تھا کہ یہ وائرس منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات کے ذریعے ہی پھیل سکتا ہے جن کا حجم انسانی بال کی چوڑائی جتنا ہوسکتا ہے مگر یہ ایروسول یا ہوا میں تیرنے والے انتہائی ننھے ذرات کے مقابلے میں بڑے اور بھاری ہوتے ہیں۔
تاہم جولائی میں پہلی بار عالمی ادارہ صحت نے تسلیم کیا کہ نیا کورونا وائرس ناقص ہوا والے کسی کمرے میں ہوا کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے اور 6 فٹ سے بھی زیادہ فاصلے پر موجود لوگوں تک جاسکتا ہے۔
عالمی ادارے کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ ہسپتالوں سے باہر ایسے شواہد نہیں ملے کہ نوول کورونا وائرس ہوا میں بہت دیر تک تیر سکتا ہے یا بہت دور تک سفر کرسکتا ہے، یعنی دیگر افراد سے چند فٹ کی دوری اختیار کرنے خود کو محفوظ کرنے کے لیے اہم احتیاط سمجھی جاتی ہے۔
مگر جولائی کے آغاز میں سیکڑوں طبی ماہرین نے ایک کھلے خط میں عالمی ادارہ صحت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے موقف پر نظرثانی کرے، جس کے بعد ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر نئی سائنسی سفارشات جاری کی ہیں۔
اس خط کے بعد عالمی ادارے کی جانب سے جاری نئی ہدایات میں کہا گیا 'کووڈ 19 کے اجتماعی کیسز کے واقعاتا کچھ بند جگہوں جیسے ریسٹورنٹس، مذہبی مقامات، کلبوں یا ایسے مقامات جہاں لوگ چیختے، تقریریں یا گاتے ہیں، میں رپورٹ ہوئے ہیں'۔