ٹرمپ کی ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کیلئے ’اسنیپ بیک‘ کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں میں توسیع کے لیے’اسنیپ بیک‘ کو آئندہ ہفتے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ سفارتی سطح پر اسنیپ بیک ایک متنازع تکنیک ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو ایران کے خلاف اسلحے کی عالمی پابندیوں میں توسیع کے لیے مجبور کرسکتی ہے۔
مزیدپڑھیں: اسرائیل سے معاہدہ: یو اے ای کیلئے امریکی ہتھیاروں کی خریداری کی راہ ہموار ہوگی، ماہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب امریکی صدر نے ایک روز قبل ہی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے ایران سے متعلق عالمی رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کے مطالبے کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ واشنگٹن شاید اس میں حصہ نہیں لے گا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسلحے کی پابندی میں توسیع کے لیے امریکی کوشش ناکام ہونے کے اگلے ہی روز ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم اسنیپ بیک کریں گے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ’آئندہ ہفتے آپ سب دیکھیں گے‘۔
واضح رہے کہ امریکا نے دھمکی دی ہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل ’اسنیپ بیک‘کا استعمال کرتے ہوئے ایران پر اقوام متحدہ کی تمام پابندیوں کو واپس لے آئے گا۔
دوسری جانب سفارت کاروں نے کہا کہ امریکا کو ایسے کسی بھی اقدام میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایران جوہری معاہدے میں شریک اور امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اہلکار جیرٹ بلینک نے ٹوئٹ میں ٹرمپ کے ارادوں کے نتائج کے بارے میں متنبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اسنیپ بیک سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو تباہ کن نقصان ہوگا اور یہ نقصان مستقبل میں امریکی کردار کو بھی پہنچے گا۔
یہ اقوام متحدہ کی اسنیپ بیک کیا ہے؟
اقوام متحدہ کی اسنیپ بیک کے اطلاق سے ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو ترک کرنا ہوگا جس میں تحقیق اور جوہری افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے سامان کی درآمد بھی شامل ہوگی۔
ایک طرح سے ایران پر دوبارہ عالمی ہتھیاوں کی خریداری پر پابندی لگ جائے گی۔
علاوہ ازیں دیگر ممالک کو بھی ایران سے ہونے والی ترسیل کے معائنے اور کسی بھی ممنوعہ سامان کو ضبط کرنے کا اختیار ہوگا۔
اسنیپ بیک کا اطلاق کس طرح ہوگا؟
امریکا کو ایران کے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے بارے میں سلامتی کونسل میں شکایت جمع کروانی ہوگی۔
اس کے بعد کونسل کو ایران کی پابندیوں سے متعلق قرار داد پر 30 دن کے اندر ووٹ دینا پڑے گا۔
اگر قرارداد کو ڈیڈ لائن کے مطابق پیش نہیں کیا گیا تو ایران پر عائد 2015 کی تمام پابندیاں دوبارہ خود بخود نافذ ہوجائیں گی۔
کچھ سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ امریکا اگلے ہفتے کے اوائل میں اپنی شکایتی درخواست پیش کرسکتا ہے۔
امریکا اس سے پہلے کبھی اتنا تنہا نہیں تھا، ایران
دوسری جانب ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی 75 برس کی تاریخ میں امریکا کبھی بھی اتنا تنہا نہیں تھا۔
واضح رہے کہ اسلحے کی خریداری سے متعلق یہ پابندی ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے مابین 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کے تحت 18 اکتوبر کو ختم ہونے والی ہے۔
مزیدپڑھیں: اسرائیل، یواے ای معاہدہ: 'بے باک، شرمناک، اچھی خبر'، عالمی سطح پر ملاجلا ردعمل
امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کی ناکامی سے متعلق مختصر بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے قرارداد کی ناکامی کو سلامتی کونسل کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے دفاع میں مذکورہ فیصلہ ناقابل معافی ہے۔
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر جانگ جون نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 'ایک مرتبہ پھر ظاہر ہوگیا ہے کہ یکطرفہ نظام کی کوئی حمایت نہیں کرے گا اور دھونس ناکام ہوگی۔'
اس سے قبل 11 نومبر 2019 کو ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان (جے سی پی او اے) پر مسلسل عمل درآمد کے نتیجے میں 2020 تک ایران پر موجود اسلحے کی پابندی ختم ہوجائے گی۔
یاد رہے کہ 2015 میں امریکا، جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین نے ایران کے ساتھ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے جس کے بدلے میں ایران پر عائد عالمی پابندیاں ہٹانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس ایران کے ساتھ ہوئے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے اس پر دوبارہ پابندیاں عائد کی تھیں۔
مزیدپڑھیں: امارات-اسرائیلی کمپنیز کے مابین کورونا وائرس تحقیق پر 'اسٹریٹجک تجارتی معاہدہ'
واشنگٹن میں اپنے خطاب میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا نے ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اور امریکا پابندیاں دوبارہ بحال کرے گا۔
دوسری جانب جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین اس معاہدے کو بحال رکھنا چاہتے ہیں جس کے تحت ایران کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ یورپ سے اپنی امیدیں نہ جوڑے کیونکہ تہران کے ساتھ عالمی قوتیں جوہری معاہدے کے تخلیق کار امریکا کے دباؤ میں ہیں۔