اسکینڈلز، تنقید اور تنازعات کے دو سال، وفاقی کابینہ میں چہروں کی تبدیلیاں
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے ثمرات انہیں 2018 کے انتخابات میں کامیابی اور پھر حکومت کی تشکیل سے ملے، وہ خود کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے طویل سیاسی جہدو جہد کی اور اس دوران انہوں نے پاکستان عوام کے سامنے اپنا منشور اور بیانیہ رکھا جسے لوگوں نے سراہا اور وہ انتخابات میں کامیاب رہے۔
عمران خان کے اس بیانیے میں سب سے اہم اور سر فہرست معاملہ بدعنوان اور کرپٹ سیاست دانوں اور بیورو کریٹس سے لوٹی ہوئی رقم کی واپسی تھا، اس کے بعد عوام کے مسائل کا حل، ملک میں صحت اور تعلیم کی سہولیات میں تمام طبقات کے لیے یکسانیت اور ملک کی خارجہ پالیسی کو بہتر بنانا تھا۔
پی ٹی آئی کے حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی ملک کی حزب اختلاف کی جماعتوں کی “بد عنوان” قیادت اور رہنما کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائیاں تیز ہوگئیں اور پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی سینئر قیادت اور سینئر رہنماؤں کی حراست، گرفتاریاں اور ان کے خلاف مقدمات کا سلسلہ تیز ہوگیا۔
نیب کے اس عمل پر اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کی گئی اور اسے نیب اور حکومت گٹھ جوڑ قرار دیا گیا تاہم وزیراعظم عمران خان اور حکومت کے دیگر عہدیدار اس بات کی ہمیشہ سے ہی تردید کرتے آرہے ہیں کہ ملک میں بدعنوان عناصر کے خلاف جاری کارروائیاں ‘پلانٹڈ’ ہیں۔
عمران خان اور ان کی حکومت کو اس کے علاوہ بھی متعدد معاملات میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے جن میں سے ایک اہم معاملہ ان کی کابینہ میں شامل وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کے عہدے پر برا جمان افراد کا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان اس مذکورہ تنقید کو کس قدر سنجیدہ لیتے ہیں اس بات کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ان کی حکومت کو ابھی دو سال ہی مکمل ہوئے ہیں اور کابینہ میں متعدد مرتبہ رد و بدل کیا جاچکا ہے اور اس کے علاوہ مشیروں اور معاونین خصوصی پر تنقید کو بھی متعدد مرتبہ اتنا سنجیدہ لیا گیا کہ یا تو وہ مستعفی ہوئے یا ان کے قلمدان تبدیل کردیئے گئے۔
مزید پڑھیں: ’نئے پاکستان‘ میں عمران خان نے کتنے یوٹرن لیے؟
اس کی ایک حالیہ مثال وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدروس کی جانب سے دیا جانے والا استعفیٰ ہے، ان دونوں معاونین خصوصی نے ان کے اثاثہ جات اور دوہری شہریت کے حوالے سے تفصیلات سامنے آنے کے بعد استعفیٰ دیا، ان کے علاوہ بھی چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد بھی متعدد وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی کے قلمدان میں تندیلی کی گئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو 18 اگست 2020 کو 2 سال مکمل ہوگئے ہیں اور ان دو سالوں میں وفاقی کابینہ میں کیا تبدیلیاں کی گئیں یا کن مشیروں اور معانین خصوصی کے قلمدان تندیل کیے گئے اس رپورٹ میں اس کا احاطہ کیا جارہا ہے تو مندرجہ ذیل ہے:
ڈاکٹر ظفر مرزا اور تانیہ ایدورس کا استعفیٰ
گزشتہ سال اپریل میں عامر کیانی سے وزارت صحت واپس لے کر ان کی جگہ ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا کو وزارت صحت کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا، وزیر صحت عامر محمود کیانی ادویات کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے تنازع کا شکار ہوگئے تھے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کو اپریل 2019 میں نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کوآرڈینیشن کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں اور وہ عالمی وبا کورونا وائرس کے خلاف حکومت کے ردعمل کی نگرانی میں مصروف عمل تھے۔
معاون خصوصی بننے سے قبل وہ مشرقی بحیرہ روم (Eastern Mediterranean) میں عالمی ادارہ صحت کے ریجنل آفس میں ہیلتھ سسٹم ڈیولپمنٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے تھے۔
خیال رہے کہ مارچ 2020 میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ڈاکٹر ظفر مرزا اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈریپ غضنفر علی کے خلاف 2 کروڑ ماسکس کی اسمگلنگ کی شکایت ملنے پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا، بعد ازاں ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس کے دوران اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ الزام لگانے والے کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔
جس کے بعد رواں برس 13 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے حکومت کو ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا بھی کہا تھا۔
اس کے بعد وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر ’غیر ذمہ دارانہ‘ رویہ اختیار کرنے اور کورونا وائرس کے حوالے سے وفاقی حکومت کا مقدمہ درست طریقے سے پیش نہ کرنے پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش بھی کی تھی۔
جون 2020 میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر صحت عامر محمود کیانی کے خلاف انکوائری اور معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف شکایت کی جانچ پڑتال کی منظوری دے دی تھی۔
نیب نے ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران 2 کروڑ فیس ماسکس اور دیگر پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ(پی پی ای)کی اسمگلنگ اور بھارت سے جان بچانے والی ادویات کی درآمد کی آڑ میں وٹامنز، ادویات اور سالٹس کی درآمد میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت کارروائی کی منظوری دی تھی۔
18 جولائی 2020 کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کی تھیں جس کے مطابق 19 غیر منتخب کابینہ اراکین میں سے وزیراعظم کے 4 معاونین خصوصی دوہری شہریت کے حامل تھے۔
مذکورہ فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا چھتر اور اسلام آباد میں ایک گھر اور جائیداد کے مالک ہیں، اس کے علاوہ 2 کروڑ روپے اور ڈی ایچ اے راولپنڈی اور ٹیکسلا میں ڈیڑھ، ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کے 2 پلاٹس بھی ہیں۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری تفصیلات میں ڈاکٹر ظفر مرزا کے اثاثوں کی تفصیلات کا معاملہ سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت اور ان کو سخت تنقید کا سامنا تھا جس کے بعد ڈاکٹر ظفر مرزا نے 29 جولائی کو استعفیٰ دے دیا۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے مستعفی ہونے کا اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں وزیراعظم عمران خان کی خصوصی دعوت پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) چھوڑ کر پاکستان آیا تھا، میں نے محنت اور ایمانداری سے کام کیا، پاکستان کی خدمت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، میں مطمئن ہوں کہ ایسے وقت میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں جب قومی کوششوں سے پاکستان میں کورونا وائرس میں کمی آچکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ معاونین خصوصی کے کردار سے متعلق منفی بات چیت اور حکومت پر تنقید کے باعث استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔
تانیہ ایدروس 20 سال پہلے پاکستان سے بیرون ملک چلی گئی تھیں اور انہوں نے پہلے امریکا کی برانڈیز یونیورسٹی سے بائیولوجی اور اکنامکس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی اور پھر میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ایم بی اے کیا۔
بعد ازاں انہوں نے ایک اسٹارٹ اپ کلک ڈائیگنوسٹک کی بنیاد رکھی اور اس کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا تھا، اس کے علاوہ انہوں نے گوگل کی جنوبی ایشیا کی کنٹری منیجر کے طور پر 2008 سے 2016 تک کام کیا اور پھر انہیں گوگل کے پراڈکٹ، پیمنٹ فار نیکسٹ بلین یوزر پروگرام کی ڈائریکٹر بنادیا گیا۔
وزیراعظم نے دسمبر 2019 میں تانیہ ایدروس کو ڈیجیٹل پاکستان ویژن کی سربراہ مقرر کیا تھا اور بعدازاں فروری 2020 میں انہیں معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان مقرر کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس جون میں ڈیجیٹل پاکستان سے منسلک ایک کمپنی کی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل تانیہ ایدروس کی شمولیت پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
اسی مہینے ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن (ڈی پی ایف) کے نام سے غیر منافع بخش کمپنی کو حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان اقدام کی تعریف کے لیے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سیکشن 42 کے تحت رجسٹرڈ کرایا گیا تھا۔
ایس ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹرز میں تانیہ ایدروس، پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین (جنہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا)، آن لائن ٹیکسی کمپنی کریم کے سی ای او مدثر الیاس اور جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند شامل تھے۔
بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تانیہ ایدروس کی شمولیت اور فاؤنڈیشن کے فنڈز اور کاموں کے حوالے سے شفافیت کی کمی نے خدشات کو جنم دیا اور یہ خاص طور پر مفاد کے تصادم کا باعث بنا تھا۔
ان خدشات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تانیہ ایدروس نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’کسی بھی معاون خصوصی کے غیر منافع بخش کمپنی کے بورڈ میں شامل ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی نہیں ہے مسئلہ اس وقت پیدا ہوگا جب کمپنی منافع بخش ہوتی‘۔
لیکن ان کے اس بیان کے باوجود یہ معاملہ متنازع تھا اور ان کے خلاف تنقید میں شدت اس وقت آئی جب 18 جولائی کو کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے وزیراعظم کے 4 معاونین میں تانیہ ایدروس کا نام بھی شامل تھا اور کابینہ ڈویژن کے مطابق وہ کینیڈا کی شہریت کی حامل ہیں اور سنگاپور میں ان کی مستقل رہائش بھی ہے۔
کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جاری تفصیلات کے مطابق تانیہ ایدروس امریکا، برطانیہ اور سنگاپور میں جائیداد کی ملکیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کی طرح تانیہ ایدروس نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میری شہریت کے معاملے پر ریاست پر ہونے والی تنقید ڈیجیٹل پاکستان کے مقصد کو متاثر کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے عوام کے مفاد میں وزیراعظم کی معاون خصوصی کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ جمع کرادیا ہے، اپنی بہترین صلاحیت کے ساتھ اپنے ملک اور وزیر اعظم کے وژن کی خدمت جاری رکھوں گی۔
تانیہ ایدروس نے ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان کو ارسال کیا گیا استعفیٰ بھی منسلک کیا تھا، جس میں انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ معاون خصوصی کے طور پر کام کرنا میرے لیے اعزاز تھا اور مجھ پر اپنا اعتماد بحال رکھنے پر آپ کی شکر گزار ہوں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیہ ایس ایدروس کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر (امریکا)، معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری (برطانیہ) اور معاون خصوصی برائے توانائی ڈویژن شہزاد قاسم (امریکا) شہریت کے حامل ہیں تاہم انہوں ںے مذکورہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد کسی وسم کا رد عمل نہیں دیا۔
اس کے علاوہ جو معاونین دیگر ممالک کی رہائش رکھتے ہیں، ان میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل (امریکا)، معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف (امریکا) اور معاون خصوصی برائے پارلیمانی کوآرڈینیشن ندیم افضل گوندل (کینیڈا) شامل ہیں۔
علاوہ ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ قانوناً کوئی بھی دوہری شہریت کا حامل شخص قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر نہیں بن سکتا لیکن کسی بھی دیگر عہدے کے حوالے سے ایسی کوئی قدغن موجود نہیں۔
حماد اظہر کے قلمدان میں متعدد مرتبہ تبدیلی
پی ٹی آئی کی حکومت نے حماد اظہر کے وفاقی وزیر مالیات کا حلف اٹھانے کے ایک روز بعد ہی ان سے محکمہ مالیات کا قلمدان واپس لے لیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے 8 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں سابق وزیر مملکت برائے مالیات کو وفاقی وزیر برائے مالیات تعینات کیا گیا تھا بعد ازاں انہیں ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن کی جانب سے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں حماد اظہر کو وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
تاہم جولائی 8 کے نوٹیفکیشن میں رد وبدل کے بعد 9 جولائی کو کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا ہے۔
بعد ازاں چینی بحرات کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور کی جگہ وزیر صنعت کا قلمدان دے دیا گیا تھا (چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق مزید تفصیلات رپورٹ میں آگے فراہم کی گئی ہیں)۔
یہاں یہ واضح رہے کہ حماد اظہر، قومی اسمبلی میں تحریک انصاف حکومت کے دو سالانہ بجٹ پیش کرچکے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق حماد اظہر نے یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے اقتصادی ترقی میں گریجویشن کیا تھا۔
جس کے بعد انہوں نے بی پی پی لا اسکول لندن سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا تھا، انہوں نے 2004 میں بار کونسل کے ووکیشنل کورس میں داخلہ لیا ور 2005 میں لنکن انز بار سوسائٹی کا حصہ بن گئے۔
چینی، گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ اور کابینہ میں تبدیلیاں
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے'۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔
چینی اور گندم بحران کی رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پاکستان میں چینی اور گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے دو روز بعد ہی وفاقی کابینہ میں رد و بدل کیا گیا اور وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا دیا گیا اور انہیں اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا اور ان کی جگہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کو مذکورہ وزارت دے دی گئی۔
اسی طرح حماد اظہر سے وزیر اقتصادی امور واپس لے کر انہیں وزیر صنعت کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا۔
کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول تاہم ان سے دو روز بعد ہی واپس لے لی گئی تھی، وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ بابر اعوان کو مشیر پارلیمانی امور مقرر کردیا گیا۔
خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق کابینہ میں شامل
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کو دیکھ رہے تھے۔
12 جنوری 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کے ساتھ ہی حکومتی و پی ٹی آئی کے نمائندوں نے ایم کیو ایم کنوینر سے کابینہ میں واپسی کے لیے متعدد ملاقاتیں کی تھیں تاہم خالد مقبول اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔
خالد مقبول صدیقی نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورا کریں گے تاہم میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کا حصہ بنے تو ہم پر یہ لازم تھا کہ 50 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت کے سامنے رکھتے' اور 'پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے'۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہم نے تحریک انصاف سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو حکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے'۔
بعد ازاں 6 اپریل 2020 کو وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، ساتھ ہی خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا تھا۔
22 اپریل 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما امین الحق نے خالد مقبول صدیقی کی جگہ وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں، اس سے قبل وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر مواصلات مقرر کیا تھا۔
اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے امین الحق کو ذمہ داریاں سونپنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق امین الحق کو وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کا قلمدان سونپا گیا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق عام انتخابات 2018 میں کراچی کے حلقہ 251 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی کابینہ میں متعدد مرتبہ واپسی
ویسے تو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پہلے دور حکومت کے دو سال کے دوران جس بھی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی کو کسی خاص عہدے سے ہٹایا تو اسے واپس یہ عہدہ نہیں دیا گیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم وہ واحد فرد ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر استعفیٰ دیا لیکن انہیں ہر مرتبہ کچھ ہی دن یا ہفتوں بعد ان کی وزارت واپس کردی گئی۔
آخری مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم نے 24 جولائی 2020 کو وفاقی وزیر قانون و انصاف کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، یہ تیسری مرتبہ تھا کہ فروغ نسیم، وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ بنے تھے۔
اس مرتبہ تقریباً 7 ہفتوں بعد ان کی دوبارہ وفاقی کابینہ میں واپسی ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں حکومتی نمائندگی کے لیے یکم جون 2020 کو وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
تاہم 20 جون کو سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو (1-9) کی اکثریت سے 'کالعدم' قرار دے دیا تھا جس کے بعد فروغ نسیم واپس کابینہ کا حصہ بن گئے۔
اس سے قبل فروغ نسیم نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں نمائندگی کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
وہ اس کیس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک روز بعد ہی 29 نومبر کو دوبارہ وزیر قانون کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا۔
فروغ نسیم کو وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔
فواد چوہدری کی جگہ شبلی فراز، فردوس عاشق اعوان کی جگہ لیفٹیننٹ عاصم باجوہ کا انتخاب
اپریل 2019 میں حکومت نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے فواد چوہدری سمیت متعدد وزرا کے قلمدان تبدیل کردیئے تھے۔
وزیراعظم ہاؤس کے مطابق مجموعی طور 6 وفاقی وزارتوں کے قلمدان میں ردوبدل کیا گیا تھا، فواد چوہدری سے اطلاعات و نشریات کی وزارت واپس لے کر انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے کئی وزرا کو اپنا معاون خصوصی بھی مقرر کیا، جن میں فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات و نشریات ڈویژن کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔
ان تبدیلیوں کے تقریباً ایک سال بعد ہی اپریل 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان سے عہدہ واپس لے کر ان کی جگہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم کا نیا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا۔
اس موقع پر فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا، ایک سال کے عرصے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کی جبکہ میں وزیر اعظم کے فیصلے کا احترام کرتی ہوں'۔
بعد ازاں نجی نیوز چینل کو ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وزرات میں ایک وقت میں بہت سے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جس کی وجہ سے ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا۔
واضح رہے کہ فردوس عاشق اعوان کے عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں کہا جا رہا تھا کہ ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کا باعث بنی تاہم شبلی فراز نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسی کسی رپورٹ کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2019 میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ نیب نے سابق وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما فردوس عاشق اعوان کے اثاثہ جات کی چھان بین شروع کرتے ہوئے جائیدادوں کا ریکارڈ ایل ڈی اے سے طلب کر لیا۔
یاد رہے کہ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں وفاقی وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں، بعد ازاں وہ عام انتخابات میں شکست کھانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئی تھیں۔
سیاسی جماعت تبدیل کرنے کے باوجود 2018 کے عام انتخابات میں بھی اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم انہیں گزشتہ سال 18 اپریل کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا تھا، اس طرح وہ ایک سال 9 روز اس عہدے پر براجمان رہیں، اور عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے وہ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے معروف شاعر فراز احمد فراز کے صاحبزادے سینیٹر شبلی فراز کو اگست 2018 میں سینیٹ میں قائدِ ایوان مقرر کیا تھا، وہ شبلی فراز 2015 میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خیبرپختونخوا سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
شبلی فراز ایوان بالا میں قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل اور تجارت اور قائمہ کمیٹی برائے گردشی قرضہ کے چیئرمین کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
ادھر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ریٹائرمنٹ سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، ڈی جی آرمز اور کمانڈر سدرن کمانڈ سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔
گزشتہ سال نومبر میں وفاقی حکومت نے انہیں پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرپرسن مقرر کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 20 جولائی 2020 کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کیں تھیِ، جس کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ 8 جائیدادیں رکھتے ہیں جس میں ایک گھر، پلاٹس، کمرشل پلاٹس اور (65 ایکڑز) زرعی زمین ہے، جس کی مالیت تقریباً 15 کروڑ روپے ہے۔
اسد عمر کا وزیر خزانہ سے وزیر منصوبہ بندی و اقدامات تک کا سفر
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو حلف اٹھائے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ 18 اپریل 2019 کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ کا حصہ بھی نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسد عمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کابینہ میں ردوبدل کے نتیجے میں چاہتے ہیں کہ میں وزارت خزانہ کی جگہ توانائی کا قلمدان سنبھال لوں لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لوں گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشااللہ نیا پاکستان ضرور بنے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد عمر کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ایک ہفتے قبل ہی وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو کے لیے واشنگٹن گئے تھے اور ان کی وہاں عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
تاہم اسی دورے کے دوران ان کو عہدے سے ہٹائے جانے اور کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں جسے حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
ان کے مستعفی ہونے کے چند ماہ بعد نومبر 2019 میں وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا تھا کہ وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردو بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو دوبارہ وزارت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل، اسد عمر کو منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات جبکہ خسرو بختیار کو پیٹرولیم کا وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے’ اور ‘اس ضمن میں نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا’۔
بعد ازاں 19 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے وفاقی وزیر کے عہدے کا دوبارہ حلف اٹھایا تھا اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی بننے کے بعد اسد عمر وفاقی کابینہ کا دوبارہ حصہ بن گئے تھے۔
عبدالحفیظ شیخ کے مشیر مقرر کیے جانے پر تنازع
اپریل 2019 میں اسد عمر کے وزارت خزانہ سے مستعفی ہونے کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو اور معاشی امور تعینات کرنے کی منظوری دی تھی تاہم اس تعیناتی پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ پرویز مشرف کی کابینہ کے تمام اراکین کو عمران خان نے اپنی کابینہ کا حصہ بنالیا ہے۔
علاوہ ازیں عبدالحفیظ شیخ کی تعیناتی کو عدالت میں بھی چیلنج کیا گیا۔
8 جولائی 2019 کو اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اختیارات کم کرتے ہوئے ان سے ریونیو ڈویژن کا قلمدان واپس لے لیا تاہم وہ وزیر اعظم کے مشیر برائے مالیاتی و اقتصادی امور کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔
ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، مالیات بتا دیا گیا جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے عبدالنبی شیخ کے صاحبزادے عبدالحفیظ شیخ سندھ کے شہر جیکب آباد میں پیدا ہوئے اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا منتقل ہوئے جہاں انہوں نے بوسٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا جس کے بعد انہوں نے 1984 میں وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے ورلڈ بینک کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے عالمی بینک کے معاشی آپریشنز برائے سعودی عرب کے صدر بنے۔
سنہ 2000 میں حفیظ شیخ پاکستان واپس آئے اور سندھ حکومت میں بطور وزیر خزانہ، منصوبہ بندی اور ترقی اپنے فرائض انجام دیے، بعد ازاں پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے وفاقی وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری کا قلمدان سنبھالا جہاں ان کی بہترین خدمات پر پاکستان کی تاجر برادری نے 2004 میں انہیں ’سال کا بہترین‘ شخص قرار دیا۔
2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں وفاقی وزیر خزانہ تعینات کیا تاہم 2013 کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، ڈاکٹر حفیظ شیخ عالمی سطح پر نامور ماہر معاشی امور ہیں جنہیں معاشی پالیسیاں بنانے کا 30 سال کا تجربہ حاصل ہے۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزارت داخلہ دینے پر تنازع
گزشتہ سال 19 اپریل کو وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ سے وزیر امور پارلیمان کی وزارت لے کر انہیں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔
خیال ہے کہ حکومت نے 29 مارچ کو انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ 2004 سے 2008 تک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رہے، انہوں نے گزشتہ برس عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آئی بی کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جبکہ دسمبر 2007 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اعجاز احمد شاہ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے بریگیڈیئر اعجاز شاہ پر مسلم لیگ قائداعظم اور پی پی پی پیٹریاٹ بنانے میں سہولت فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ کراچی میں وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے ماسٹر مائنڈ عمر سعید شیخ نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ذریعے ہی سرینڈر کیا تھا۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے وزیراعظم کے فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کیا تھا اور اس فیصلے کو وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن قرار دیا تھا جبکہ اعجاز شاہ کا اپوزیشن کے حوالے سے دیا جانے والا بیان ایوان میں مزید ہنگامے کی وجہ بنا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ وزیراعظم عمران خان کے پاس کسی بھی پارلیمانی رہنما کو وزیر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایک متنازع شخص کو وزیر پالیمانی امور کا عہدہ دے کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو مشتعل کیا۔
انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین کا ایسے شخص کے ساتھ بات چیت کرنا بھی مشکل ہوگا جو مبینہ طور پر پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔
پی پی پی رہنما پلوشہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ وہ شخص ہیں جنہوں نے جنرل (ر) مشرف کے لیے کام کیا اور ’ان کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط بھی تھے‘ جبکہ ’بینظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل کی صورت میں انہیں ممکنہ ذمہ دار ٹھہرایا تھا‘۔
علاوہ ازیں پی پی پی کی نفیشہ شاہ نے کہا تھا کہ اعجاز شاہ کے تقرر کے بعد پرویز مشرف اور عمران خان کی کابینہ میں کوئی فرق نہیں رہا، یہ وہی اعجاز شاہ ہیں جن کا پرویزمشرف کے دور میں سیاسی انجینئرنگ میں اہم کردار رہا ہے۔
دوسری جانب پی پی پی کے ان تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری کی سربراہی میں پی پی پی نے 5 سال تک ملک پر حکومت کی، 'اگر میں نے کچھ کیا تھا تو مجھے پھانسی لگا دیتے'۔
اعظم سواتی کا استعفیٰ اور نئی وزارت کا قلمدان
8 اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے باعث اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول بنا دیا گیا تھا۔
اور صرف دو روز بعد ہی اعظم سواتی سے یہ قلمدان واپس لے کر وزیر مملکت برائے سیفران (اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز) شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے انسداد منشیات کا اضافی قلمدان واپس دے دیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں ہی وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں کی جانے والی تبدیلوں میں اعظم سواتی، جو گزشتہ سال سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے، کو دوبارہ وفاقی وزیر کا عہدہ دے دیا گیا تھا، اس مرتبہ انہیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا قلمدان دیا گیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسی حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔
معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا'، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے تھے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا، بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔
29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جس کے بعد 6 دسمبر 2018 کو اعظم سواتی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان کی کابینہ میں واپسی
جون 2017 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی سے 21 سالہ رفاقت کو ختم کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، انہوں نے یہ اعلان اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اعزاز میں دی گئی افطار پارٹی کے موقع پر کیا تھا۔
اس موقع پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے کپتان کو خوش آمدید کہتا ہوں، سینیٹ کی نشست چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت بھی چیلنج تھا، بعد ازاں انہوں نے یکم جولائی 2017 کو رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بابر اعوان نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بذریعہ ڈاک اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا ہے اور استعفے کی تصدیق کے لیے چیئرمین سینیٹ نے جب بھی بلایا حاضر ہو جاؤں گا تاہم بابر اعوان نے اپنے استعفے میں مستعفی ہونے کی وجوہات درج نہیں کیں تھیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے 2011 میں دائر پٹیشن پر دوبارہ سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔
نندی پور پاور منصوبے میں سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) رحمت جعفری پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا، جسٹس (ر) رحمت جعفری نے تحقیقات مکمل کرکے 94 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق نندی پور توانائی منصوبے میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی تکمیل میں مقررہ وقت سے زائد وقت لگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے تاخیر سے مکمل ہونے پر قومی خزانے کو ایک کھرب 13 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا، رپورٹ میں وفاقی وزارتِ قانون کو غلفت کا مرتب قرار دیا گیا تھا جبکہ اس وقت بابر اعوان وفاقی وزیرِ قانون تھے۔
بابر اعوان نے نندی پور توانائی منصوبے کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش ہوکر مؤقف اختیار کیا تھا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بعد ازاں 2018 میں ایسی رپورٹس سامنے آئیں تھیں کہ نیب نے پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے متعلق ریفرنس دائر کردیا، نیب ریفرنس کے مطابق ملزمان کی غفلت کی وجہ سے نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
علاوہ ازیں 9 اگست 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے طلبی کے احکامات جاری کیے تھے۔
12 اگست 2018 کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور متعلقہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد حتمی رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔
جس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند روز بعد ہی 4 ستمبر 2018 کو وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بابر اعوان عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان نے اپنے مستعفی ہونے سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیے تھے جن میں استعفے کی وجوہات اور نیب ریفرنس کے حوالے سے مؤقف پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے استعفے کو وزیراعظم کو پیش کرنے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ دیر قبل ہی وزیراعظم عمران خان سے ملنے پہنچے ہیں۔
بعد ازاں احتساب عدالت میں مذکورہ کیسز کی متعدد سماعتیں ہوئیں اور عدالت نے 25 جون 2019 کو ڈاکٹر بابر اعوان کو نندی پور ریفرنس میں بری کردیا تھا، جس کے بعد 5 جولائی کو نیب نے نندی پور پاور ریفرنس میں تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان اور سابق لا سیکریٹری جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق بابر اعوان کو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے پارلیمانی امور مقرر کیا تھا جس کے بعد ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز نے مشیران اور معاونین کی تعیناتیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
شہزاد اکبر کو اضافی قلمدان سونپ دیا گیا
22 جولائی 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل کرکے انہیں وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے داخلہ و احتساب مقرر کردیا گیا تھا۔
کابینہ سیکریٹریٹ سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر مرزا شہزاد اکبر کو عمران خان کا مشیر برائے احتساب اور داخلہ امور مقرر کیا، اس سے قبل وہ معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ امور اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
قانونی طور پر وزیر اعظم کے مشیر کا عہدہ وفاقی وزیر اور معاون خصوصی کا وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعطم کے معاون خصوصی مقرر ہونے سے قبل شہزاد اکبر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کرتے تھے جبکہ انہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں بطور معاون بھی کام کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزاد اکبر جب معاون خصوصی برائے احتساب مقرر تھے تو اپوزیشن جماعتون کی جانب سے ان پر نیب کیسز اور نیب کے دیگر معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا تھا علاوہ ازیں 12 اگست 2020 کو لاہور کی مقامی عدالت میں کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے درخواست فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی، جس میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ان پر ہونے والے 'حملے' کے الزام میں وزیراعظم عمران خان، مشیر داخلہ شہزاد اکبر سمیت دیگر کے خلاف مقدمے کے اندراج کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 6 اگست کو نیب نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کو 200 کنال اراضی غیرقانونی طور پر اپنے نام کرانے کے الزام میں طلب کرتے ہوئے انہیں 11 اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی تاہم پیشی کے موقع پر بد نظمی دیکھنے میں آئی تھی اور پولیس اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
شہریار آفریدی کے قلمدان میں تبدیلی
اگست 2018 میں حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے اپنی کابینہ میں شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ کا عہدہ سونپا تھا تاہم اپریل 2019 میں کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق شہریار آفریدی کو ریاستی اور سرحدی علاقوں (سیفرون) کے وزیر مقرر گیا تھا جبکہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے داخلہ بتا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اپریل میں 2020 میں کابینہ میں اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی تھیں اور وزیراعظم عمران خان نے کئی وزرا کے قلمدان تبدیل کردیے تھے، ان تبدیلیوں کو آٹا چینی بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ سے منسلک کیا جارہا تھا۔
ان تبدیلیوں میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات کا عہدہ تفویض کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی وزیراعظم نے شہریار آفریدی سے وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس لے لیا تھا جس کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن نے 8 اپریل کو جاری کیا تھا۔
تاہم ایک روز بعد ہی مذکورہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور 9 اپریل کو نیا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے سیفران کو وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس دے دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس میں وزیر مملکت شہریار آفریدی کو خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
بعد ازاں 14 مئی 2020 کو ملک کی 3 بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی جانب سے واک آؤٹ کے بعد ایک متنازع عمل کے دوران شہریار آفریدی کو کشمیر امور پر قائم پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
یہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کمیٹی کے سربراہ کے لیے انتخابات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ کمیٹی کا چیئرمین کوئی ایسا تجربہ کار فرد ہونا چاہیے جسے مسئلہ کشمیر کی وسیع معلومات ہونی چاہیے۔
ان سب معاملات کے علاوہ ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے متعدد مرتبہ تنقید کا باعث بنا اور وہ معاملہ تھا جہانگیر ترین کے سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے کے باوجود ان کی کابینہ کے اجلاسوں میں شمولیت اور مبینہ طور پر فیصلوں پر اثر انداز ہونا، بعد ازاں چینی بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں ان کے گروپ کو نامزد بھی کیا گیا۔
ویسے تو وہ کابینہ کا حصہ نہیں تھے لیکن ان کے معاملے کی نزاکت کے باعث اس رپورٹ میں اپنے قارئین کے لیے اس کا مختصر احاطہ کیا گیا ہے۔
جہانگیر ترین کا معاملہ
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو اثاثہ جات سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق جنرل سیکریٹری نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی لیکن 27 ستمبر 2018 کو وہ بھی مسترد کردی گئی تھی۔
بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید جارہی تھی کہ ایک نااہل شخص ان کی کابینہ کے اجلاس میں موجود ہوتا ہے اور وہ فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، جس پر مارچ 2019 میں پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت کو پارٹی کا کارکن ذہنی طور پر قبول نہیں کر پارہا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 'میں ان سے کہوں گا کہ میرے بھائی جب آپ حکومتی اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو مریم اورنگزیب کو پریس کانفرنس کا موقع ملتا ہے اور مسلم لیگ (ن) سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہینِ عدالت نہیں تو کیا ہے؟'
شاہ محمود قریشی کے بیان کے فوری بعد پارٹی رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں دوسروں کی حیرت انگیز وجوہات کی پروا نہیں، 'میری زندگی میں صرف ایک ایسا شخص ہے جنہیں میں اپنا لیڈر مانتا ہوں اور انہی کو جوابدہ ہوں، وہ لیڈر عمران خان ہیں'۔
واضح رہے کہ مذکورہ معاملے کے بعد بھی جہانگیر ترین حکومت کے اہم اجلاسوں کا حصہ بنتے رہے تاہم چینی کے بحران سے متعلق انکوائری کے آغاز اور اس رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وہ منظر عام سے تقریباً غائب ہوگئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ رپورٹ میں جہاں دیگر گروہوں اور افراد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا وہاں جہانگیر ترین گروپ کو بھی سبسڈی حاصل کرنے والے گروہوں میں پیش پیش قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
ان سب الزامات کو جہانگیر ترین نے مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ ان کے وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں۔
7 اپریل 2020 کو نجی چینل 'سماء نیوز' کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ 'میں پاکستان کی 20 فیصد چینی ضرور بناتا ہوں لیکن اس کے پیچھے 30 سال کی محنت ہے، ای سی سی کا اکتوبر 2018 کا اجلاس اسد عمر کی زیر صدارت ہوا جس میں 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی، اسد عمر سے چینی کی برآمد پر کوئی بات نہیں کی، میرا شوگر مارکیٹ میں 20 فیصد شیئر اور 6 ملیں ضرور ہیں لیکن 74 اور ملیں بھی ہیں'۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'رپورٹ تیار کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے، اس رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، حکومت پالیسی بناتی ہے جس پر عمل کرکے مل مالکان سبسڈی حاصل کرتے ہیں جبکہ سبسڈی منافع نہیں ہوتی'.
4 مئی کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی نکل آئے جہانگیر ترین تحریک انصاف کی مخالفت نہیں کریں گے۔
بعد ازاں جون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چینی اسکینڈل کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے ’خاموشی‘ سے لندن روانہ ہونے پر سوالات اٹھائے تھے۔
گزشتہ سال اپریل میں عامر کیانی سے وزارت صحت واپس لے کر ان کی جگہ ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا کو وزارت صحت کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا، وزیر صحت عامر محمود کیانی ادویات کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے تنازع کا شکار ہوگئے تھے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کو اپریل 2019 میں نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کوآرڈینیشن کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں اور وہ عالمی وبا کورونا وائرس کے خلاف حکومت کے ردعمل کی نگرانی میں مصروف عمل تھے۔
معاون خصوصی بننے سے قبل وہ مشرقی بحیرہ روم (Eastern Mediterranean) میں عالمی ادارہ صحت کے ریجنل آفس میں ہیلتھ سسٹم ڈیولپمنٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے تھے۔
خیال رہے کہ مارچ 2020 میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ڈاکٹر ظفر مرزا اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈریپ غضنفر علی کے خلاف 2 کروڑ ماسکس کی اسمگلنگ کی شکایت ملنے پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا، بعد ازاں ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس کے دوران اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ الزام لگانے والے کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔
جس کے بعد رواں برس 13 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے حکومت کو ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا بھی کہا تھا۔
اس کے بعد وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر ’غیر ذمہ دارانہ‘ رویہ اختیار کرنے اور کورونا وائرس کے حوالے سے وفاقی حکومت کا مقدمہ درست طریقے سے پیش نہ کرنے پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش بھی کی تھی۔
جون 2020 میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر صحت عامر محمود کیانی کے خلاف انکوائری اور معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف شکایت کی جانچ پڑتال کی منظوری دے دی تھی۔
نیب نے ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران 2 کروڑ فیس ماسکس اور دیگر پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ(پی پی ای)کی اسمگلنگ اور بھارت سے جان بچانے والی ادویات کی درآمد کی آڑ میں وٹامنز، ادویات اور سالٹس کی درآمد میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت کارروائی کی منظوری دی تھی۔
18 جولائی 2020 کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کی تھیں جس کے مطابق 19 غیر منتخب کابینہ اراکین میں سے وزیراعظم کے 4 معاونین خصوصی دوہری شہریت کے حامل تھے۔
مذکورہ فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا چھتر اور اسلام آباد میں ایک گھر اور جائیداد کے مالک ہیں، اس کے علاوہ 2 کروڑ روپے اور ڈی ایچ اے راولپنڈی اور ٹیکسلا میں ڈیڑھ، ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کے 2 پلاٹس بھی ہیں۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری تفصیلات میں ڈاکٹر ظفر مرزا کے اثاثوں کی تفصیلات کا معاملہ سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت اور ان کو سخت تنقید کا سامنا تھا جس کے بعد ڈاکٹر ظفر مرزا نے 29 جولائی کو استعفیٰ دے دیا۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے مستعفی ہونے کا اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں وزیراعظم عمران خان کی خصوصی دعوت پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) چھوڑ کر پاکستان آیا تھا، میں نے محنت اور ایمانداری سے کام کیا، پاکستان کی خدمت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، میں مطمئن ہوں کہ ایسے وقت میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں جب قومی کوششوں سے پاکستان میں کورونا وائرس میں کمی آچکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ معاونین خصوصی کے کردار سے متعلق منفی بات چیت اور حکومت پر تنقید کے باعث استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔
تانیہ ایدروس 20 سال پہلے پاکستان سے بیرون ملک چلی گئی تھیں اور انہوں نے پہلے امریکا کی برانڈیز یونیورسٹی سے بائیولوجی اور اکنامکس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی اور پھر میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ایم بی اے کیا۔
بعد ازاں انہوں نے ایک اسٹارٹ اپ کلک ڈائیگنوسٹک کی بنیاد رکھی اور اس کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا تھا، اس کے علاوہ انہوں نے گوگل کی جنوبی ایشیا کی کنٹری منیجر کے طور پر 2008 سے 2016 تک کام کیا اور پھر انہیں گوگل کے پراڈکٹ، پیمنٹ فار نیکسٹ بلین یوزر پروگرام کی ڈائریکٹر بنادیا گیا۔
وزیراعظم نے دسمبر 2019 میں تانیہ ایدروس کو ڈیجیٹل پاکستان ویژن کی سربراہ مقرر کیا تھا اور بعدازاں فروری 2020 میں انہیں معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان مقرر کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس جون میں ڈیجیٹل پاکستان سے منسلک ایک کمپنی کی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل تانیہ ایدروس کی شمولیت پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
اسی مہینے ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن (ڈی پی ایف) کے نام سے غیر منافع بخش کمپنی کو حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان اقدام کی تعریف کے لیے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سیکشن 42 کے تحت رجسٹرڈ کرایا گیا تھا۔
ایس ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹرز میں تانیہ ایدروس، پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین (جنہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا)، آن لائن ٹیکسی کمپنی کریم کے سی ای او مدثر الیاس اور جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند شامل تھے۔
بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تانیہ ایدروس کی شمولیت اور فاؤنڈیشن کے فنڈز اور کاموں کے حوالے سے شفافیت کی کمی نے خدشات کو جنم دیا اور یہ خاص طور پر مفاد کے تصادم کا باعث بنا تھا۔
ان خدشات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تانیہ ایدروس نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’کسی بھی معاون خصوصی کے غیر منافع بخش کمپنی کے بورڈ میں شامل ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی نہیں ہے مسئلہ اس وقت پیدا ہوگا جب کمپنی منافع بخش ہوتی‘۔
لیکن ان کے اس بیان کے باوجود یہ معاملہ متنازع تھا اور ان کے خلاف تنقید میں شدت اس وقت آئی جب 18 جولائی کو کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے وزیراعظم کے 4 معاونین میں تانیہ ایدروس کا نام بھی شامل تھا اور کابینہ ڈویژن کے مطابق وہ کینیڈا کی شہریت کی حامل ہیں اور سنگاپور میں ان کی مستقل رہائش بھی ہے۔
کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جاری تفصیلات کے مطابق تانیہ ایدروس امریکا، برطانیہ اور سنگاپور میں جائیداد کی ملکیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کی طرح تانیہ ایدروس نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میری شہریت کے معاملے پر ریاست پر ہونے والی تنقید ڈیجیٹل پاکستان کے مقصد کو متاثر کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے عوام کے مفاد میں وزیراعظم کی معاون خصوصی کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ جمع کرادیا ہے، اپنی بہترین صلاحیت کے ساتھ اپنے ملک اور وزیر اعظم کے وژن کی خدمت جاری رکھوں گی۔
تانیہ ایدروس نے ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان کو ارسال کیا گیا استعفیٰ بھی منسلک کیا تھا، جس میں انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ معاون خصوصی کے طور پر کام کرنا میرے لیے اعزاز تھا اور مجھ پر اپنا اعتماد بحال رکھنے پر آپ کی شکر گزار ہوں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیہ ایس ایدروس کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر (امریکا)، معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری (برطانیہ) اور معاون خصوصی برائے توانائی ڈویژن شہزاد قاسم (امریکا) شہریت کے حامل ہیں تاہم انہوں ںے مذکورہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد کسی وسم کا رد عمل نہیں دیا۔
اس کے علاوہ جو معاونین دیگر ممالک کی رہائش رکھتے ہیں، ان میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل (امریکا)، معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف (امریکا) اور معاون خصوصی برائے پارلیمانی کوآرڈینیشن ندیم افضل گوندل (کینیڈا) شامل ہیں۔
علاوہ ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ قانوناً کوئی بھی دوہری شہریت کا حامل شخص قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر نہیں بن سکتا لیکن کسی بھی دیگر عہدے کے حوالے سے ایسی کوئی قدغن موجود نہیں۔
حماد اظہر کے قلمدان میں متعدد مرتبہ تبدیلی
پی ٹی آئی کی حکومت نے حماد اظہر کے وفاقی وزیر مالیات کا حلف اٹھانے کے ایک روز بعد ہی ان سے محکمہ مالیات کا قلمدان واپس لے لیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے 8 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں سابق وزیر مملکت برائے مالیات کو وفاقی وزیر برائے مالیات تعینات کیا گیا تھا بعد ازاں انہیں ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن کی جانب سے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں حماد اظہر کو وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
تاہم جولائی 8 کے نوٹیفکیشن میں رد وبدل کے بعد 9 جولائی کو کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا ہے۔
بعد ازاں چینی بحرات کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور کی جگہ وزیر صنعت کا قلمدان دے دیا گیا تھا (چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق مزید تفصیلات رپورٹ میں آگے فراہم کی گئی ہیں)۔
یہاں یہ واضح رہے کہ حماد اظہر، قومی اسمبلی میں تحریک انصاف حکومت کے دو سالانہ بجٹ پیش کرچکے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق حماد اظہر نے یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے اقتصادی ترقی میں گریجویشن کیا تھا۔
جس کے بعد انہوں نے بی پی پی لا اسکول لندن سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا تھا، انہوں نے 2004 میں بار کونسل کے ووکیشنل کورس میں داخلہ لیا ور 2005 میں لنکن انز بار سوسائٹی کا حصہ بن گئے۔
چینی، گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ اور کابینہ میں تبدیلیاں
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے'۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔
چینی اور گندم بحران کی رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پاکستان میں چینی اور گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے دو روز بعد ہی وفاقی کابینہ میں رد و بدل کیا گیا اور وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا دیا گیا اور انہیں اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا اور ان کی جگہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کو مذکورہ وزارت دے دی گئی۔
اسی طرح حماد اظہر سے وزیر اقتصادی امور واپس لے کر انہیں وزیر صنعت کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا۔
کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول تاہم ان سے دو روز بعد ہی واپس لے لی گئی تھی، وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ بابر اعوان کو مشیر پارلیمانی امور مقرر کردیا گیا۔
خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق کابینہ میں شامل
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کو دیکھ رہے تھے۔
12 جنوری 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کے ساتھ ہی حکومتی و پی ٹی آئی کے نمائندوں نے ایم کیو ایم کنوینر سے کابینہ میں واپسی کے لیے متعدد ملاقاتیں کی تھیں تاہم خالد مقبول اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔
خالد مقبول صدیقی نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورا کریں گے تاہم میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کا حصہ بنے تو ہم پر یہ لازم تھا کہ 50 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت کے سامنے رکھتے' اور 'پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے'۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہم نے تحریک انصاف سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو حکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے'۔
بعد ازاں 6 اپریل 2020 کو وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، ساتھ ہی خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا تھا۔
22 اپریل 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما امین الحق نے خالد مقبول صدیقی کی جگہ وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں، اس سے قبل وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر مواصلات مقرر کیا تھا۔
اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے امین الحق کو ذمہ داریاں سونپنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق امین الحق کو وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کا قلمدان سونپا گیا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق عام انتخابات 2018 میں کراچی کے حلقہ 251 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی کابینہ میں متعدد مرتبہ واپسی
ویسے تو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پہلے دور حکومت کے دو سال کے دوران جس بھی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی کو کسی خاص عہدے سے ہٹایا تو اسے واپس یہ عہدہ نہیں دیا گیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم وہ واحد فرد ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر استعفیٰ دیا لیکن انہیں ہر مرتبہ کچھ ہی دن یا ہفتوں بعد ان کی وزارت واپس کردی گئی۔
آخری مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم نے 24 جولائی 2020 کو وفاقی وزیر قانون و انصاف کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، یہ تیسری مرتبہ تھا کہ فروغ نسیم، وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ بنے تھے۔
اس مرتبہ تقریباً 7 ہفتوں بعد ان کی دوبارہ وفاقی کابینہ میں واپسی ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں حکومتی نمائندگی کے لیے یکم جون 2020 کو وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
تاہم 20 جون کو سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو (1-9) کی اکثریت سے 'کالعدم' قرار دے دیا تھا جس کے بعد فروغ نسیم واپس کابینہ کا حصہ بن گئے۔
اس سے قبل فروغ نسیم نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں نمائندگی کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
وہ اس کیس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک روز بعد ہی 29 نومبر کو دوبارہ وزیر قانون کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا۔
فروغ نسیم کو وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔
فواد چوہدری کی جگہ شبلی فراز، فردوس عاشق اعوان کی جگہ لیفٹیننٹ عاصم باجوہ کا انتخاب
اپریل 2019 میں حکومت نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے فواد چوہدری سمیت متعدد وزرا کے قلمدان تبدیل کردیئے تھے۔
وزیراعظم ہاؤس کے مطابق مجموعی طور 6 وفاقی وزارتوں کے قلمدان میں ردوبدل کیا گیا تھا، فواد چوہدری سے اطلاعات و نشریات کی وزارت واپس لے کر انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے کئی وزرا کو اپنا معاون خصوصی بھی مقرر کیا، جن میں فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات و نشریات ڈویژن کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔
ان تبدیلیوں کے تقریباً ایک سال بعد ہی اپریل 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان سے عہدہ واپس لے کر ان کی جگہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم کا نیا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا۔
اس موقع پر فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا، ایک سال کے عرصے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کی جبکہ میں وزیر اعظم کے فیصلے کا احترام کرتی ہوں'۔
بعد ازاں نجی نیوز چینل کو ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وزرات میں ایک وقت میں بہت سے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جس کی وجہ سے ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا۔
واضح رہے کہ فردوس عاشق اعوان کے عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں کہا جا رہا تھا کہ ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کا باعث بنی تاہم شبلی فراز نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسی کسی رپورٹ کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2019 میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ نیب نے سابق وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما فردوس عاشق اعوان کے اثاثہ جات کی چھان بین شروع کرتے ہوئے جائیدادوں کا ریکارڈ ایل ڈی اے سے طلب کر لیا۔
یاد رہے کہ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں وفاقی وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں، بعد ازاں وہ عام انتخابات میں شکست کھانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئی تھیں۔
سیاسی جماعت تبدیل کرنے کے باوجود 2018 کے عام انتخابات میں بھی اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم انہیں گزشتہ سال 18 اپریل کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا تھا، اس طرح وہ ایک سال 9 روز اس عہدے پر براجمان رہیں، اور عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے وہ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے معروف شاعر فراز احمد فراز کے صاحبزادے سینیٹر شبلی فراز کو اگست 2018 میں سینیٹ میں قائدِ ایوان مقرر کیا تھا، وہ شبلی فراز 2015 میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خیبرپختونخوا سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
شبلی فراز ایوان بالا میں قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل اور تجارت اور قائمہ کمیٹی برائے گردشی قرضہ کے چیئرمین کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
ادھر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ریٹائرمنٹ سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، ڈی جی آرمز اور کمانڈر سدرن کمانڈ سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔
گزشتہ سال نومبر میں وفاقی حکومت نے انہیں پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرپرسن مقرر کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 20 جولائی 2020 کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کیں تھیِ، جس کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ 8 جائیدادیں رکھتے ہیں جس میں ایک گھر، پلاٹس، کمرشل پلاٹس اور (65 ایکڑز) زرعی زمین ہے، جس کی مالیت تقریباً 15 کروڑ روپے ہے۔
اسد عمر کا وزیر خزانہ سے وزیر منصوبہ بندی و اقدامات تک کا سفر
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو حلف اٹھائے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ 18 اپریل 2019 کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ کا حصہ بھی نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسد عمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کابینہ میں ردوبدل کے نتیجے میں چاہتے ہیں کہ میں وزارت خزانہ کی جگہ توانائی کا قلمدان سنبھال لوں لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لوں گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشااللہ نیا پاکستان ضرور بنے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد عمر کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ایک ہفتے قبل ہی وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو کے لیے واشنگٹن گئے تھے اور ان کی وہاں عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
تاہم اسی دورے کے دوران ان کو عہدے سے ہٹائے جانے اور کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں جسے حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
ان کے مستعفی ہونے کے چند ماہ بعد نومبر 2019 میں وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا تھا کہ وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردو بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو دوبارہ وزارت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل، اسد عمر کو منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات جبکہ خسرو بختیار کو پیٹرولیم کا وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے’ اور ‘اس ضمن میں نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا’۔
بعد ازاں 19 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے وفاقی وزیر کے عہدے کا دوبارہ حلف اٹھایا تھا اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی بننے کے بعد اسد عمر وفاقی کابینہ کا دوبارہ حصہ بن گئے تھے۔
عبدالحفیظ شیخ کے مشیر مقرر کیے جانے پر تنازع
اپریل 2019 میں اسد عمر کے وزارت خزانہ سے مستعفی ہونے کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو اور معاشی امور تعینات کرنے کی منظوری دی تھی تاہم اس تعیناتی پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ پرویز مشرف کی کابینہ کے تمام اراکین کو عمران خان نے اپنی کابینہ کا حصہ بنالیا ہے۔
علاوہ ازیں عبدالحفیظ شیخ کی تعیناتی کو عدالت میں بھی چیلنج کیا گیا۔
8 جولائی 2019 کو اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اختیارات کم کرتے ہوئے ان سے ریونیو ڈویژن کا قلمدان واپس لے لیا تاہم وہ وزیر اعظم کے مشیر برائے مالیاتی و اقتصادی امور کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔
ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، مالیات بتا دیا گیا جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے عبدالنبی شیخ کے صاحبزادے عبدالحفیظ شیخ سندھ کے شہر جیکب آباد میں پیدا ہوئے اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا منتقل ہوئے جہاں انہوں نے بوسٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا جس کے بعد انہوں نے 1984 میں وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے ورلڈ بینک کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے عالمی بینک کے معاشی آپریشنز برائے سعودی عرب کے صدر بنے۔
سنہ 2000 میں حفیظ شیخ پاکستان واپس آئے اور سندھ حکومت میں بطور وزیر خزانہ، منصوبہ بندی اور ترقی اپنے فرائض انجام دیے، بعد ازاں پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے وفاقی وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری کا قلمدان سنبھالا جہاں ان کی بہترین خدمات پر پاکستان کی تاجر برادری نے 2004 میں انہیں ’سال کا بہترین‘ شخص قرار دیا۔
2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں وفاقی وزیر خزانہ تعینات کیا تاہم 2013 کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، ڈاکٹر حفیظ شیخ عالمی سطح پر نامور ماہر معاشی امور ہیں جنہیں معاشی پالیسیاں بنانے کا 30 سال کا تجربہ حاصل ہے۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزارت داخلہ دینے پر تنازع
گزشتہ سال 19 اپریل کو وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ سے وزیر امور پارلیمان کی وزارت لے کر انہیں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔
خیال ہے کہ حکومت نے 29 مارچ کو انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ 2004 سے 2008 تک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رہے، انہوں نے گزشتہ برس عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آئی بی کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جبکہ دسمبر 2007 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اعجاز احمد شاہ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے بریگیڈیئر اعجاز شاہ پر مسلم لیگ قائداعظم اور پی پی پی پیٹریاٹ بنانے میں سہولت فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ کراچی میں وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے ماسٹر مائنڈ عمر سعید شیخ نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ذریعے ہی سرینڈر کیا تھا۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے وزیراعظم کے فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کیا تھا اور اس فیصلے کو وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن قرار دیا تھا جبکہ اعجاز شاہ کا اپوزیشن کے حوالے سے دیا جانے والا بیان ایوان میں مزید ہنگامے کی وجہ بنا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ وزیراعظم عمران خان کے پاس کسی بھی پارلیمانی رہنما کو وزیر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایک متنازع شخص کو وزیر پالیمانی امور کا عہدہ دے کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو مشتعل کیا۔
انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین کا ایسے شخص کے ساتھ بات چیت کرنا بھی مشکل ہوگا جو مبینہ طور پر پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔
پی پی پی رہنما پلوشہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ وہ شخص ہیں جنہوں نے جنرل (ر) مشرف کے لیے کام کیا اور ’ان کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط بھی تھے‘ جبکہ ’بینظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل کی صورت میں انہیں ممکنہ ذمہ دار ٹھہرایا تھا‘۔
علاوہ ازیں پی پی پی کی نفیشہ شاہ نے کہا تھا کہ اعجاز شاہ کے تقرر کے بعد پرویز مشرف اور عمران خان کی کابینہ میں کوئی فرق نہیں رہا، یہ وہی اعجاز شاہ ہیں جن کا پرویزمشرف کے دور میں سیاسی انجینئرنگ میں اہم کردار رہا ہے۔
دوسری جانب پی پی پی کے ان تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری کی سربراہی میں پی پی پی نے 5 سال تک ملک پر حکومت کی، 'اگر میں نے کچھ کیا تھا تو مجھے پھانسی لگا دیتے'۔
اعظم سواتی کا استعفیٰ اور نئی وزارت کا قلمدان
8 اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے باعث اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول بنا دیا گیا تھا۔
اور صرف دو روز بعد ہی اعظم سواتی سے یہ قلمدان واپس لے کر وزیر مملکت برائے سیفران (اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز) شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے انسداد منشیات کا اضافی قلمدان واپس دے دیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں ہی وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں کی جانے والی تبدیلوں میں اعظم سواتی، جو گزشتہ سال سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے، کو دوبارہ وفاقی وزیر کا عہدہ دے دیا گیا تھا، اس مرتبہ انہیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا قلمدان دیا گیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسی حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔
معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا'، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے تھے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا، بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔
29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جس کے بعد 6 دسمبر 2018 کو اعظم سواتی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان کی کابینہ میں واپسی
جون 2017 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی سے 21 سالہ رفاقت کو ختم کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، انہوں نے یہ اعلان اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اعزاز میں دی گئی افطار پارٹی کے موقع پر کیا تھا۔
اس موقع پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے کپتان کو خوش آمدید کہتا ہوں، سینیٹ کی نشست چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت بھی چیلنج تھا، بعد ازاں انہوں نے یکم جولائی 2017 کو رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بابر اعوان نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بذریعہ ڈاک اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا ہے اور استعفے کی تصدیق کے لیے چیئرمین سینیٹ نے جب بھی بلایا حاضر ہو جاؤں گا تاہم بابر اعوان نے اپنے استعفے میں مستعفی ہونے کی وجوہات درج نہیں کیں تھیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے 2011 میں دائر پٹیشن پر دوبارہ سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔
نندی پور پاور منصوبے میں سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) رحمت جعفری پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا، جسٹس (ر) رحمت جعفری نے تحقیقات مکمل کرکے 94 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق نندی پور توانائی منصوبے میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی تکمیل میں مقررہ وقت سے زائد وقت لگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے تاخیر سے مکمل ہونے پر قومی خزانے کو ایک کھرب 13 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا، رپورٹ میں وفاقی وزارتِ قانون کو غلفت کا مرتب قرار دیا گیا تھا جبکہ اس وقت بابر اعوان وفاقی وزیرِ قانون تھے۔
بابر اعوان نے نندی پور توانائی منصوبے کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش ہوکر مؤقف اختیار کیا تھا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بعد ازاں 2018 میں ایسی رپورٹس سامنے آئیں تھیں کہ نیب نے پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے متعلق ریفرنس دائر کردیا، نیب ریفرنس کے مطابق ملزمان کی غفلت کی وجہ سے نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
علاوہ ازیں 9 اگست 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے طلبی کے احکامات جاری کیے تھے۔
12 اگست 2018 کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور متعلقہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد حتمی رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔
جس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند روز بعد ہی 4 ستمبر 2018 کو وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بابر اعوان عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان نے اپنے مستعفی ہونے سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیے تھے جن میں استعفے کی وجوہات اور نیب ریفرنس کے حوالے سے مؤقف پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے استعفے کو وزیراعظم کو پیش کرنے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ دیر قبل ہی وزیراعظم عمران خان سے ملنے پہنچے ہیں۔
بعد ازاں احتساب عدالت میں مذکورہ کیسز کی متعدد سماعتیں ہوئیں اور عدالت نے 25 جون 2019 کو ڈاکٹر بابر اعوان کو نندی پور ریفرنس میں بری کردیا تھا، جس کے بعد 5 جولائی کو نیب نے نندی پور پاور ریفرنس میں تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان اور سابق لا سیکریٹری جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق بابر اعوان کو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے پارلیمانی امور مقرر کیا تھا جس کے بعد ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز نے مشیران اور معاونین کی تعیناتیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
شہزاد اکبر کو اضافی قلمدان سونپ دیا گیا
22 جولائی 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل کرکے انہیں وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے داخلہ و احتساب مقرر کردیا گیا تھا۔
کابینہ سیکریٹریٹ سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر مرزا شہزاد اکبر کو عمران خان کا مشیر برائے احتساب اور داخلہ امور مقرر کیا، اس سے قبل وہ معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ امور اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
قانونی طور پر وزیر اعظم کے مشیر کا عہدہ وفاقی وزیر اور معاون خصوصی کا وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعطم کے معاون خصوصی مقرر ہونے سے قبل شہزاد اکبر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کرتے تھے جبکہ انہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں بطور معاون بھی کام کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزاد اکبر جب معاون خصوصی برائے احتساب مقرر تھے تو اپوزیشن جماعتون کی جانب سے ان پر نیب کیسز اور نیب کے دیگر معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا تھا علاوہ ازیں 12 اگست 2020 کو لاہور کی مقامی عدالت میں کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے درخواست فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی، جس میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ان پر ہونے والے 'حملے' کے الزام میں وزیراعظم عمران خان، مشیر داخلہ شہزاد اکبر سمیت دیگر کے خلاف مقدمے کے اندراج کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 6 اگست کو نیب نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کو 200 کنال اراضی غیرقانونی طور پر اپنے نام کرانے کے الزام میں طلب کرتے ہوئے انہیں 11 اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی تاہم پیشی کے موقع پر بد نظمی دیکھنے میں آئی تھی اور پولیس اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
شہریار آفریدی کے قلمدان میں تبدیلی
اگست 2018 میں حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے اپنی کابینہ میں شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ کا عہدہ سونپا تھا تاہم اپریل 2019 میں کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق شہریار آفریدی کو ریاستی اور سرحدی علاقوں (سیفرون) کے وزیر مقرر گیا تھا جبکہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے داخلہ بتا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اپریل میں 2020 میں کابینہ میں اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی تھیں اور وزیراعظم عمران خان نے کئی وزرا کے قلمدان تبدیل کردیے تھے، ان تبدیلیوں کو آٹا چینی بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ سے منسلک کیا جارہا تھا۔
ان تبدیلیوں میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات کا عہدہ تفویض کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی وزیراعظم نے شہریار آفریدی سے وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس لے لیا تھا جس کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن نے 8 اپریل کو جاری کیا تھا۔
تاہم ایک روز بعد ہی مذکورہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور 9 اپریل کو نیا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے سیفران کو وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس دے دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس میں وزیر مملکت شہریار آفریدی کو خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
بعد ازاں 14 مئی 2020 کو ملک کی 3 بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی جانب سے واک آؤٹ کے بعد ایک متنازع عمل کے دوران شہریار آفریدی کو کشمیر امور پر قائم پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
یہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کمیٹی کے سربراہ کے لیے انتخابات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ کمیٹی کا چیئرمین کوئی ایسا تجربہ کار فرد ہونا چاہیے جسے مسئلہ کشمیر کی وسیع معلومات ہونی چاہیے۔
ان سب معاملات کے علاوہ ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے متعدد مرتبہ تنقید کا باعث بنا اور وہ معاملہ تھا جہانگیر ترین کے سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے کے باوجود ان کی کابینہ کے اجلاسوں میں شمولیت اور مبینہ طور پر فیصلوں پر اثر انداز ہونا، بعد ازاں چینی بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں ان کے گروپ کو نامزد بھی کیا گیا۔
ویسے تو وہ کابینہ کا حصہ نہیں تھے لیکن ان کے معاملے کی نزاکت کے باعث اس رپورٹ میں اپنے قارئین کے لیے اس کا مختصر احاطہ کیا گیا ہے۔
جہانگیر ترین کا معاملہ
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو اثاثہ جات سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق جنرل سیکریٹری نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی لیکن 27 ستمبر 2018 کو وہ بھی مسترد کردی گئی تھی۔
بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید جارہی تھی کہ ایک نااہل شخص ان کی کابینہ کے اجلاس میں موجود ہوتا ہے اور وہ فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، جس پر مارچ 2019 میں پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت کو پارٹی کا کارکن ذہنی طور پر قبول نہیں کر پارہا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 'میں ان سے کہوں گا کہ میرے بھائی جب آپ حکومتی اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو مریم اورنگزیب کو پریس کانفرنس کا موقع ملتا ہے اور مسلم لیگ (ن) سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہینِ عدالت نہیں تو کیا ہے؟'
شاہ محمود قریشی کے بیان کے فوری بعد پارٹی رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں دوسروں کی حیرت انگیز وجوہات کی پروا نہیں، 'میری زندگی میں صرف ایک ایسا شخص ہے جنہیں میں اپنا لیڈر مانتا ہوں اور انہی کو جوابدہ ہوں، وہ لیڈر عمران خان ہیں'۔
واضح رہے کہ مذکورہ معاملے کے بعد بھی جہانگیر ترین حکومت کے اہم اجلاسوں کا حصہ بنتے رہے تاہم چینی کے بحران سے متعلق انکوائری کے آغاز اور اس رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وہ منظر عام سے تقریباً غائب ہوگئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ رپورٹ میں جہاں دیگر گروہوں اور افراد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا وہاں جہانگیر ترین گروپ کو بھی سبسڈی حاصل کرنے والے گروہوں میں پیش پیش قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
ان سب الزامات کو جہانگیر ترین نے مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ ان کے وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں۔
7 اپریل 2020 کو نجی چینل 'سماء نیوز' کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ 'میں پاکستان کی 20 فیصد چینی ضرور بناتا ہوں لیکن اس کے پیچھے 30 سال کی محنت ہے، ای سی سی کا اکتوبر 2018 کا اجلاس اسد عمر کی زیر صدارت ہوا جس میں 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی، اسد عمر سے چینی کی برآمد پر کوئی بات نہیں کی، میرا شوگر مارکیٹ میں 20 فیصد شیئر اور 6 ملیں ضرور ہیں لیکن 74 اور ملیں بھی ہیں'۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'رپورٹ تیار کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے، اس رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، حکومت پالیسی بناتی ہے جس پر عمل کرکے مل مالکان سبسڈی حاصل کرتے ہیں جبکہ سبسڈی منافع نہیں ہوتی'.
4 مئی کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی نکل آئے جہانگیر ترین تحریک انصاف کی مخالفت نہیں کریں گے۔
بعد ازاں جون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چینی اسکینڈل کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے ’خاموشی‘ سے لندن روانہ ہونے پر سوالات اٹھائے تھے۔
تانیہ ایدروس 20 سال پہلے پاکستان سے بیرون ملک چلی گئی تھیں اور انہوں نے پہلے امریکا کی برانڈیز یونیورسٹی سے بائیولوجی اور اکنامکس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی اور پھر میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ایم بی اے کیا۔
بعد ازاں انہوں نے ایک اسٹارٹ اپ کلک ڈائیگنوسٹک کی بنیاد رکھی اور اس کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا تھا، اس کے علاوہ انہوں نے گوگل کی جنوبی ایشیا کی کنٹری منیجر کے طور پر 2008 سے 2016 تک کام کیا اور پھر انہیں گوگل کے پراڈکٹ، پیمنٹ فار نیکسٹ بلین یوزر پروگرام کی ڈائریکٹر بنادیا گیا۔
وزیراعظم نے دسمبر 2019 میں تانیہ ایدروس کو ڈیجیٹل پاکستان ویژن کی سربراہ مقرر کیا تھا اور بعدازاں فروری 2020 میں انہیں معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان مقرر کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس جون میں ڈیجیٹل پاکستان سے منسلک ایک کمپنی کی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل تانیہ ایدروس کی شمولیت پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
اسی مہینے ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن (ڈی پی ایف) کے نام سے غیر منافع بخش کمپنی کو حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان اقدام کی تعریف کے لیے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سیکشن 42 کے تحت رجسٹرڈ کرایا گیا تھا۔
ایس ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹرز میں تانیہ ایدروس، پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین (جنہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا)، آن لائن ٹیکسی کمپنی کریم کے سی ای او مدثر الیاس اور جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند شامل تھے۔
بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تانیہ ایدروس کی شمولیت اور فاؤنڈیشن کے فنڈز اور کاموں کے حوالے سے شفافیت کی کمی نے خدشات کو جنم دیا اور یہ خاص طور پر مفاد کے تصادم کا باعث بنا تھا۔
ان خدشات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تانیہ ایدروس نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’کسی بھی معاون خصوصی کے غیر منافع بخش کمپنی کے بورڈ میں شامل ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی نہیں ہے مسئلہ اس وقت پیدا ہوگا جب کمپنی منافع بخش ہوتی‘۔
لیکن ان کے اس بیان کے باوجود یہ معاملہ متنازع تھا اور ان کے خلاف تنقید میں شدت اس وقت آئی جب 18 جولائی کو کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے وزیراعظم کے 4 معاونین میں تانیہ ایدروس کا نام بھی شامل تھا اور کابینہ ڈویژن کے مطابق وہ کینیڈا کی شہریت کی حامل ہیں اور سنگاپور میں ان کی مستقل رہائش بھی ہے۔
کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جاری تفصیلات کے مطابق تانیہ ایدروس امریکا، برطانیہ اور سنگاپور میں جائیداد کی ملکیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کی طرح تانیہ ایدروس نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میری شہریت کے معاملے پر ریاست پر ہونے والی تنقید ڈیجیٹل پاکستان کے مقصد کو متاثر کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے عوام کے مفاد میں وزیراعظم کی معاون خصوصی کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ جمع کرادیا ہے، اپنی بہترین صلاحیت کے ساتھ اپنے ملک اور وزیر اعظم کے وژن کی خدمت جاری رکھوں گی۔
تانیہ ایدروس نے ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان کو ارسال کیا گیا استعفیٰ بھی منسلک کیا تھا، جس میں انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ معاون خصوصی کے طور پر کام کرنا میرے لیے اعزاز تھا اور مجھ پر اپنا اعتماد بحال رکھنے پر آپ کی شکر گزار ہوں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیہ ایس ایدروس کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر (امریکا)، معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری (برطانیہ) اور معاون خصوصی برائے توانائی ڈویژن شہزاد قاسم (امریکا) شہریت کے حامل ہیں تاہم انہوں ںے مذکورہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد کسی وسم کا رد عمل نہیں دیا۔
اس کے علاوہ جو معاونین دیگر ممالک کی رہائش رکھتے ہیں، ان میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل (امریکا)، معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف (امریکا) اور معاون خصوصی برائے پارلیمانی کوآرڈینیشن ندیم افضل گوندل (کینیڈا) شامل ہیں۔
علاوہ ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ قانوناً کوئی بھی دوہری شہریت کا حامل شخص قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر نہیں بن سکتا لیکن کسی بھی دیگر عہدے کے حوالے سے ایسی کوئی قدغن موجود نہیں۔
حماد اظہر کے قلمدان میں متعدد مرتبہ تبدیلی
پی ٹی آئی کی حکومت نے حماد اظہر کے وفاقی وزیر مالیات کا حلف اٹھانے کے ایک روز بعد ہی ان سے محکمہ مالیات کا قلمدان واپس لے لیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے 8 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں سابق وزیر مملکت برائے مالیات کو وفاقی وزیر برائے مالیات تعینات کیا گیا تھا بعد ازاں انہیں ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن کی جانب سے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں حماد اظہر کو وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
تاہم جولائی 8 کے نوٹیفکیشن میں رد وبدل کے بعد 9 جولائی کو کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا ہے۔
بعد ازاں چینی بحرات کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور کی جگہ وزیر صنعت کا قلمدان دے دیا گیا تھا (چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق مزید تفصیلات رپورٹ میں آگے فراہم کی گئی ہیں)۔
یہاں یہ واضح رہے کہ حماد اظہر، قومی اسمبلی میں تحریک انصاف حکومت کے دو سالانہ بجٹ پیش کرچکے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق حماد اظہر نے یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے اقتصادی ترقی میں گریجویشن کیا تھا۔
جس کے بعد انہوں نے بی پی پی لا اسکول لندن سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا تھا، انہوں نے 2004 میں بار کونسل کے ووکیشنل کورس میں داخلہ لیا ور 2005 میں لنکن انز بار سوسائٹی کا حصہ بن گئے۔
چینی، گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ اور کابینہ میں تبدیلیاں
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے'۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔
چینی اور گندم بحران کی رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پاکستان میں چینی اور گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے دو روز بعد ہی وفاقی کابینہ میں رد و بدل کیا گیا اور وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا دیا گیا اور انہیں اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا اور ان کی جگہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کو مذکورہ وزارت دے دی گئی۔
اسی طرح حماد اظہر سے وزیر اقتصادی امور واپس لے کر انہیں وزیر صنعت کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا۔
کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول تاہم ان سے دو روز بعد ہی واپس لے لی گئی تھی، وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ بابر اعوان کو مشیر پارلیمانی امور مقرر کردیا گیا۔
خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق کابینہ میں شامل
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کو دیکھ رہے تھے۔
12 جنوری 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کے ساتھ ہی حکومتی و پی ٹی آئی کے نمائندوں نے ایم کیو ایم کنوینر سے کابینہ میں واپسی کے لیے متعدد ملاقاتیں کی تھیں تاہم خالد مقبول اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔
خالد مقبول صدیقی نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورا کریں گے تاہم میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کا حصہ بنے تو ہم پر یہ لازم تھا کہ 50 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت کے سامنے رکھتے' اور 'پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے'۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہم نے تحریک انصاف سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو حکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے'۔
بعد ازاں 6 اپریل 2020 کو وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، ساتھ ہی خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا تھا۔
22 اپریل 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما امین الحق نے خالد مقبول صدیقی کی جگہ وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں، اس سے قبل وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر مواصلات مقرر کیا تھا۔
اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے امین الحق کو ذمہ داریاں سونپنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق امین الحق کو وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کا قلمدان سونپا گیا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق عام انتخابات 2018 میں کراچی کے حلقہ 251 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی کابینہ میں متعدد مرتبہ واپسی
ویسے تو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پہلے دور حکومت کے دو سال کے دوران جس بھی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی کو کسی خاص عہدے سے ہٹایا تو اسے واپس یہ عہدہ نہیں دیا گیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم وہ واحد فرد ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر استعفیٰ دیا لیکن انہیں ہر مرتبہ کچھ ہی دن یا ہفتوں بعد ان کی وزارت واپس کردی گئی۔
آخری مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم نے 24 جولائی 2020 کو وفاقی وزیر قانون و انصاف کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، یہ تیسری مرتبہ تھا کہ فروغ نسیم، وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ بنے تھے۔
اس مرتبہ تقریباً 7 ہفتوں بعد ان کی دوبارہ وفاقی کابینہ میں واپسی ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں حکومتی نمائندگی کے لیے یکم جون 2020 کو وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
تاہم 20 جون کو سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو (1-9) کی اکثریت سے 'کالعدم' قرار دے دیا تھا جس کے بعد فروغ نسیم واپس کابینہ کا حصہ بن گئے۔
اس سے قبل فروغ نسیم نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں نمائندگی کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
وہ اس کیس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک روز بعد ہی 29 نومبر کو دوبارہ وزیر قانون کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا۔
فروغ نسیم کو وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔
فواد چوہدری کی جگہ شبلی فراز، فردوس عاشق اعوان کی جگہ لیفٹیننٹ عاصم باجوہ کا انتخاب
اپریل 2019 میں حکومت نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے فواد چوہدری سمیت متعدد وزرا کے قلمدان تبدیل کردیئے تھے۔
وزیراعظم ہاؤس کے مطابق مجموعی طور 6 وفاقی وزارتوں کے قلمدان میں ردوبدل کیا گیا تھا، فواد چوہدری سے اطلاعات و نشریات کی وزارت واپس لے کر انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے کئی وزرا کو اپنا معاون خصوصی بھی مقرر کیا، جن میں فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات و نشریات ڈویژن کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔
ان تبدیلیوں کے تقریباً ایک سال بعد ہی اپریل 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان سے عہدہ واپس لے کر ان کی جگہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم کا نیا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا۔
اس موقع پر فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا، ایک سال کے عرصے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کی جبکہ میں وزیر اعظم کے فیصلے کا احترام کرتی ہوں'۔
بعد ازاں نجی نیوز چینل کو ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وزرات میں ایک وقت میں بہت سے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جس کی وجہ سے ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا۔
واضح رہے کہ فردوس عاشق اعوان کے عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں کہا جا رہا تھا کہ ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کا باعث بنی تاہم شبلی فراز نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسی کسی رپورٹ کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2019 میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ نیب نے سابق وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما فردوس عاشق اعوان کے اثاثہ جات کی چھان بین شروع کرتے ہوئے جائیدادوں کا ریکارڈ ایل ڈی اے سے طلب کر لیا۔
یاد رہے کہ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں وفاقی وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں، بعد ازاں وہ عام انتخابات میں شکست کھانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئی تھیں۔
سیاسی جماعت تبدیل کرنے کے باوجود 2018 کے عام انتخابات میں بھی اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم انہیں گزشتہ سال 18 اپریل کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا تھا، اس طرح وہ ایک سال 9 روز اس عہدے پر براجمان رہیں، اور عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے وہ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے معروف شاعر فراز احمد فراز کے صاحبزادے سینیٹر شبلی فراز کو اگست 2018 میں سینیٹ میں قائدِ ایوان مقرر کیا تھا، وہ شبلی فراز 2015 میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خیبرپختونخوا سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
شبلی فراز ایوان بالا میں قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل اور تجارت اور قائمہ کمیٹی برائے گردشی قرضہ کے چیئرمین کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
ادھر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ریٹائرمنٹ سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، ڈی جی آرمز اور کمانڈر سدرن کمانڈ سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔
گزشتہ سال نومبر میں وفاقی حکومت نے انہیں پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرپرسن مقرر کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 20 جولائی 2020 کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کیں تھیِ، جس کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ 8 جائیدادیں رکھتے ہیں جس میں ایک گھر، پلاٹس، کمرشل پلاٹس اور (65 ایکڑز) زرعی زمین ہے، جس کی مالیت تقریباً 15 کروڑ روپے ہے۔
اسد عمر کا وزیر خزانہ سے وزیر منصوبہ بندی و اقدامات تک کا سفر
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو حلف اٹھائے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ 18 اپریل 2019 کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ کا حصہ بھی نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسد عمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کابینہ میں ردوبدل کے نتیجے میں چاہتے ہیں کہ میں وزارت خزانہ کی جگہ توانائی کا قلمدان سنبھال لوں لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لوں گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشااللہ نیا پاکستان ضرور بنے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد عمر کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ایک ہفتے قبل ہی وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو کے لیے واشنگٹن گئے تھے اور ان کی وہاں عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
تاہم اسی دورے کے دوران ان کو عہدے سے ہٹائے جانے اور کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں جسے حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
ان کے مستعفی ہونے کے چند ماہ بعد نومبر 2019 میں وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا تھا کہ وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردو بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو دوبارہ وزارت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل، اسد عمر کو منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات جبکہ خسرو بختیار کو پیٹرولیم کا وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے’ اور ‘اس ضمن میں نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا’۔
بعد ازاں 19 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے وفاقی وزیر کے عہدے کا دوبارہ حلف اٹھایا تھا اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی بننے کے بعد اسد عمر وفاقی کابینہ کا دوبارہ حصہ بن گئے تھے۔
عبدالحفیظ شیخ کے مشیر مقرر کیے جانے پر تنازع
اپریل 2019 میں اسد عمر کے وزارت خزانہ سے مستعفی ہونے کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو اور معاشی امور تعینات کرنے کی منظوری دی تھی تاہم اس تعیناتی پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ پرویز مشرف کی کابینہ کے تمام اراکین کو عمران خان نے اپنی کابینہ کا حصہ بنالیا ہے۔
علاوہ ازیں عبدالحفیظ شیخ کی تعیناتی کو عدالت میں بھی چیلنج کیا گیا۔
8 جولائی 2019 کو اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اختیارات کم کرتے ہوئے ان سے ریونیو ڈویژن کا قلمدان واپس لے لیا تاہم وہ وزیر اعظم کے مشیر برائے مالیاتی و اقتصادی امور کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔
ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، مالیات بتا دیا گیا جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے عبدالنبی شیخ کے صاحبزادے عبدالحفیظ شیخ سندھ کے شہر جیکب آباد میں پیدا ہوئے اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا منتقل ہوئے جہاں انہوں نے بوسٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا جس کے بعد انہوں نے 1984 میں وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے ورلڈ بینک کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے عالمی بینک کے معاشی آپریشنز برائے سعودی عرب کے صدر بنے۔
سنہ 2000 میں حفیظ شیخ پاکستان واپس آئے اور سندھ حکومت میں بطور وزیر خزانہ، منصوبہ بندی اور ترقی اپنے فرائض انجام دیے، بعد ازاں پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے وفاقی وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری کا قلمدان سنبھالا جہاں ان کی بہترین خدمات پر پاکستان کی تاجر برادری نے 2004 میں انہیں ’سال کا بہترین‘ شخص قرار دیا۔
2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں وفاقی وزیر خزانہ تعینات کیا تاہم 2013 کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، ڈاکٹر حفیظ شیخ عالمی سطح پر نامور ماہر معاشی امور ہیں جنہیں معاشی پالیسیاں بنانے کا 30 سال کا تجربہ حاصل ہے۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزارت داخلہ دینے پر تنازع
گزشتہ سال 19 اپریل کو وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ سے وزیر امور پارلیمان کی وزارت لے کر انہیں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔
خیال ہے کہ حکومت نے 29 مارچ کو انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ 2004 سے 2008 تک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رہے، انہوں نے گزشتہ برس عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آئی بی کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جبکہ دسمبر 2007 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اعجاز احمد شاہ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے بریگیڈیئر اعجاز شاہ پر مسلم لیگ قائداعظم اور پی پی پی پیٹریاٹ بنانے میں سہولت فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ کراچی میں وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے ماسٹر مائنڈ عمر سعید شیخ نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ذریعے ہی سرینڈر کیا تھا۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے وزیراعظم کے فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کیا تھا اور اس فیصلے کو وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن قرار دیا تھا جبکہ اعجاز شاہ کا اپوزیشن کے حوالے سے دیا جانے والا بیان ایوان میں مزید ہنگامے کی وجہ بنا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ وزیراعظم عمران خان کے پاس کسی بھی پارلیمانی رہنما کو وزیر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایک متنازع شخص کو وزیر پالیمانی امور کا عہدہ دے کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو مشتعل کیا۔
انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین کا ایسے شخص کے ساتھ بات چیت کرنا بھی مشکل ہوگا جو مبینہ طور پر پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔
پی پی پی رہنما پلوشہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ وہ شخص ہیں جنہوں نے جنرل (ر) مشرف کے لیے کام کیا اور ’ان کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط بھی تھے‘ جبکہ ’بینظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل کی صورت میں انہیں ممکنہ ذمہ دار ٹھہرایا تھا‘۔
علاوہ ازیں پی پی پی کی نفیشہ شاہ نے کہا تھا کہ اعجاز شاہ کے تقرر کے بعد پرویز مشرف اور عمران خان کی کابینہ میں کوئی فرق نہیں رہا، یہ وہی اعجاز شاہ ہیں جن کا پرویزمشرف کے دور میں سیاسی انجینئرنگ میں اہم کردار رہا ہے۔
دوسری جانب پی پی پی کے ان تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری کی سربراہی میں پی پی پی نے 5 سال تک ملک پر حکومت کی، 'اگر میں نے کچھ کیا تھا تو مجھے پھانسی لگا دیتے'۔
اعظم سواتی کا استعفیٰ اور نئی وزارت کا قلمدان
8 اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے باعث اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول بنا دیا گیا تھا۔
اور صرف دو روز بعد ہی اعظم سواتی سے یہ قلمدان واپس لے کر وزیر مملکت برائے سیفران (اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز) شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے انسداد منشیات کا اضافی قلمدان واپس دے دیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں ہی وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں کی جانے والی تبدیلوں میں اعظم سواتی، جو گزشتہ سال سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے، کو دوبارہ وفاقی وزیر کا عہدہ دے دیا گیا تھا، اس مرتبہ انہیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا قلمدان دیا گیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسی حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔
معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا'، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے تھے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا، بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔
29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جس کے بعد 6 دسمبر 2018 کو اعظم سواتی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان کی کابینہ میں واپسی
جون 2017 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی سے 21 سالہ رفاقت کو ختم کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، انہوں نے یہ اعلان اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اعزاز میں دی گئی افطار پارٹی کے موقع پر کیا تھا۔
اس موقع پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے کپتان کو خوش آمدید کہتا ہوں، سینیٹ کی نشست چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت بھی چیلنج تھا، بعد ازاں انہوں نے یکم جولائی 2017 کو رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بابر اعوان نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بذریعہ ڈاک اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا ہے اور استعفے کی تصدیق کے لیے چیئرمین سینیٹ نے جب بھی بلایا حاضر ہو جاؤں گا تاہم بابر اعوان نے اپنے استعفے میں مستعفی ہونے کی وجوہات درج نہیں کیں تھیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے 2011 میں دائر پٹیشن پر دوبارہ سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔
نندی پور پاور منصوبے میں سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) رحمت جعفری پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا، جسٹس (ر) رحمت جعفری نے تحقیقات مکمل کرکے 94 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق نندی پور توانائی منصوبے میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی تکمیل میں مقررہ وقت سے زائد وقت لگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے تاخیر سے مکمل ہونے پر قومی خزانے کو ایک کھرب 13 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا، رپورٹ میں وفاقی وزارتِ قانون کو غلفت کا مرتب قرار دیا گیا تھا جبکہ اس وقت بابر اعوان وفاقی وزیرِ قانون تھے۔
بابر اعوان نے نندی پور توانائی منصوبے کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش ہوکر مؤقف اختیار کیا تھا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بعد ازاں 2018 میں ایسی رپورٹس سامنے آئیں تھیں کہ نیب نے پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے متعلق ریفرنس دائر کردیا، نیب ریفرنس کے مطابق ملزمان کی غفلت کی وجہ سے نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
علاوہ ازیں 9 اگست 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے طلبی کے احکامات جاری کیے تھے۔
12 اگست 2018 کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور متعلقہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد حتمی رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔
جس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند روز بعد ہی 4 ستمبر 2018 کو وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بابر اعوان عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان نے اپنے مستعفی ہونے سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیے تھے جن میں استعفے کی وجوہات اور نیب ریفرنس کے حوالے سے مؤقف پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے استعفے کو وزیراعظم کو پیش کرنے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ دیر قبل ہی وزیراعظم عمران خان سے ملنے پہنچے ہیں۔
بعد ازاں احتساب عدالت میں مذکورہ کیسز کی متعدد سماعتیں ہوئیں اور عدالت نے 25 جون 2019 کو ڈاکٹر بابر اعوان کو نندی پور ریفرنس میں بری کردیا تھا، جس کے بعد 5 جولائی کو نیب نے نندی پور پاور ریفرنس میں تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان اور سابق لا سیکریٹری جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق بابر اعوان کو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے پارلیمانی امور مقرر کیا تھا جس کے بعد ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز نے مشیران اور معاونین کی تعیناتیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
شہزاد اکبر کو اضافی قلمدان سونپ دیا گیا
22 جولائی 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل کرکے انہیں وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے داخلہ و احتساب مقرر کردیا گیا تھا۔
کابینہ سیکریٹریٹ سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر مرزا شہزاد اکبر کو عمران خان کا مشیر برائے احتساب اور داخلہ امور مقرر کیا، اس سے قبل وہ معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ امور اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
قانونی طور پر وزیر اعظم کے مشیر کا عہدہ وفاقی وزیر اور معاون خصوصی کا وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعطم کے معاون خصوصی مقرر ہونے سے قبل شہزاد اکبر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کرتے تھے جبکہ انہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں بطور معاون بھی کام کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزاد اکبر جب معاون خصوصی برائے احتساب مقرر تھے تو اپوزیشن جماعتون کی جانب سے ان پر نیب کیسز اور نیب کے دیگر معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا تھا علاوہ ازیں 12 اگست 2020 کو لاہور کی مقامی عدالت میں کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے درخواست فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی، جس میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ان پر ہونے والے 'حملے' کے الزام میں وزیراعظم عمران خان، مشیر داخلہ شہزاد اکبر سمیت دیگر کے خلاف مقدمے کے اندراج کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 6 اگست کو نیب نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کو 200 کنال اراضی غیرقانونی طور پر اپنے نام کرانے کے الزام میں طلب کرتے ہوئے انہیں 11 اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی تاہم پیشی کے موقع پر بد نظمی دیکھنے میں آئی تھی اور پولیس اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
شہریار آفریدی کے قلمدان میں تبدیلی
اگست 2018 میں حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے اپنی کابینہ میں شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ کا عہدہ سونپا تھا تاہم اپریل 2019 میں کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق شہریار آفریدی کو ریاستی اور سرحدی علاقوں (سیفرون) کے وزیر مقرر گیا تھا جبکہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے داخلہ بتا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اپریل میں 2020 میں کابینہ میں اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی تھیں اور وزیراعظم عمران خان نے کئی وزرا کے قلمدان تبدیل کردیے تھے، ان تبدیلیوں کو آٹا چینی بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ سے منسلک کیا جارہا تھا۔
ان تبدیلیوں میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات کا عہدہ تفویض کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی وزیراعظم نے شہریار آفریدی سے وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس لے لیا تھا جس کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن نے 8 اپریل کو جاری کیا تھا۔
تاہم ایک روز بعد ہی مذکورہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور 9 اپریل کو نیا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے سیفران کو وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس دے دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس میں وزیر مملکت شہریار آفریدی کو خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
بعد ازاں 14 مئی 2020 کو ملک کی 3 بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی جانب سے واک آؤٹ کے بعد ایک متنازع عمل کے دوران شہریار آفریدی کو کشمیر امور پر قائم پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
یہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کمیٹی کے سربراہ کے لیے انتخابات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ کمیٹی کا چیئرمین کوئی ایسا تجربہ کار فرد ہونا چاہیے جسے مسئلہ کشمیر کی وسیع معلومات ہونی چاہیے۔
ان سب معاملات کے علاوہ ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے متعدد مرتبہ تنقید کا باعث بنا اور وہ معاملہ تھا جہانگیر ترین کے سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے کے باوجود ان کی کابینہ کے اجلاسوں میں شمولیت اور مبینہ طور پر فیصلوں پر اثر انداز ہونا، بعد ازاں چینی بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں ان کے گروپ کو نامزد بھی کیا گیا۔
ویسے تو وہ کابینہ کا حصہ نہیں تھے لیکن ان کے معاملے کی نزاکت کے باعث اس رپورٹ میں اپنے قارئین کے لیے اس کا مختصر احاطہ کیا گیا ہے۔
جہانگیر ترین کا معاملہ
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو اثاثہ جات سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق جنرل سیکریٹری نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی لیکن 27 ستمبر 2018 کو وہ بھی مسترد کردی گئی تھی۔
بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید جارہی تھی کہ ایک نااہل شخص ان کی کابینہ کے اجلاس میں موجود ہوتا ہے اور وہ فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، جس پر مارچ 2019 میں پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت کو پارٹی کا کارکن ذہنی طور پر قبول نہیں کر پارہا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 'میں ان سے کہوں گا کہ میرے بھائی جب آپ حکومتی اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو مریم اورنگزیب کو پریس کانفرنس کا موقع ملتا ہے اور مسلم لیگ (ن) سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہینِ عدالت نہیں تو کیا ہے؟'
شاہ محمود قریشی کے بیان کے فوری بعد پارٹی رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں دوسروں کی حیرت انگیز وجوہات کی پروا نہیں، 'میری زندگی میں صرف ایک ایسا شخص ہے جنہیں میں اپنا لیڈر مانتا ہوں اور انہی کو جوابدہ ہوں، وہ لیڈر عمران خان ہیں'۔
واضح رہے کہ مذکورہ معاملے کے بعد بھی جہانگیر ترین حکومت کے اہم اجلاسوں کا حصہ بنتے رہے تاہم چینی کے بحران سے متعلق انکوائری کے آغاز اور اس رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وہ منظر عام سے تقریباً غائب ہوگئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ رپورٹ میں جہاں دیگر گروہوں اور افراد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا وہاں جہانگیر ترین گروپ کو بھی سبسڈی حاصل کرنے والے گروہوں میں پیش پیش قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
ان سب الزامات کو جہانگیر ترین نے مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ ان کے وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں۔
7 اپریل 2020 کو نجی چینل 'سماء نیوز' کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ 'میں پاکستان کی 20 فیصد چینی ضرور بناتا ہوں لیکن اس کے پیچھے 30 سال کی محنت ہے، ای سی سی کا اکتوبر 2018 کا اجلاس اسد عمر کی زیر صدارت ہوا جس میں 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی، اسد عمر سے چینی کی برآمد پر کوئی بات نہیں کی، میرا شوگر مارکیٹ میں 20 فیصد شیئر اور 6 ملیں ضرور ہیں لیکن 74 اور ملیں بھی ہیں'۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'رپورٹ تیار کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے، اس رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، حکومت پالیسی بناتی ہے جس پر عمل کرکے مل مالکان سبسڈی حاصل کرتے ہیں جبکہ سبسڈی منافع نہیں ہوتی'.
4 مئی کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی نکل آئے جہانگیر ترین تحریک انصاف کی مخالفت نہیں کریں گے۔
بعد ازاں جون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چینی اسکینڈل کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے ’خاموشی‘ سے لندن روانہ ہونے پر سوالات اٹھائے تھے۔
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے'۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔
چینی اور گندم بحران کی رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پاکستان میں چینی اور گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے دو روز بعد ہی وفاقی کابینہ میں رد و بدل کیا گیا اور وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا دیا گیا اور انہیں اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا اور ان کی جگہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کو مذکورہ وزارت دے دی گئی۔
اسی طرح حماد اظہر سے وزیر اقتصادی امور واپس لے کر انہیں وزیر صنعت کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا۔
کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول تاہم ان سے دو روز بعد ہی واپس لے لی گئی تھی، وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ بابر اعوان کو مشیر پارلیمانی امور مقرر کردیا گیا۔
خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق کابینہ میں شامل
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کو دیکھ رہے تھے۔
12 جنوری 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کے ساتھ ہی حکومتی و پی ٹی آئی کے نمائندوں نے ایم کیو ایم کنوینر سے کابینہ میں واپسی کے لیے متعدد ملاقاتیں کی تھیں تاہم خالد مقبول اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔
خالد مقبول صدیقی نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورا کریں گے تاہم میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کا حصہ بنے تو ہم پر یہ لازم تھا کہ 50 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت کے سامنے رکھتے' اور 'پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے'۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہم نے تحریک انصاف سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو حکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے'۔
بعد ازاں 6 اپریل 2020 کو وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، ساتھ ہی خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا تھا۔
22 اپریل 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما امین الحق نے خالد مقبول صدیقی کی جگہ وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں، اس سے قبل وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر مواصلات مقرر کیا تھا۔
اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے امین الحق کو ذمہ داریاں سونپنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق امین الحق کو وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کا قلمدان سونپا گیا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق عام انتخابات 2018 میں کراچی کے حلقہ 251 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی کابینہ میں متعدد مرتبہ واپسی
ویسے تو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پہلے دور حکومت کے دو سال کے دوران جس بھی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی کو کسی خاص عہدے سے ہٹایا تو اسے واپس یہ عہدہ نہیں دیا گیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم وہ واحد فرد ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر استعفیٰ دیا لیکن انہیں ہر مرتبہ کچھ ہی دن یا ہفتوں بعد ان کی وزارت واپس کردی گئی۔
آخری مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم نے 24 جولائی 2020 کو وفاقی وزیر قانون و انصاف کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، یہ تیسری مرتبہ تھا کہ فروغ نسیم، وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ بنے تھے۔
اس مرتبہ تقریباً 7 ہفتوں بعد ان کی دوبارہ وفاقی کابینہ میں واپسی ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں حکومتی نمائندگی کے لیے یکم جون 2020 کو وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
تاہم 20 جون کو سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو (1-9) کی اکثریت سے 'کالعدم' قرار دے دیا تھا جس کے بعد فروغ نسیم واپس کابینہ کا حصہ بن گئے۔
اس سے قبل فروغ نسیم نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں نمائندگی کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
وہ اس کیس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک روز بعد ہی 29 نومبر کو دوبارہ وزیر قانون کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا۔
فروغ نسیم کو وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔
فواد چوہدری کی جگہ شبلی فراز، فردوس عاشق اعوان کی جگہ لیفٹیننٹ عاصم باجوہ کا انتخاب
اپریل 2019 میں حکومت نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے فواد چوہدری سمیت متعدد وزرا کے قلمدان تبدیل کردیئے تھے۔
وزیراعظم ہاؤس کے مطابق مجموعی طور 6 وفاقی وزارتوں کے قلمدان میں ردوبدل کیا گیا تھا، فواد چوہدری سے اطلاعات و نشریات کی وزارت واپس لے کر انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے کئی وزرا کو اپنا معاون خصوصی بھی مقرر کیا، جن میں فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات و نشریات ڈویژن کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔
ان تبدیلیوں کے تقریباً ایک سال بعد ہی اپریل 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان سے عہدہ واپس لے کر ان کی جگہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم کا نیا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا۔
اس موقع پر فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا، ایک سال کے عرصے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کی جبکہ میں وزیر اعظم کے فیصلے کا احترام کرتی ہوں'۔
بعد ازاں نجی نیوز چینل کو ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وزرات میں ایک وقت میں بہت سے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جس کی وجہ سے ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا۔
واضح رہے کہ فردوس عاشق اعوان کے عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں کہا جا رہا تھا کہ ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کا باعث بنی تاہم شبلی فراز نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسی کسی رپورٹ کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2019 میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ نیب نے سابق وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما فردوس عاشق اعوان کے اثاثہ جات کی چھان بین شروع کرتے ہوئے جائیدادوں کا ریکارڈ ایل ڈی اے سے طلب کر لیا۔
یاد رہے کہ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں وفاقی وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں، بعد ازاں وہ عام انتخابات میں شکست کھانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئی تھیں۔
سیاسی جماعت تبدیل کرنے کے باوجود 2018 کے عام انتخابات میں بھی اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم انہیں گزشتہ سال 18 اپریل کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا تھا، اس طرح وہ ایک سال 9 روز اس عہدے پر براجمان رہیں، اور عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے وہ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے معروف شاعر فراز احمد فراز کے صاحبزادے سینیٹر شبلی فراز کو اگست 2018 میں سینیٹ میں قائدِ ایوان مقرر کیا تھا، وہ شبلی فراز 2015 میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خیبرپختونخوا سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
شبلی فراز ایوان بالا میں قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل اور تجارت اور قائمہ کمیٹی برائے گردشی قرضہ کے چیئرمین کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
ادھر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ریٹائرمنٹ سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، ڈی جی آرمز اور کمانڈر سدرن کمانڈ سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔
گزشتہ سال نومبر میں وفاقی حکومت نے انہیں پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرپرسن مقرر کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 20 جولائی 2020 کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کیں تھیِ، جس کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ 8 جائیدادیں رکھتے ہیں جس میں ایک گھر، پلاٹس، کمرشل پلاٹس اور (65 ایکڑز) زرعی زمین ہے، جس کی مالیت تقریباً 15 کروڑ روپے ہے۔
اسد عمر کا وزیر خزانہ سے وزیر منصوبہ بندی و اقدامات تک کا سفر
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو حلف اٹھائے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ 18 اپریل 2019 کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ کا حصہ بھی نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسد عمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کابینہ میں ردوبدل کے نتیجے میں چاہتے ہیں کہ میں وزارت خزانہ کی جگہ توانائی کا قلمدان سنبھال لوں لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لوں گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشااللہ نیا پاکستان ضرور بنے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد عمر کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ایک ہفتے قبل ہی وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو کے لیے واشنگٹن گئے تھے اور ان کی وہاں عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
تاہم اسی دورے کے دوران ان کو عہدے سے ہٹائے جانے اور کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں جسے حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
ان کے مستعفی ہونے کے چند ماہ بعد نومبر 2019 میں وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا تھا کہ وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردو بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو دوبارہ وزارت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل، اسد عمر کو منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات جبکہ خسرو بختیار کو پیٹرولیم کا وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے’ اور ‘اس ضمن میں نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا’۔
بعد ازاں 19 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے وفاقی وزیر کے عہدے کا دوبارہ حلف اٹھایا تھا اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی بننے کے بعد اسد عمر وفاقی کابینہ کا دوبارہ حصہ بن گئے تھے۔
عبدالحفیظ شیخ کے مشیر مقرر کیے جانے پر تنازع
اپریل 2019 میں اسد عمر کے وزارت خزانہ سے مستعفی ہونے کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو اور معاشی امور تعینات کرنے کی منظوری دی تھی تاہم اس تعیناتی پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ پرویز مشرف کی کابینہ کے تمام اراکین کو عمران خان نے اپنی کابینہ کا حصہ بنالیا ہے۔
علاوہ ازیں عبدالحفیظ شیخ کی تعیناتی کو عدالت میں بھی چیلنج کیا گیا۔
8 جولائی 2019 کو اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اختیارات کم کرتے ہوئے ان سے ریونیو ڈویژن کا قلمدان واپس لے لیا تاہم وہ وزیر اعظم کے مشیر برائے مالیاتی و اقتصادی امور کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔
ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، مالیات بتا دیا گیا جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے عبدالنبی شیخ کے صاحبزادے عبدالحفیظ شیخ سندھ کے شہر جیکب آباد میں پیدا ہوئے اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا منتقل ہوئے جہاں انہوں نے بوسٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا جس کے بعد انہوں نے 1984 میں وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے ورلڈ بینک کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے عالمی بینک کے معاشی آپریشنز برائے سعودی عرب کے صدر بنے۔
سنہ 2000 میں حفیظ شیخ پاکستان واپس آئے اور سندھ حکومت میں بطور وزیر خزانہ، منصوبہ بندی اور ترقی اپنے فرائض انجام دیے، بعد ازاں پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے وفاقی وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری کا قلمدان سنبھالا جہاں ان کی بہترین خدمات پر پاکستان کی تاجر برادری نے 2004 میں انہیں ’سال کا بہترین‘ شخص قرار دیا۔
2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں وفاقی وزیر خزانہ تعینات کیا تاہم 2013 کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، ڈاکٹر حفیظ شیخ عالمی سطح پر نامور ماہر معاشی امور ہیں جنہیں معاشی پالیسیاں بنانے کا 30 سال کا تجربہ حاصل ہے۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزارت داخلہ دینے پر تنازع
گزشتہ سال 19 اپریل کو وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ سے وزیر امور پارلیمان کی وزارت لے کر انہیں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔
خیال ہے کہ حکومت نے 29 مارچ کو انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ 2004 سے 2008 تک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رہے، انہوں نے گزشتہ برس عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آئی بی کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جبکہ دسمبر 2007 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اعجاز احمد شاہ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے بریگیڈیئر اعجاز شاہ پر مسلم لیگ قائداعظم اور پی پی پی پیٹریاٹ بنانے میں سہولت فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ کراچی میں وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے ماسٹر مائنڈ عمر سعید شیخ نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ذریعے ہی سرینڈر کیا تھا۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے وزیراعظم کے فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کیا تھا اور اس فیصلے کو وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن قرار دیا تھا جبکہ اعجاز شاہ کا اپوزیشن کے حوالے سے دیا جانے والا بیان ایوان میں مزید ہنگامے کی وجہ بنا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ وزیراعظم عمران خان کے پاس کسی بھی پارلیمانی رہنما کو وزیر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایک متنازع شخص کو وزیر پالیمانی امور کا عہدہ دے کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو مشتعل کیا۔
انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین کا ایسے شخص کے ساتھ بات چیت کرنا بھی مشکل ہوگا جو مبینہ طور پر پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔
پی پی پی رہنما پلوشہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ وہ شخص ہیں جنہوں نے جنرل (ر) مشرف کے لیے کام کیا اور ’ان کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط بھی تھے‘ جبکہ ’بینظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل کی صورت میں انہیں ممکنہ ذمہ دار ٹھہرایا تھا‘۔
علاوہ ازیں پی پی پی کی نفیشہ شاہ نے کہا تھا کہ اعجاز شاہ کے تقرر کے بعد پرویز مشرف اور عمران خان کی کابینہ میں کوئی فرق نہیں رہا، یہ وہی اعجاز شاہ ہیں جن کا پرویزمشرف کے دور میں سیاسی انجینئرنگ میں اہم کردار رہا ہے۔
دوسری جانب پی پی پی کے ان تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری کی سربراہی میں پی پی پی نے 5 سال تک ملک پر حکومت کی، 'اگر میں نے کچھ کیا تھا تو مجھے پھانسی لگا دیتے'۔
اعظم سواتی کا استعفیٰ اور نئی وزارت کا قلمدان
8 اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے باعث اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول بنا دیا گیا تھا۔
اور صرف دو روز بعد ہی اعظم سواتی سے یہ قلمدان واپس لے کر وزیر مملکت برائے سیفران (اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز) شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے انسداد منشیات کا اضافی قلمدان واپس دے دیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں ہی وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں کی جانے والی تبدیلوں میں اعظم سواتی، جو گزشتہ سال سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے، کو دوبارہ وفاقی وزیر کا عہدہ دے دیا گیا تھا، اس مرتبہ انہیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا قلمدان دیا گیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسی حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔
معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا'، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے تھے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا، بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔
29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جس کے بعد 6 دسمبر 2018 کو اعظم سواتی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان کی کابینہ میں واپسی
جون 2017 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی سے 21 سالہ رفاقت کو ختم کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، انہوں نے یہ اعلان اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اعزاز میں دی گئی افطار پارٹی کے موقع پر کیا تھا۔
اس موقع پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے کپتان کو خوش آمدید کہتا ہوں، سینیٹ کی نشست چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت بھی چیلنج تھا، بعد ازاں انہوں نے یکم جولائی 2017 کو رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بابر اعوان نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بذریعہ ڈاک اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا ہے اور استعفے کی تصدیق کے لیے چیئرمین سینیٹ نے جب بھی بلایا حاضر ہو جاؤں گا تاہم بابر اعوان نے اپنے استعفے میں مستعفی ہونے کی وجوہات درج نہیں کیں تھیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے 2011 میں دائر پٹیشن پر دوبارہ سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔
نندی پور پاور منصوبے میں سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) رحمت جعفری پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا، جسٹس (ر) رحمت جعفری نے تحقیقات مکمل کرکے 94 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق نندی پور توانائی منصوبے میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی تکمیل میں مقررہ وقت سے زائد وقت لگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے تاخیر سے مکمل ہونے پر قومی خزانے کو ایک کھرب 13 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا، رپورٹ میں وفاقی وزارتِ قانون کو غلفت کا مرتب قرار دیا گیا تھا جبکہ اس وقت بابر اعوان وفاقی وزیرِ قانون تھے۔
بابر اعوان نے نندی پور توانائی منصوبے کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش ہوکر مؤقف اختیار کیا تھا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بعد ازاں 2018 میں ایسی رپورٹس سامنے آئیں تھیں کہ نیب نے پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے متعلق ریفرنس دائر کردیا، نیب ریفرنس کے مطابق ملزمان کی غفلت کی وجہ سے نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
علاوہ ازیں 9 اگست 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے طلبی کے احکامات جاری کیے تھے۔
12 اگست 2018 کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور متعلقہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد حتمی رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔
جس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند روز بعد ہی 4 ستمبر 2018 کو وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بابر اعوان عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان نے اپنے مستعفی ہونے سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیے تھے جن میں استعفے کی وجوہات اور نیب ریفرنس کے حوالے سے مؤقف پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے استعفے کو وزیراعظم کو پیش کرنے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ دیر قبل ہی وزیراعظم عمران خان سے ملنے پہنچے ہیں۔
بعد ازاں احتساب عدالت میں مذکورہ کیسز کی متعدد سماعتیں ہوئیں اور عدالت نے 25 جون 2019 کو ڈاکٹر بابر اعوان کو نندی پور ریفرنس میں بری کردیا تھا، جس کے بعد 5 جولائی کو نیب نے نندی پور پاور ریفرنس میں تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان اور سابق لا سیکریٹری جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق بابر اعوان کو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے پارلیمانی امور مقرر کیا تھا جس کے بعد ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز نے مشیران اور معاونین کی تعیناتیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
شہزاد اکبر کو اضافی قلمدان سونپ دیا گیا
22 جولائی 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل کرکے انہیں وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے داخلہ و احتساب مقرر کردیا گیا تھا۔
کابینہ سیکریٹریٹ سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر مرزا شہزاد اکبر کو عمران خان کا مشیر برائے احتساب اور داخلہ امور مقرر کیا، اس سے قبل وہ معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ امور اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
قانونی طور پر وزیر اعظم کے مشیر کا عہدہ وفاقی وزیر اور معاون خصوصی کا وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعطم کے معاون خصوصی مقرر ہونے سے قبل شہزاد اکبر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کرتے تھے جبکہ انہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں بطور معاون بھی کام کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزاد اکبر جب معاون خصوصی برائے احتساب مقرر تھے تو اپوزیشن جماعتون کی جانب سے ان پر نیب کیسز اور نیب کے دیگر معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا تھا علاوہ ازیں 12 اگست 2020 کو لاہور کی مقامی عدالت میں کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے درخواست فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی، جس میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ان پر ہونے والے 'حملے' کے الزام میں وزیراعظم عمران خان، مشیر داخلہ شہزاد اکبر سمیت دیگر کے خلاف مقدمے کے اندراج کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 6 اگست کو نیب نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کو 200 کنال اراضی غیرقانونی طور پر اپنے نام کرانے کے الزام میں طلب کرتے ہوئے انہیں 11 اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی تاہم پیشی کے موقع پر بد نظمی دیکھنے میں آئی تھی اور پولیس اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
شہریار آفریدی کے قلمدان میں تبدیلی
اگست 2018 میں حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے اپنی کابینہ میں شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ کا عہدہ سونپا تھا تاہم اپریل 2019 میں کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق شہریار آفریدی کو ریاستی اور سرحدی علاقوں (سیفرون) کے وزیر مقرر گیا تھا جبکہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے داخلہ بتا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اپریل میں 2020 میں کابینہ میں اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی تھیں اور وزیراعظم عمران خان نے کئی وزرا کے قلمدان تبدیل کردیے تھے، ان تبدیلیوں کو آٹا چینی بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ سے منسلک کیا جارہا تھا۔
ان تبدیلیوں میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات کا عہدہ تفویض کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی وزیراعظم نے شہریار آفریدی سے وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس لے لیا تھا جس کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن نے 8 اپریل کو جاری کیا تھا۔
تاہم ایک روز بعد ہی مذکورہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور 9 اپریل کو نیا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے سیفران کو وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس دے دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس میں وزیر مملکت شہریار آفریدی کو خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
بعد ازاں 14 مئی 2020 کو ملک کی 3 بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی جانب سے واک آؤٹ کے بعد ایک متنازع عمل کے دوران شہریار آفریدی کو کشمیر امور پر قائم پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
یہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کمیٹی کے سربراہ کے لیے انتخابات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ کمیٹی کا چیئرمین کوئی ایسا تجربہ کار فرد ہونا چاہیے جسے مسئلہ کشمیر کی وسیع معلومات ہونی چاہیے۔
ان سب معاملات کے علاوہ ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے متعدد مرتبہ تنقید کا باعث بنا اور وہ معاملہ تھا جہانگیر ترین کے سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے کے باوجود ان کی کابینہ کے اجلاسوں میں شمولیت اور مبینہ طور پر فیصلوں پر اثر انداز ہونا، بعد ازاں چینی بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں ان کے گروپ کو نامزد بھی کیا گیا۔
ویسے تو وہ کابینہ کا حصہ نہیں تھے لیکن ان کے معاملے کی نزاکت کے باعث اس رپورٹ میں اپنے قارئین کے لیے اس کا مختصر احاطہ کیا گیا ہے۔
جہانگیر ترین کا معاملہ
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو اثاثہ جات سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق جنرل سیکریٹری نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی لیکن 27 ستمبر 2018 کو وہ بھی مسترد کردی گئی تھی۔
بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید جارہی تھی کہ ایک نااہل شخص ان کی کابینہ کے اجلاس میں موجود ہوتا ہے اور وہ فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، جس پر مارچ 2019 میں پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت کو پارٹی کا کارکن ذہنی طور پر قبول نہیں کر پارہا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 'میں ان سے کہوں گا کہ میرے بھائی جب آپ حکومتی اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو مریم اورنگزیب کو پریس کانفرنس کا موقع ملتا ہے اور مسلم لیگ (ن) سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہینِ عدالت نہیں تو کیا ہے؟'
شاہ محمود قریشی کے بیان کے فوری بعد پارٹی رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں دوسروں کی حیرت انگیز وجوہات کی پروا نہیں، 'میری زندگی میں صرف ایک ایسا شخص ہے جنہیں میں اپنا لیڈر مانتا ہوں اور انہی کو جوابدہ ہوں، وہ لیڈر عمران خان ہیں'۔
واضح رہے کہ مذکورہ معاملے کے بعد بھی جہانگیر ترین حکومت کے اہم اجلاسوں کا حصہ بنتے رہے تاہم چینی کے بحران سے متعلق انکوائری کے آغاز اور اس رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وہ منظر عام سے تقریباً غائب ہوگئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ رپورٹ میں جہاں دیگر گروہوں اور افراد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا وہاں جہانگیر ترین گروپ کو بھی سبسڈی حاصل کرنے والے گروہوں میں پیش پیش قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
ان سب الزامات کو جہانگیر ترین نے مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ ان کے وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں۔
7 اپریل 2020 کو نجی چینل 'سماء نیوز' کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ 'میں پاکستان کی 20 فیصد چینی ضرور بناتا ہوں لیکن اس کے پیچھے 30 سال کی محنت ہے، ای سی سی کا اکتوبر 2018 کا اجلاس اسد عمر کی زیر صدارت ہوا جس میں 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی، اسد عمر سے چینی کی برآمد پر کوئی بات نہیں کی، میرا شوگر مارکیٹ میں 20 فیصد شیئر اور 6 ملیں ضرور ہیں لیکن 74 اور ملیں بھی ہیں'۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'رپورٹ تیار کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے، اس رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، حکومت پالیسی بناتی ہے جس پر عمل کرکے مل مالکان سبسڈی حاصل کرتے ہیں جبکہ سبسڈی منافع نہیں ہوتی'.
4 مئی کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی نکل آئے جہانگیر ترین تحریک انصاف کی مخالفت نہیں کریں گے۔
بعد ازاں جون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چینی اسکینڈل کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے ’خاموشی‘ سے لندن روانہ ہونے پر سوالات اٹھائے تھے۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔
چینی اور گندم بحران کی رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پاکستان میں چینی اور گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے دو روز بعد ہی وفاقی کابینہ میں رد و بدل کیا گیا اور وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا دیا گیا اور انہیں اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا اور ان کی جگہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کو مذکورہ وزارت دے دی گئی۔
اسی طرح حماد اظہر سے وزیر اقتصادی امور واپس لے کر انہیں وزیر صنعت کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا۔
کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول تاہم ان سے دو روز بعد ہی واپس لے لی گئی تھی، وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ بابر اعوان کو مشیر پارلیمانی امور مقرر کردیا گیا۔
خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق کابینہ میں شامل
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کو دیکھ رہے تھے۔
12 جنوری 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کے ساتھ ہی حکومتی و پی ٹی آئی کے نمائندوں نے ایم کیو ایم کنوینر سے کابینہ میں واپسی کے لیے متعدد ملاقاتیں کی تھیں تاہم خالد مقبول اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔
خالد مقبول صدیقی نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورا کریں گے تاہم میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کا حصہ بنے تو ہم پر یہ لازم تھا کہ 50 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت کے سامنے رکھتے' اور 'پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے'۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہم نے تحریک انصاف سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو حکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے'۔
بعد ازاں 6 اپریل 2020 کو وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، ساتھ ہی خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا تھا۔
22 اپریل 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما امین الحق نے خالد مقبول صدیقی کی جگہ وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں، اس سے قبل وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر مواصلات مقرر کیا تھا۔
اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے امین الحق کو ذمہ داریاں سونپنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق امین الحق کو وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کا قلمدان سونپا گیا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق عام انتخابات 2018 میں کراچی کے حلقہ 251 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی کابینہ میں متعدد مرتبہ واپسی
ویسے تو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پہلے دور حکومت کے دو سال کے دوران جس بھی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی کو کسی خاص عہدے سے ہٹایا تو اسے واپس یہ عہدہ نہیں دیا گیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم وہ واحد فرد ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر استعفیٰ دیا لیکن انہیں ہر مرتبہ کچھ ہی دن یا ہفتوں بعد ان کی وزارت واپس کردی گئی۔
آخری مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم نے 24 جولائی 2020 کو وفاقی وزیر قانون و انصاف کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، یہ تیسری مرتبہ تھا کہ فروغ نسیم، وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ بنے تھے۔
اس مرتبہ تقریباً 7 ہفتوں بعد ان کی دوبارہ وفاقی کابینہ میں واپسی ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں حکومتی نمائندگی کے لیے یکم جون 2020 کو وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
تاہم 20 جون کو سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو (1-9) کی اکثریت سے 'کالعدم' قرار دے دیا تھا جس کے بعد فروغ نسیم واپس کابینہ کا حصہ بن گئے۔
اس سے قبل فروغ نسیم نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں نمائندگی کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
وہ اس کیس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک روز بعد ہی 29 نومبر کو دوبارہ وزیر قانون کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا۔
فروغ نسیم کو وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔
فواد چوہدری کی جگہ شبلی فراز، فردوس عاشق اعوان کی جگہ لیفٹیننٹ عاصم باجوہ کا انتخاب
اپریل 2019 میں حکومت نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے فواد چوہدری سمیت متعدد وزرا کے قلمدان تبدیل کردیئے تھے۔
وزیراعظم ہاؤس کے مطابق مجموعی طور 6 وفاقی وزارتوں کے قلمدان میں ردوبدل کیا گیا تھا، فواد چوہدری سے اطلاعات و نشریات کی وزارت واپس لے کر انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے کئی وزرا کو اپنا معاون خصوصی بھی مقرر کیا، جن میں فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات و نشریات ڈویژن کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔
ان تبدیلیوں کے تقریباً ایک سال بعد ہی اپریل 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان سے عہدہ واپس لے کر ان کی جگہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم کا نیا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا۔
اس موقع پر فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا، ایک سال کے عرصے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کی جبکہ میں وزیر اعظم کے فیصلے کا احترام کرتی ہوں'۔
بعد ازاں نجی نیوز چینل کو ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وزرات میں ایک وقت میں بہت سے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جس کی وجہ سے ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا۔
واضح رہے کہ فردوس عاشق اعوان کے عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں کہا جا رہا تھا کہ ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کا باعث بنی تاہم شبلی فراز نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسی کسی رپورٹ کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2019 میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ نیب نے سابق وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما فردوس عاشق اعوان کے اثاثہ جات کی چھان بین شروع کرتے ہوئے جائیدادوں کا ریکارڈ ایل ڈی اے سے طلب کر لیا۔
یاد رہے کہ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں وفاقی وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں، بعد ازاں وہ عام انتخابات میں شکست کھانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئی تھیں۔
سیاسی جماعت تبدیل کرنے کے باوجود 2018 کے عام انتخابات میں بھی اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم انہیں گزشتہ سال 18 اپریل کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا تھا، اس طرح وہ ایک سال 9 روز اس عہدے پر براجمان رہیں، اور عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے وہ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے معروف شاعر فراز احمد فراز کے صاحبزادے سینیٹر شبلی فراز کو اگست 2018 میں سینیٹ میں قائدِ ایوان مقرر کیا تھا، وہ شبلی فراز 2015 میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خیبرپختونخوا سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
شبلی فراز ایوان بالا میں قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل اور تجارت اور قائمہ کمیٹی برائے گردشی قرضہ کے چیئرمین کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
ادھر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ریٹائرمنٹ سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، ڈی جی آرمز اور کمانڈر سدرن کمانڈ سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔
گزشتہ سال نومبر میں وفاقی حکومت نے انہیں پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرپرسن مقرر کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 20 جولائی 2020 کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کیں تھیِ، جس کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ 8 جائیدادیں رکھتے ہیں جس میں ایک گھر، پلاٹس، کمرشل پلاٹس اور (65 ایکڑز) زرعی زمین ہے، جس کی مالیت تقریباً 15 کروڑ روپے ہے۔
اسد عمر کا وزیر خزانہ سے وزیر منصوبہ بندی و اقدامات تک کا سفر
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو حلف اٹھائے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ 18 اپریل 2019 کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ کا حصہ بھی نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسد عمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کابینہ میں ردوبدل کے نتیجے میں چاہتے ہیں کہ میں وزارت خزانہ کی جگہ توانائی کا قلمدان سنبھال لوں لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لوں گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشااللہ نیا پاکستان ضرور بنے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد عمر کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ایک ہفتے قبل ہی وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو کے لیے واشنگٹن گئے تھے اور ان کی وہاں عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
تاہم اسی دورے کے دوران ان کو عہدے سے ہٹائے جانے اور کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں جسے حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
ان کے مستعفی ہونے کے چند ماہ بعد نومبر 2019 میں وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا تھا کہ وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردو بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو دوبارہ وزارت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل، اسد عمر کو منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات جبکہ خسرو بختیار کو پیٹرولیم کا وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے’ اور ‘اس ضمن میں نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا’۔
بعد ازاں 19 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے وفاقی وزیر کے عہدے کا دوبارہ حلف اٹھایا تھا اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی بننے کے بعد اسد عمر وفاقی کابینہ کا دوبارہ حصہ بن گئے تھے۔
عبدالحفیظ شیخ کے مشیر مقرر کیے جانے پر تنازع
اپریل 2019 میں اسد عمر کے وزارت خزانہ سے مستعفی ہونے کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو اور معاشی امور تعینات کرنے کی منظوری دی تھی تاہم اس تعیناتی پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ پرویز مشرف کی کابینہ کے تمام اراکین کو عمران خان نے اپنی کابینہ کا حصہ بنالیا ہے۔
علاوہ ازیں عبدالحفیظ شیخ کی تعیناتی کو عدالت میں بھی چیلنج کیا گیا۔
8 جولائی 2019 کو اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اختیارات کم کرتے ہوئے ان سے ریونیو ڈویژن کا قلمدان واپس لے لیا تاہم وہ وزیر اعظم کے مشیر برائے مالیاتی و اقتصادی امور کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔
ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، مالیات بتا دیا گیا جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے عبدالنبی شیخ کے صاحبزادے عبدالحفیظ شیخ سندھ کے شہر جیکب آباد میں پیدا ہوئے اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا منتقل ہوئے جہاں انہوں نے بوسٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا جس کے بعد انہوں نے 1984 میں وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے ورلڈ بینک کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے عالمی بینک کے معاشی آپریشنز برائے سعودی عرب کے صدر بنے۔
سنہ 2000 میں حفیظ شیخ پاکستان واپس آئے اور سندھ حکومت میں بطور وزیر خزانہ، منصوبہ بندی اور ترقی اپنے فرائض انجام دیے، بعد ازاں پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے وفاقی وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری کا قلمدان سنبھالا جہاں ان کی بہترین خدمات پر پاکستان کی تاجر برادری نے 2004 میں انہیں ’سال کا بہترین‘ شخص قرار دیا۔
2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں وفاقی وزیر خزانہ تعینات کیا تاہم 2013 کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، ڈاکٹر حفیظ شیخ عالمی سطح پر نامور ماہر معاشی امور ہیں جنہیں معاشی پالیسیاں بنانے کا 30 سال کا تجربہ حاصل ہے۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزارت داخلہ دینے پر تنازع
گزشتہ سال 19 اپریل کو وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ سے وزیر امور پارلیمان کی وزارت لے کر انہیں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔
خیال ہے کہ حکومت نے 29 مارچ کو انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ 2004 سے 2008 تک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رہے، انہوں نے گزشتہ برس عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آئی بی کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جبکہ دسمبر 2007 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اعجاز احمد شاہ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے بریگیڈیئر اعجاز شاہ پر مسلم لیگ قائداعظم اور پی پی پی پیٹریاٹ بنانے میں سہولت فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ کراچی میں وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے ماسٹر مائنڈ عمر سعید شیخ نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ذریعے ہی سرینڈر کیا تھا۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے وزیراعظم کے فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کیا تھا اور اس فیصلے کو وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن قرار دیا تھا جبکہ اعجاز شاہ کا اپوزیشن کے حوالے سے دیا جانے والا بیان ایوان میں مزید ہنگامے کی وجہ بنا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ وزیراعظم عمران خان کے پاس کسی بھی پارلیمانی رہنما کو وزیر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایک متنازع شخص کو وزیر پالیمانی امور کا عہدہ دے کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو مشتعل کیا۔
انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین کا ایسے شخص کے ساتھ بات چیت کرنا بھی مشکل ہوگا جو مبینہ طور پر پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔
پی پی پی رہنما پلوشہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ وہ شخص ہیں جنہوں نے جنرل (ر) مشرف کے لیے کام کیا اور ’ان کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط بھی تھے‘ جبکہ ’بینظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل کی صورت میں انہیں ممکنہ ذمہ دار ٹھہرایا تھا‘۔
علاوہ ازیں پی پی پی کی نفیشہ شاہ نے کہا تھا کہ اعجاز شاہ کے تقرر کے بعد پرویز مشرف اور عمران خان کی کابینہ میں کوئی فرق نہیں رہا، یہ وہی اعجاز شاہ ہیں جن کا پرویزمشرف کے دور میں سیاسی انجینئرنگ میں اہم کردار رہا ہے۔
دوسری جانب پی پی پی کے ان تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری کی سربراہی میں پی پی پی نے 5 سال تک ملک پر حکومت کی، 'اگر میں نے کچھ کیا تھا تو مجھے پھانسی لگا دیتے'۔
اعظم سواتی کا استعفیٰ اور نئی وزارت کا قلمدان
8 اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے باعث اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول بنا دیا گیا تھا۔
اور صرف دو روز بعد ہی اعظم سواتی سے یہ قلمدان واپس لے کر وزیر مملکت برائے سیفران (اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز) شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے انسداد منشیات کا اضافی قلمدان واپس دے دیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں ہی وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں کی جانے والی تبدیلوں میں اعظم سواتی، جو گزشتہ سال سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے، کو دوبارہ وفاقی وزیر کا عہدہ دے دیا گیا تھا، اس مرتبہ انہیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا قلمدان دیا گیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسی حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔
معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا'، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے تھے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا، بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔
29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جس کے بعد 6 دسمبر 2018 کو اعظم سواتی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان کی کابینہ میں واپسی
جون 2017 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی سے 21 سالہ رفاقت کو ختم کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، انہوں نے یہ اعلان اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اعزاز میں دی گئی افطار پارٹی کے موقع پر کیا تھا۔
اس موقع پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے کپتان کو خوش آمدید کہتا ہوں، سینیٹ کی نشست چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت بھی چیلنج تھا، بعد ازاں انہوں نے یکم جولائی 2017 کو رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بابر اعوان نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بذریعہ ڈاک اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا ہے اور استعفے کی تصدیق کے لیے چیئرمین سینیٹ نے جب بھی بلایا حاضر ہو جاؤں گا تاہم بابر اعوان نے اپنے استعفے میں مستعفی ہونے کی وجوہات درج نہیں کیں تھیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے 2011 میں دائر پٹیشن پر دوبارہ سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔
نندی پور پاور منصوبے میں سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) رحمت جعفری پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا، جسٹس (ر) رحمت جعفری نے تحقیقات مکمل کرکے 94 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق نندی پور توانائی منصوبے میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی تکمیل میں مقررہ وقت سے زائد وقت لگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے تاخیر سے مکمل ہونے پر قومی خزانے کو ایک کھرب 13 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا، رپورٹ میں وفاقی وزارتِ قانون کو غلفت کا مرتب قرار دیا گیا تھا جبکہ اس وقت بابر اعوان وفاقی وزیرِ قانون تھے۔
بابر اعوان نے نندی پور توانائی منصوبے کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش ہوکر مؤقف اختیار کیا تھا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بعد ازاں 2018 میں ایسی رپورٹس سامنے آئیں تھیں کہ نیب نے پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے متعلق ریفرنس دائر کردیا، نیب ریفرنس کے مطابق ملزمان کی غفلت کی وجہ سے نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
علاوہ ازیں 9 اگست 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے طلبی کے احکامات جاری کیے تھے۔
12 اگست 2018 کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور متعلقہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد حتمی رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔
جس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند روز بعد ہی 4 ستمبر 2018 کو وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بابر اعوان عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان نے اپنے مستعفی ہونے سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیے تھے جن میں استعفے کی وجوہات اور نیب ریفرنس کے حوالے سے مؤقف پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے استعفے کو وزیراعظم کو پیش کرنے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ دیر قبل ہی وزیراعظم عمران خان سے ملنے پہنچے ہیں۔
بعد ازاں احتساب عدالت میں مذکورہ کیسز کی متعدد سماعتیں ہوئیں اور عدالت نے 25 جون 2019 کو ڈاکٹر بابر اعوان کو نندی پور ریفرنس میں بری کردیا تھا، جس کے بعد 5 جولائی کو نیب نے نندی پور پاور ریفرنس میں تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان اور سابق لا سیکریٹری جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق بابر اعوان کو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے پارلیمانی امور مقرر کیا تھا جس کے بعد ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز نے مشیران اور معاونین کی تعیناتیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
شہزاد اکبر کو اضافی قلمدان سونپ دیا گیا
22 جولائی 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل کرکے انہیں وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے داخلہ و احتساب مقرر کردیا گیا تھا۔
کابینہ سیکریٹریٹ سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر مرزا شہزاد اکبر کو عمران خان کا مشیر برائے احتساب اور داخلہ امور مقرر کیا، اس سے قبل وہ معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ امور اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
قانونی طور پر وزیر اعظم کے مشیر کا عہدہ وفاقی وزیر اور معاون خصوصی کا وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعطم کے معاون خصوصی مقرر ہونے سے قبل شہزاد اکبر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کرتے تھے جبکہ انہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں بطور معاون بھی کام کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزاد اکبر جب معاون خصوصی برائے احتساب مقرر تھے تو اپوزیشن جماعتون کی جانب سے ان پر نیب کیسز اور نیب کے دیگر معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا تھا علاوہ ازیں 12 اگست 2020 کو لاہور کی مقامی عدالت میں کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے درخواست فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی، جس میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ان پر ہونے والے 'حملے' کے الزام میں وزیراعظم عمران خان، مشیر داخلہ شہزاد اکبر سمیت دیگر کے خلاف مقدمے کے اندراج کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 6 اگست کو نیب نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کو 200 کنال اراضی غیرقانونی طور پر اپنے نام کرانے کے الزام میں طلب کرتے ہوئے انہیں 11 اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی تاہم پیشی کے موقع پر بد نظمی دیکھنے میں آئی تھی اور پولیس اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
شہریار آفریدی کے قلمدان میں تبدیلی
اگست 2018 میں حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے اپنی کابینہ میں شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ کا عہدہ سونپا تھا تاہم اپریل 2019 میں کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق شہریار آفریدی کو ریاستی اور سرحدی علاقوں (سیفرون) کے وزیر مقرر گیا تھا جبکہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے داخلہ بتا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اپریل میں 2020 میں کابینہ میں اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی تھیں اور وزیراعظم عمران خان نے کئی وزرا کے قلمدان تبدیل کردیے تھے، ان تبدیلیوں کو آٹا چینی بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ سے منسلک کیا جارہا تھا۔
ان تبدیلیوں میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات کا عہدہ تفویض کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی وزیراعظم نے شہریار آفریدی سے وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس لے لیا تھا جس کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن نے 8 اپریل کو جاری کیا تھا۔
تاہم ایک روز بعد ہی مذکورہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور 9 اپریل کو نیا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے سیفران کو وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس دے دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس میں وزیر مملکت شہریار آفریدی کو خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
بعد ازاں 14 مئی 2020 کو ملک کی 3 بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی جانب سے واک آؤٹ کے بعد ایک متنازع عمل کے دوران شہریار آفریدی کو کشمیر امور پر قائم پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
یہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کمیٹی کے سربراہ کے لیے انتخابات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ کمیٹی کا چیئرمین کوئی ایسا تجربہ کار فرد ہونا چاہیے جسے مسئلہ کشمیر کی وسیع معلومات ہونی چاہیے۔
ان سب معاملات کے علاوہ ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے متعدد مرتبہ تنقید کا باعث بنا اور وہ معاملہ تھا جہانگیر ترین کے سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے کے باوجود ان کی کابینہ کے اجلاسوں میں شمولیت اور مبینہ طور پر فیصلوں پر اثر انداز ہونا، بعد ازاں چینی بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں ان کے گروپ کو نامزد بھی کیا گیا۔
ویسے تو وہ کابینہ کا حصہ نہیں تھے لیکن ان کے معاملے کی نزاکت کے باعث اس رپورٹ میں اپنے قارئین کے لیے اس کا مختصر احاطہ کیا گیا ہے۔
جہانگیر ترین کا معاملہ
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو اثاثہ جات سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق جنرل سیکریٹری نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی لیکن 27 ستمبر 2018 کو وہ بھی مسترد کردی گئی تھی۔
بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید جارہی تھی کہ ایک نااہل شخص ان کی کابینہ کے اجلاس میں موجود ہوتا ہے اور وہ فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، جس پر مارچ 2019 میں پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت کو پارٹی کا کارکن ذہنی طور پر قبول نہیں کر پارہا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 'میں ان سے کہوں گا کہ میرے بھائی جب آپ حکومتی اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو مریم اورنگزیب کو پریس کانفرنس کا موقع ملتا ہے اور مسلم لیگ (ن) سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہینِ عدالت نہیں تو کیا ہے؟'
شاہ محمود قریشی کے بیان کے فوری بعد پارٹی رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں دوسروں کی حیرت انگیز وجوہات کی پروا نہیں، 'میری زندگی میں صرف ایک ایسا شخص ہے جنہیں میں اپنا لیڈر مانتا ہوں اور انہی کو جوابدہ ہوں، وہ لیڈر عمران خان ہیں'۔
واضح رہے کہ مذکورہ معاملے کے بعد بھی جہانگیر ترین حکومت کے اہم اجلاسوں کا حصہ بنتے رہے تاہم چینی کے بحران سے متعلق انکوائری کے آغاز اور اس رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وہ منظر عام سے تقریباً غائب ہوگئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ رپورٹ میں جہاں دیگر گروہوں اور افراد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا وہاں جہانگیر ترین گروپ کو بھی سبسڈی حاصل کرنے والے گروہوں میں پیش پیش قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
ان سب الزامات کو جہانگیر ترین نے مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ ان کے وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں۔
7 اپریل 2020 کو نجی چینل 'سماء نیوز' کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ 'میں پاکستان کی 20 فیصد چینی ضرور بناتا ہوں لیکن اس کے پیچھے 30 سال کی محنت ہے، ای سی سی کا اکتوبر 2018 کا اجلاس اسد عمر کی زیر صدارت ہوا جس میں 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی، اسد عمر سے چینی کی برآمد پر کوئی بات نہیں کی، میرا شوگر مارکیٹ میں 20 فیصد شیئر اور 6 ملیں ضرور ہیں لیکن 74 اور ملیں بھی ہیں'۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'رپورٹ تیار کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے، اس رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، حکومت پالیسی بناتی ہے جس پر عمل کرکے مل مالکان سبسڈی حاصل کرتے ہیں جبکہ سبسڈی منافع نہیں ہوتی'.
4 مئی کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی نکل آئے جہانگیر ترین تحریک انصاف کی مخالفت نہیں کریں گے۔
بعد ازاں جون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چینی اسکینڈل کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے ’خاموشی‘ سے لندن روانہ ہونے پر سوالات اٹھائے تھے۔
پاکستان میں چینی اور گندم بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے دو روز بعد ہی وفاقی کابینہ میں رد و بدل کیا گیا اور وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا دیا گیا اور انہیں اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا اور ان کی جگہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کو مذکورہ وزارت دے دی گئی۔
اسی طرح حماد اظہر سے وزیر اقتصادی امور واپس لے کر انہیں وزیر صنعت کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا۔
کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول تاہم ان سے دو روز بعد ہی واپس لے لی گئی تھی، وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ بابر اعوان کو مشیر پارلیمانی امور مقرر کردیا گیا۔
خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق کابینہ میں شامل
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کو دیکھ رہے تھے۔
12 جنوری 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کے ساتھ ہی حکومتی و پی ٹی آئی کے نمائندوں نے ایم کیو ایم کنوینر سے کابینہ میں واپسی کے لیے متعدد ملاقاتیں کی تھیں تاہم خالد مقبول اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔
خالد مقبول صدیقی نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورا کریں گے تاہم میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کا حصہ بنے تو ہم پر یہ لازم تھا کہ 50 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت کے سامنے رکھتے' اور 'پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے'۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہم نے تحریک انصاف سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو حکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے'۔
بعد ازاں 6 اپریل 2020 کو وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، ساتھ ہی خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا تھا۔
22 اپریل 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما امین الحق نے خالد مقبول صدیقی کی جگہ وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں، اس سے قبل وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزیر مواصلات مقرر کیا تھا۔
اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے امین الحق کو ذمہ داریاں سونپنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق امین الحق کو وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کا قلمدان سونپا گیا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق عام انتخابات 2018 میں کراچی کے حلقہ 251 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی کابینہ میں متعدد مرتبہ واپسی
ویسے تو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پہلے دور حکومت کے دو سال کے دوران جس بھی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی کو کسی خاص عہدے سے ہٹایا تو اسے واپس یہ عہدہ نہیں دیا گیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم وہ واحد فرد ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر استعفیٰ دیا لیکن انہیں ہر مرتبہ کچھ ہی دن یا ہفتوں بعد ان کی وزارت واپس کردی گئی۔
آخری مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم نے 24 جولائی 2020 کو وفاقی وزیر قانون و انصاف کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، یہ تیسری مرتبہ تھا کہ فروغ نسیم، وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ بنے تھے۔
اس مرتبہ تقریباً 7 ہفتوں بعد ان کی دوبارہ وفاقی کابینہ میں واپسی ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں حکومتی نمائندگی کے لیے یکم جون 2020 کو وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
تاہم 20 جون کو سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو (1-9) کی اکثریت سے 'کالعدم' قرار دے دیا تھا جس کے بعد فروغ نسیم واپس کابینہ کا حصہ بن گئے۔
اس سے قبل فروغ نسیم نے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں نمائندگی کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
وہ اس کیس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک روز بعد ہی 29 نومبر کو دوبارہ وزیر قانون کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا۔
فروغ نسیم کو وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔
فواد چوہدری کی جگہ شبلی فراز، فردوس عاشق اعوان کی جگہ لیفٹیننٹ عاصم باجوہ کا انتخاب
اپریل 2019 میں حکومت نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے فواد چوہدری سمیت متعدد وزرا کے قلمدان تبدیل کردیئے تھے۔
وزیراعظم ہاؤس کے مطابق مجموعی طور 6 وفاقی وزارتوں کے قلمدان میں ردوبدل کیا گیا تھا، فواد چوہدری سے اطلاعات و نشریات کی وزارت واپس لے کر انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے کئی وزرا کو اپنا معاون خصوصی بھی مقرر کیا، جن میں فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات و نشریات ڈویژن کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔
ان تبدیلیوں کے تقریباً ایک سال بعد ہی اپریل 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان سے عہدہ واپس لے کر ان کی جگہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم کا نیا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا۔
اس موقع پر فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا، ایک سال کے عرصے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کی جبکہ میں وزیر اعظم کے فیصلے کا احترام کرتی ہوں'۔
بعد ازاں نجی نیوز چینل کو ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وزرات میں ایک وقت میں بہت سے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جس کی وجہ سے ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا۔
واضح رہے کہ فردوس عاشق اعوان کے عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں کہا جا رہا تھا کہ ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کا باعث بنی تاہم شبلی فراز نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسی کسی رپورٹ کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2019 میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ نیب نے سابق وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما فردوس عاشق اعوان کے اثاثہ جات کی چھان بین شروع کرتے ہوئے جائیدادوں کا ریکارڈ ایل ڈی اے سے طلب کر لیا۔
یاد رہے کہ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی میں وفاقی وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں، بعد ازاں وہ عام انتخابات میں شکست کھانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئی تھیں۔
سیاسی جماعت تبدیل کرنے کے باوجود 2018 کے عام انتخابات میں بھی اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم انہیں گزشتہ سال 18 اپریل کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا گیا تھا، اس طرح وہ ایک سال 9 روز اس عہدے پر براجمان رہیں، اور عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے وہ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے معروف شاعر فراز احمد فراز کے صاحبزادے سینیٹر شبلی فراز کو اگست 2018 میں سینیٹ میں قائدِ ایوان مقرر کیا تھا، وہ شبلی فراز 2015 میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خیبرپختونخوا سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
شبلی فراز ایوان بالا میں قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل اور تجارت اور قائمہ کمیٹی برائے گردشی قرضہ کے چیئرمین کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
ادھر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ریٹائرمنٹ سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، ڈی جی آرمز اور کمانڈر سدرن کمانڈ سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔
گزشتہ سال نومبر میں وفاقی حکومت نے انہیں پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرپرسن مقرر کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 20 جولائی 2020 کو کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کیں تھیِ، جس کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ 8 جائیدادیں رکھتے ہیں جس میں ایک گھر، پلاٹس، کمرشل پلاٹس اور (65 ایکڑز) زرعی زمین ہے، جس کی مالیت تقریباً 15 کروڑ روپے ہے۔
اسد عمر کا وزیر خزانہ سے وزیر منصوبہ بندی و اقدامات تک کا سفر
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو حلف اٹھائے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ 18 اپریل 2019 کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ کا حصہ بھی نہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسد عمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کابینہ میں ردوبدل کے نتیجے میں چاہتے ہیں کہ میں وزارت خزانہ کی جگہ توانائی کا قلمدان سنبھال لوں لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لوں گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشااللہ نیا پاکستان ضرور بنے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد عمر کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ایک ہفتے قبل ہی وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو کے لیے واشنگٹن گئے تھے اور ان کی وہاں عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
تاہم اسی دورے کے دوران ان کو عہدے سے ہٹائے جانے اور کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں جسے حکومت نے مسترد کردیا تھا۔
ان کے مستعفی ہونے کے چند ماہ بعد نومبر 2019 میں وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا تھا کہ وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردو بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو دوبارہ وزارت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل، اسد عمر کو منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات جبکہ خسرو بختیار کو پیٹرولیم کا وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے’ اور ‘اس ضمن میں نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا’۔
بعد ازاں 19 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے وفاقی وزیر کے عہدے کا دوبارہ حلف اٹھایا تھا اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی بننے کے بعد اسد عمر وفاقی کابینہ کا دوبارہ حصہ بن گئے تھے۔
عبدالحفیظ شیخ کے مشیر مقرر کیے جانے پر تنازع
اپریل 2019 میں اسد عمر کے وزارت خزانہ سے مستعفی ہونے کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو اور معاشی امور تعینات کرنے کی منظوری دی تھی تاہم اس تعیناتی پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ پرویز مشرف کی کابینہ کے تمام اراکین کو عمران خان نے اپنی کابینہ کا حصہ بنالیا ہے۔
علاوہ ازیں عبدالحفیظ شیخ کی تعیناتی کو عدالت میں بھی چیلنج کیا گیا۔
8 جولائی 2019 کو اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے اختیارات کم کرتے ہوئے ان سے ریونیو ڈویژن کا قلمدان واپس لے لیا تاہم وہ وزیر اعظم کے مشیر برائے مالیاتی و اقتصادی امور کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔
ایک روز بعد ہی کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے حماد اظہر کو وزیر اقتصادی امور مقرر کیا ہے کہ جبکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کو مالیات کا قلمدان واپس کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، مالیات بتا دیا گیا جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے عبدالنبی شیخ کے صاحبزادے عبدالحفیظ شیخ سندھ کے شہر جیکب آباد میں پیدا ہوئے اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا منتقل ہوئے جہاں انہوں نے بوسٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا جس کے بعد انہوں نے 1984 میں وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے ورلڈ بینک کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے عالمی بینک کے معاشی آپریشنز برائے سعودی عرب کے صدر بنے۔
سنہ 2000 میں حفیظ شیخ پاکستان واپس آئے اور سندھ حکومت میں بطور وزیر خزانہ، منصوبہ بندی اور ترقی اپنے فرائض انجام دیے، بعد ازاں پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے وفاقی وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری کا قلمدان سنبھالا جہاں ان کی بہترین خدمات پر پاکستان کی تاجر برادری نے 2004 میں انہیں ’سال کا بہترین‘ شخص قرار دیا۔
2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں وفاقی وزیر خزانہ تعینات کیا تاہم 2013 کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، ڈاکٹر حفیظ شیخ عالمی سطح پر نامور ماہر معاشی امور ہیں جنہیں معاشی پالیسیاں بنانے کا 30 سال کا تجربہ حاصل ہے۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزارت داخلہ دینے پر تنازع
گزشتہ سال 19 اپریل کو وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ سے وزیر امور پارلیمان کی وزارت لے کر انہیں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔
خیال ہے کہ حکومت نے 29 مارچ کو انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ 2004 سے 2008 تک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رہے، انہوں نے گزشتہ برس عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آئی بی کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جبکہ دسمبر 2007 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اعجاز احمد شاہ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
وزیر داخلہ پنجاب کی حیثیت سے بریگیڈیئر اعجاز شاہ پر مسلم لیگ قائداعظم اور پی پی پی پیٹریاٹ بنانے میں سہولت فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جبکہ کراچی میں وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے ماسٹر مائنڈ عمر سعید شیخ نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے ذریعے ہی سرینڈر کیا تھا۔
بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے وزیراعظم کے فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کیا تھا اور اس فیصلے کو وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن قرار دیا تھا جبکہ اعجاز شاہ کا اپوزیشن کے حوالے سے دیا جانے والا بیان ایوان میں مزید ہنگامے کی وجہ بنا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ وزیراعظم عمران خان کے پاس کسی بھی پارلیمانی رہنما کو وزیر منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایک متنازع شخص کو وزیر پالیمانی امور کا عہدہ دے کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو مشتعل کیا۔
انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین کا ایسے شخص کے ساتھ بات چیت کرنا بھی مشکل ہوگا جو مبینہ طور پر پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔
پی پی پی رہنما پلوشہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ وہ شخص ہیں جنہوں نے جنرل (ر) مشرف کے لیے کام کیا اور ’ان کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط بھی تھے‘ جبکہ ’بینظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل کی صورت میں انہیں ممکنہ ذمہ دار ٹھہرایا تھا‘۔
علاوہ ازیں پی پی پی کی نفیشہ شاہ نے کہا تھا کہ اعجاز شاہ کے تقرر کے بعد پرویز مشرف اور عمران خان کی کابینہ میں کوئی فرق نہیں رہا، یہ وہی اعجاز شاہ ہیں جن کا پرویزمشرف کے دور میں سیاسی انجینئرنگ میں اہم کردار رہا ہے۔
دوسری جانب پی پی پی کے ان تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری کی سربراہی میں پی پی پی نے 5 سال تک ملک پر حکومت کی، 'اگر میں نے کچھ کیا تھا تو مجھے پھانسی لگا دیتے'۔
اعظم سواتی کا استعفیٰ اور نئی وزارت کا قلمدان
8 اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے باعث اعظم سواتی کی وزارت بھی تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزیر پارلیمانی امور کی بجائے وزیر نارکوٹکس کنٹرول بنا دیا گیا تھا۔
اور صرف دو روز بعد ہی اعظم سواتی سے یہ قلمدان واپس لے کر وزیر مملکت برائے سیفران (اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز) شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے انسداد منشیات کا اضافی قلمدان واپس دے دیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں ہی وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں کی جانے والی تبدیلوں میں اعظم سواتی، جو گزشتہ سال سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے، کو دوبارہ وفاقی وزیر کا عہدہ دے دیا گیا تھا، اس مرتبہ انہیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا قلمدان دیا گیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسی حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔
معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا'، انہوں نے مزید ریمارکس دیئے تھے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا، بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔
29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جس کے بعد 6 دسمبر 2018 کو اعظم سواتی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان کی کابینہ میں واپسی
جون 2017 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی سے 21 سالہ رفاقت کو ختم کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، انہوں نے یہ اعلان اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اعزاز میں دی گئی افطار پارٹی کے موقع پر کیا تھا۔
اس موقع پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے کپتان کو خوش آمدید کہتا ہوں، سینیٹ کی نشست چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت بھی چیلنج تھا، بعد ازاں انہوں نے یکم جولائی 2017 کو رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بابر اعوان نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بذریعہ ڈاک اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا ہے اور استعفے کی تصدیق کے لیے چیئرمین سینیٹ نے جب بھی بلایا حاضر ہو جاؤں گا تاہم بابر اعوان نے اپنے استعفے میں مستعفی ہونے کی وجوہات درج نہیں کیں تھیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے 2011 میں دائر پٹیشن پر دوبارہ سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔
نندی پور پاور منصوبے میں سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) رحمت جعفری پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا، جسٹس (ر) رحمت جعفری نے تحقیقات مکمل کرکے 94 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے مطابق نندی پور توانائی منصوبے میں سست روی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس کی تکمیل میں مقررہ وقت سے زائد وقت لگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے تاخیر سے مکمل ہونے پر قومی خزانے کو ایک کھرب 13 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا، رپورٹ میں وفاقی وزارتِ قانون کو غلفت کا مرتب قرار دیا گیا تھا جبکہ اس وقت بابر اعوان وفاقی وزیرِ قانون تھے۔
بابر اعوان نے نندی پور توانائی منصوبے کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش ہوکر مؤقف اختیار کیا تھا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بعد ازاں 2018 میں ایسی رپورٹس سامنے آئیں تھیں کہ نیب نے پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے متعلق ریفرنس دائر کردیا، نیب ریفرنس کے مطابق ملزمان کی غفلت کی وجہ سے نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر ہوئی جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
علاوہ ازیں 9 اگست 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے طلبی کے احکامات جاری کیے تھے۔
12 اگست 2018 کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نندی پور توانائی منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور متعلقہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد حتمی رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔
جس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند روز بعد ہی 4 ستمبر 2018 کو وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بابر اعوان عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بابر اعوان نے اپنے مستعفی ہونے سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیے تھے جن میں استعفے کی وجوہات اور نیب ریفرنس کے حوالے سے مؤقف پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھے گئے استعفے کو وزیراعظم کو پیش کرنے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ دیر قبل ہی وزیراعظم عمران خان سے ملنے پہنچے ہیں۔
بعد ازاں احتساب عدالت میں مذکورہ کیسز کی متعدد سماعتیں ہوئیں اور عدالت نے 25 جون 2019 کو ڈاکٹر بابر اعوان کو نندی پور ریفرنس میں بری کردیا تھا، جس کے بعد 5 جولائی کو نیب نے نندی پور پاور ریفرنس میں تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان اور سابق لا سیکریٹری جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
اپریل 2020 کو کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق بابر اعوان کو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے پارلیمانی امور مقرر کیا تھا جس کے بعد ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز نے مشیران اور معاونین کی تعیناتیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
شہزاد اکبر کو اضافی قلمدان سونپ دیا گیا
22 جولائی 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل کرکے انہیں وزیراعظم عمران خان کا مشیر برائے داخلہ و احتساب مقرر کردیا گیا تھا۔
کابینہ سیکریٹریٹ سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر مرزا شہزاد اکبر کو عمران خان کا مشیر برائے احتساب اور داخلہ امور مقرر کیا، اس سے قبل وہ معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ امور اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
قانونی طور پر وزیر اعظم کے مشیر کا عہدہ وفاقی وزیر اور معاون خصوصی کا وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعطم کے معاون خصوصی مقرر ہونے سے قبل شہزاد اکبر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی پیروی کرتے تھے جبکہ انہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں بطور معاون بھی کام کیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزاد اکبر جب معاون خصوصی برائے احتساب مقرر تھے تو اپوزیشن جماعتون کی جانب سے ان پر نیب کیسز اور نیب کے دیگر معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا تھا علاوہ ازیں 12 اگست 2020 کو لاہور کی مقامی عدالت میں کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے درخواست فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی، جس میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ان پر ہونے والے 'حملے' کے الزام میں وزیراعظم عمران خان، مشیر داخلہ شہزاد اکبر سمیت دیگر کے خلاف مقدمے کے اندراج کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 6 اگست کو نیب نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کو 200 کنال اراضی غیرقانونی طور پر اپنے نام کرانے کے الزام میں طلب کرتے ہوئے انہیں 11 اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی تاہم پیشی کے موقع پر بد نظمی دیکھنے میں آئی تھی اور پولیس اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
شہریار آفریدی کے قلمدان میں تبدیلی
اگست 2018 میں حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے اپنی کابینہ میں شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ کا عہدہ سونپا تھا تاہم اپریل 2019 میں کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق شہریار آفریدی کو ریاستی اور سرحدی علاقوں (سیفرون) کے وزیر مقرر گیا تھا جبکہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر برائے داخلہ بتا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اپریل میں 2020 میں کابینہ میں اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی تھیں اور وزیراعظم عمران خان نے کئی وزرا کے قلمدان تبدیل کردیے تھے، ان تبدیلیوں کو آٹا چینی بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ سے منسلک کیا جارہا تھا۔
ان تبدیلیوں میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات کا عہدہ تفویض کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی وزیراعظم نے شہریار آفریدی سے وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس لے لیا تھا جس کا نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن نے 8 اپریل کو جاری کیا تھا۔
تاہم ایک روز بعد ہی مذکورہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور 9 اپریل کو نیا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے سیفران کو وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات کا اضافی پورٹ فولیو واپس دے دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس میں وزیر مملکت شہریار آفریدی کو خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
بعد ازاں 14 مئی 2020 کو ملک کی 3 بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی جانب سے واک آؤٹ کے بعد ایک متنازع عمل کے دوران شہریار آفریدی کو کشمیر امور پر قائم پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
یہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کمیٹی کے سربراہ کے لیے انتخابات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ کمیٹی کا چیئرمین کوئی ایسا تجربہ کار فرد ہونا چاہیے جسے مسئلہ کشمیر کی وسیع معلومات ہونی چاہیے۔
ان سب معاملات کے علاوہ ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے متعدد مرتبہ تنقید کا باعث بنا اور وہ معاملہ تھا جہانگیر ترین کے سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے کے باوجود ان کی کابینہ کے اجلاسوں میں شمولیت اور مبینہ طور پر فیصلوں پر اثر انداز ہونا، بعد ازاں چینی بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں ان کے گروپ کو نامزد بھی کیا گیا۔
ویسے تو وہ کابینہ کا حصہ نہیں تھے لیکن ان کے معاملے کی نزاکت کے باعث اس رپورٹ میں اپنے قارئین کے لیے اس کا مختصر احاطہ کیا گیا ہے۔
جہانگیر ترین کا معاملہ
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو اثاثہ جات سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق جنرل سیکریٹری نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی لیکن 27 ستمبر 2018 کو وہ بھی مسترد کردی گئی تھی۔
بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید جارہی تھی کہ ایک نااہل شخص ان کی کابینہ کے اجلاس میں موجود ہوتا ہے اور وہ فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے، جس پر مارچ 2019 میں پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین کی حکومتی اجلاس میں شرکت کو پارٹی کا کارکن ذہنی طور پر قبول نہیں کر پارہا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 'میں ان سے کہوں گا کہ میرے بھائی جب آپ حکومتی اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو مریم اورنگزیب کو پریس کانفرنس کا موقع ملتا ہے اور مسلم لیگ (ن) سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہینِ عدالت نہیں تو کیا ہے؟'
شاہ محمود قریشی کے بیان کے فوری بعد پارٹی رہنما جہانگیر ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں دوسروں کی حیرت انگیز وجوہات کی پروا نہیں، 'میری زندگی میں صرف ایک ایسا شخص ہے جنہیں میں اپنا لیڈر مانتا ہوں اور انہی کو جوابدہ ہوں، وہ لیڈر عمران خان ہیں'۔
واضح رہے کہ مذکورہ معاملے کے بعد بھی جہانگیر ترین حکومت کے اہم اجلاسوں کا حصہ بنتے رہے تاہم چینی کے بحران سے متعلق انکوائری کے آغاز اور اس رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وہ منظر عام سے تقریباً غائب ہوگئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ رپورٹ میں جہاں دیگر گروہوں اور افراد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا وہاں جہانگیر ترین گروپ کو بھی سبسڈی حاصل کرنے والے گروہوں میں پیش پیش قرار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
ان سب الزامات کو جہانگیر ترین نے مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ ان کے وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں۔
7 اپریل 2020 کو نجی چینل 'سماء نیوز' کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ 'میں پاکستان کی 20 فیصد چینی ضرور بناتا ہوں لیکن اس کے پیچھے 30 سال کی محنت ہے، ای سی سی کا اکتوبر 2018 کا اجلاس اسد عمر کی زیر صدارت ہوا جس میں 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی، اسد عمر سے چینی کی برآمد پر کوئی بات نہیں کی، میرا شوگر مارکیٹ میں 20 فیصد شیئر اور 6 ملیں ضرور ہیں لیکن 74 اور ملیں بھی ہیں'۔
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'رپورٹ تیار کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے، اس رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، حکومت پالیسی بناتی ہے جس پر عمل کرکے مل مالکان سبسڈی حاصل کرتے ہیں جبکہ سبسڈی منافع نہیں ہوتی'.
4 مئی کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی نکل آئے جہانگیر ترین تحریک انصاف کی مخالفت نہیں کریں گے۔
بعد ازاں جون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چینی اسکینڈل کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے ’خاموشی‘ سے لندن روانہ ہونے پر سوالات اٹھائے تھے۔