بالوں سے محرومی بھی کووڈ 19 کی طویل المعیاد علامت قرار

حال ہی میں ایک امریکی اداکارہ نے لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی وبا کو سنجیدگی سے لیں اور انکشاف کیا تھا کہ اس کا شکار ہونے کے کئی ماہ بعد اب ان کے بال گچھوں کی شکل میں ٹوٹ کر گررہے ہیں۔
ایلسا میلانو میں مارچ میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور رواں ماہ یعنی 5 مہینے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں انہوں نے بال ٹوٹتے ہوئے دکھائے۔
کورونا وائرس سے صحتیاب افراد میں تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات اور پٹھوں کی کمزوری جیسے طویل المعیاد اثرات کی کسی حد تک تصدیق ہوچکی ہے، مگر اب طبی ماہرین نے اب خبردار کیا ہے کہ بالوں کا گرنا بھی اس وبائی مرض کا طویل المعیاد اثر ہوسکتا ہے۔
برٹش ایسوسی ایشن آف ڈرماٹولوجسٹ (بی اے ڈی) نے حالیہ مہینوں کے دوران ایسے مریضوں کی بہت زیادہ تعداد کو رپورٹ کیا ہے، جن کو ڈرامائی انداز سے بالوں کی محرومی کا سامنا کووڈ 19 کی علامات کے بعد ہوا۔
بی اے ڈی کے مطابق وائرس سے بالوں کی جڑوں پر طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ابھی بھی کچھ معلوم نہیں۔
بی اے ڈی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شیرون وونگ کا کہنا تھا کہ مریضوں کو ایک عارضے ٹیلوجین ایفیویوم (اس میں تناؤ، صدمے یا شاک کے نتیجے میں بال گرنے لگتے ہیں) کا سامنا ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ اور اپریل میں جن مریضوں میں کووڈ 19 کی علامات سامنے آئی تھیں، ان میں سے کچھ کو جون اور جولائی کے دوران بالوں کے جھڑنے کے مسئلے کا سامنا ہوا۔
ان کا کہنا تھا 'ایسے بیشتر افراد میں ٹیلوجین ایفیویوم کی تشخیص میں نے کی ہے، ہمیں دیکھنا ہوگا یہ کووڈ سے منسلک ہے یا وبا سے جڑے تناؤ اور بیماریوں کا نتیجہ ہے، کیونکہ کئی ماہ بعد یہ مسئلہ سامنے آتا ہے'۔
تحقیقی رپورٹس میں بھی وبا اور بالوں سے محرومی کے تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
امریکا کے انڈیانا یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے محققین نے ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد کے سروے میں دریافت کیا کہ ایک تہائی افراد کو کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثر کے طور پر بالوں سے محرومی کے مسئلے کا سامنا ہے۔
یہ اثر عموماً عارضی ہوتا ہے اور بالوں کے گرنے کا معمول کا چکر 6 ماہ میں بحال ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا 'یہ ابتدائی دن ہیں اور یہ نیا وائرس ہے'۔
ان کے بقول وہ اب مریضوں کی مانیٹرنگ طویل عرصے تک کرکے بالوں پر وائرس کے اصل اثرات کا تجزیہ کریں گی۔