ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ مسترد، ادارہ فرائض سرانجام دیتا رہے گا، نیب
قومی احتساب بیورو (نیب) نے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) سے متعلق میڈیا رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیتا رہے گا۔
نیب نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ میاں جاوید احمد کا عدالتی تحویل میں کیمپ جیل لاہور میں انتقال ہوا، وہ نیب کی تحویل میں نہیں تھے اس لیے نیب کے حوالے سے شائع شدہ اطلاعات مکمل طور پر غلط ہیں اور ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ میاں جاوید احمد پروفیسر نہیں تھے بلکہ ایک غیر قانونی کیمپس کے مالک تھے جو سرگودھا یونیورسٹی کا نام غلط طریقے سے استعمال کر رہا تھا، ان کے خلاف سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی تھی کہ وہ یونیورسٹی کے نام اور انداز میں غیر قانونی کیمپس چلا رہے ہیں۔
بیورو نے کہا کہ یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ میاں جاوید نے معصوم طلبا سے لاکھوں روپے بٹورے اور انہیں خواب دکھایا کہ وہ تعلیمی سال مکمل ہونے پر انہیں ڈگری دیں گے جو کہ انہیں کبھی نہیں دی گئی، اس لیے انہوں نے قابل تعزیر جرم کیا جس کی حقیقت 21 دسمبر 2018 کو اخبارات میں شائع کی گئی۔
بیان میں سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران سے متعلق الزامات کو بھی بے بنیاد اور غلط قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ الزامات من گھڑت اور بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔
بیورو نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ نیب نے لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات پر مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کی انکوائری شروع کی، نیب کو یہ شکایت ہائی کورٹ کے 27 اکتوبر 2016 کے فیصلے کے ذریعے بھیجی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ سابق وائس چانسلر نے مبینہ طور پر سابق رجسٹرار کے ساتھ مل کر 2013 سے 2016 کے درمیان یونیورسٹی میں گریڈ 17، 18 اور 19 میں 550 غیر قانونی بھرتیاں کیں۔
یہ بھرتیاں کنٹریکٹ پر کی گئیں اور کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد ان کو دوبارہ کنٹریکٹ دیا گیا اور پھر اکثریت کو مرحلہ وار بنیادوں پر مستقل کیا گیا۔
شکایت کے مطابق کامران مجاہد نے مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کے لیے ہنگامی اختیارات استعمال کیے، تاہم لاہور ہائی کورٹ کے جج اﷲ نواز کے فیصلے کے مطابق ہنگامی اختیارات جنگ، قدرتی آفت یا سینڈیکیٹ کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ نیب کی تحویل میں سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور نے نیب کے خلاف بعض بے بنیاد الزامات لگائے جو کہ ان کے دوسرے ساتھیوں نے نہیں لگائے جو کہ اسی نیب کی تحویل میں تھے۔
بیورو نے ان کے الزامات کے بعد چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی ہدایات پر ان کی اہلیہ کی قیادت میں پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز کے ایک گروپ کو دعوت دی اور انہیں حقیقی زمینی صورتحال سے آگاہ کیا کیونکہ نیب قانون کے مطابق ہر شخص کی عزت نفس کا احترام کرتا ہے، پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز کے ایک وفد نے نیب پر لگائے گئے غلط الزامات پر معافی مانگی۔
بعد میں نیب نے انسانی حقوق کے بارے میں قومی کمیشن (این سی ایچ آر) کے وفد کو دعوت دی جس نے چیئرمین این سی ایچ آر جسٹس علی نواز کی قیادت میں نیب لاہور کے دفتر کا دورہ کیا، این سی ایچ آر کے وفد کو نیب لاہور کے دورے کے دوران تحویل میں لیے گئے ملزمان کو فراہم کی گئی سہولیات سے متعلق آگاہ کیا۔
انسانی حقوق سے متعلق قومی کمیشن نے نیب کی تحویل میں ملزمان کو فراہم کی گئی سہولیات پر اطمینان کا اظہار کیا، تاہم نیب لاہور نے تمام بڑے میڈیا اداروں کے سینئر صحافیوں کو بھی دعوت دی، انہوں نے بھی نیب لاہور کی جانب سے فراہم کی گئی سہولیات پر اطمینان ظاہر کیا اور کامران مجاہد کے الزامات کو مسترد کر دیا۔
اس کے بعد نیب نے احتساب عدالت لاہور میں کامران مجاہد اور دیگر کے خلاف بدعنوانی کا ریفرنس دائر کیا جو عدالتی معاملہ ہے۔
نیب نے جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن سے متعلق الزامات کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ احتساب بیورو، میڈیا کی آزادی پر بھرپور یقین رکھتا ہے اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیتا رہے گا۔
وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ نیب نے کئی بار میڈیا سے درخواست کی ہے کہ وہ انکوائریوں، جاری تحقیقات اور ریفرنسز میں قانون کے مطابق نیب کا نکتہ نظر حاصل کیے بغیر قیاس آرائیوں سے گریز کرے، جبکہ نیب قانونی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ نیب کا یہ بیان ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے پی ٹی آئی کی حکومت سے اس مطالبے کے بعد سامنے آیا کہ وہ 'اپنے ناقدین کو حراست میں لینے کے لیے نیب کا استعمال بند کرے' اور کہا کہ ملک کی پارلیمنٹ کو احتساب ادارے کو آزاد بنانے کے لیے اصلاحات کرنی چاہیئیں۔
اپنے بیان میں ایچ آر ڈبلیو کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو نیب کے ان عہدیداران و حکام کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کرنی چاہیے جو غیر قانونی گرفتاریوں کے ذمہ دار ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ 'پاکستانی انتظامیہ آمریت کے دور میں قائم ہونے والے ادارے کا مخالفین کو دبانے اور انہیں ہراساں کرنے کے لیے استعمال بند ہونا چاہیے۔