پاکستان

اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود قائمہ کمیٹی سے ایف اے ٹی ایف سے متعلق بل منظور

پارلیمانی پینل نے اکثریتی ووٹ کے ساتھ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اینٹی منی لانڈرنگ سے متعلق متنازع بل منظور کر لیا۔

اسلام آباد: حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے احتجاج کے دوران پیر کو پارلیمانی پینل کے ذریعے اکثریتی ووٹ کے ساتھ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اینٹی منی لانڈرنگ (دوسری ترمیم) سے متعلق متنازع بل منظور کر لیا۔

تحریک انصاف کے فیض اللہ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو نے اصل شیڈول سے قبل طلب کیے گئے اجلاس محض چند منٹوں کے اندر 9 ووٹوں کی اکثریت سے بل منظور کیا۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گھر صاف کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، مشاہد حسین

جمعہ کو حزب اختلاف کے اراکین نے حکومتی بل پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے تھے اور اکثریت سے بل کی منظوری کے خلاف مزاحمت کی تھی اور حکومت کو پیر کو ایک اور اجلاس بلانے پر مجبور کیا گیا تھا۔

اجلاس میں موجود پی ٹی آئی کے 9 اراکین نے حق میں ووٹ دیا اور مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں سے ہر ایک کے تین تین اراکین نے بل کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے مجوزہ قانون کو سخت اور عوامی مفاد کے خلاف قرار دیا۔

چیئرمین نے اعلان کیا کہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ (دوسری ترمیم) بل 2020 قومی اسمبلی کے ذریعے منظور کیا جائے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں مجوزہ قانون پر اعتراضات پیدا ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف سے متعلق دو حکومتی بل قومی اسمبلی کی کمیٹی سے منظور

بل کے تحت منی لانڈرنگ پر جرمانہ، افراد کے لیے پچاس لاکھ سے بڑھا کر ڈھائی کروڑ روپے اور کمپنیوں اور اداروں کے لیے 10 کروڑ روپے کردیا گیا ہے، متعلقہ قوانین کے نفاذ کے لیے ایک قومی ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کی قیادت سیکریٹری خزانہ کریں گے اور دیگر اراکین میں قانون، داخلہ اور خارجہ امور کے سیکریٹری، نیب، ایف بی آر کے چیئرمین اور ایف آئی اے اور اے این ایف کے سربراہان، اسٹیٹ بینک کے نائب گورنر اور ایف ایم یو، آئی ایس آئی، ایف اے ٹی ایف سیل اور فوجی آپریشن کے ڈی جی شامل ہوں گے، اپوزیشن نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنانے کی روایت کے خاتمے کے لیے کمیٹی میں چیئرمین، ایوان کے سربراہان اور اپوزیشن کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے۔

تمام مالیاتی اور غیر بینکاری مالیاتی اداروں کو مشتبہ ٹرانزیکشنز کی رپورٹس (ایس ٹی آر) جاری کرنا ہوں گی اور 5 سال تک تمام لین دین کا ریکارڈ برقرار رکھنے کی ضرورت ہوگی۔

قانون کے تحت منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت پر ایک علیحدہ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، عدم تعاون کرنے والے افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے عملے، ادارے اور کمپنیاں قانون کے تحت سول، مجرمانہ یا محکمانہ کارروائی سے محفوظ رہیں گی۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف بلز نے ایک بار پھر اپوزیشن میں اختلافات ظاہر کردیے

پیپلز پارٹی کے ایک رکن اور سابق وزیر خزانہ سید نوید قمر نے کہا کہ ان کی پارٹی کو اس بل پر شدید اعتراض ہے جو پچھلے اجلاس میں زیر بحث آئے تھے، انہوں نے کہا کہ بہتری کے لیے ان کی سفارشات کو حکومتی بنچوں نے قبول نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ بل میں متعدد قابل اعتراض شقیں موجود ہیں لیکن بدترین مسئلہ اینٹی منی لانڈرنگ بل میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی شمولیت کا تھا، انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی قابل اعتراض ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سزاؤں میں اضافے کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے۔

فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی ڈائریکٹر جنرل لبنیٰ فاروق ملک نے کہا کہ نیب بہت سے جرائم پر دیگر ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور اس وقت اسے بل سے خارج کرنا مشکل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ادارے کو نقصان پہنچتا ہے تو ترمیم کے ذریعے نیب کو خارج کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قانون پر بلیک میل نہیں کیا، ایف اے ٹی ایف پر حکومت کی چوری پکڑی، احسن اقبال

مسلم لیگ (ن) کی ایک رکن ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ مسودہ قانون سے ہراساں کیا جائے گا، ان کی پارٹی کے ساتھی قیصر احمد شیخ نے کہا کہ بل کے ذریعے جن شقوں کی منظوری لی جارہی ہے وہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط نہیں ہیں اور اس کو جلد بازی میں منظور نہیں کیا جانا چاہیے اور اس کے بجائے تاجر برادری سے مشاورت کرکے اس کی پیروی کی جانی چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ اراکین کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اجلاس میں اس بل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا کیونکہ حکومتی اراکین کو بھی مجوزہ قانون پر تحفظات ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی بینچوں کے اراکین جلدی میں ہیں۔

چیئرمین فیض اللہ نے کہا کہ کمیٹی نے اس بل پر (جمعہ کو) سات گھنٹے بات چیت کی ہے اور اس بات چیت کو کارروائی کا حصہ بنا کر ایوان کو رپورٹ کیا جائے گا۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ حکومت نے 7 ماہ تک اس بل کو نہیں اٹھایا اور اب چیئرمین '7 گھنٹے کی بات چیت' کے بارے میں بات کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ممبران دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کے قوانین کے بارے میں ایک رپورٹ چاہتے تھے لیکن انہیں فراہم نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف پرقانون سازی کیلئے نیب قوانین میں ترامیم کی شرط رکھی، وزیر خارجہ

انہوں نے کہا کہ میری نظر میں مجوزہ قانون بین الاقوامی طریقوں کے خلاف ہے اور اس سے سرمایہ کاری میں رکاوٹ آئے گی۔

پیپلز پارٹی کی رکن اور سابق مشیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ اس طرح کے سخت قانون کے نفاذ سے ملک کے لیے پریشانی بڑھ جاتی ہے اور اس وقت اس پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے جب حکومت پہلے ہی سیاسی استحصال کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔


یہ خبر 11اگست 2020 بروز منگل ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔