نقطہ نظر

وہ غلطیاں جن کی وجہ سے انگلینڈ نے پاکستان کے ہاتھوں سے فتح چھین لی

اگر قومی ٹیم یہ میچ جیت جاتی تو شاید کوئی بھی ان کمزوریوں پر بات نہیں کرتا اور تمام کوتاہیاں چھپ جاتیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں 3 ٹیسٹ میچ اور اتنے ہی ٹی20 میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے انگلینڈ کے دورے پر ہے۔ یہ دورہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ کورونا کی عالمی وبا کے تناظر میں قومی ٹیم سیریز کے آغاز سے ایک ماہ قبل ہی انگلستان پہنچ گئی تھی لیکن اس کے باوجود اس بیماری کے سبب عائد پابندیوں کے باعث ٹیم اتنے طویل عرصے میں مقامی ٹیموں کیخلاف کوئی میچ نہیں کھیل سکی۔

3 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل اس سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ مانچسٹر کے مقام پر کھیلا گیا۔ پاکستان کے کپتان اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کرکٹ کی تاریخ میں یہ میچ اس لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس میچ میں پہلی مرتبہ باؤلرز کی جانب سے کی جانے والی فرنٹ فٹ نو باؤلز کا فیصلہ کرنے کا اختیار مکمل طور پر ٹیلی ویژن امپائرز کو سونپ دیا گیا ہے اور انگلینڈ کے باؤلر جیمس اینڈرسن کرکٹ کی تاریخ کے پہلے باؤلر بن گئے جن کی گیند کو ٹیلی ویژن امپائر نے نو بال قرار دیا۔

اس ٹیسٹ میچ میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ میچ میں زیادہ تر وقت پاکستان کا پلڑا بھاری رہا اور جب تیسرے دن کے کھیل کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے حریف ٹیم کو پہلی اننگ میں 219 رنز پر آؤٹ کرکے 107رنز کی برتری حاصل کرلی تو میچ پر پاکستان کی گرفت مضبوط ہوگئی تھی۔

جب پاکستان نے اپنی دوسری اننگ کا آغاز کیا تو اس بات کی قوی امید تھی کہ قومی ٹیم ایک بڑی برتری حاصل کرکے انگینڈ کی جیت کے تمام امکانات ختم کردے گی لیکن ایسا ہو نہیں سکا کیونکہ دوسری اننگ میں قومی ٹیم کے بلے بازوں نے ’تُو چل میں آیا‘ کہ اپنے روایتی انداز میں بیٹنگ کی اور پوری ٹیم چوتھے دن کے آغاز میں ہی 169 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ یوں انگلینڈ کو میچ جیتنے کے لیے 277 رنز کا ہدف ملا۔

ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ نے پُر اعتماد آغاز کیا اور ایک وکٹ کے نقصان پر اسکور کو 86 رنز تک پہنچا دیا۔ اس موقع پر یاسر شاہ نے انگلینڈ کی دوسری وکٹ حاصل کرکے پاکستان کے لیے امید پیدا کی اور پھر باؤلرز نے یکے بعد دیگرے 3 مزید وکٹیں حاصل کرکے فتح کی راہ ہموار کردی، یعنی 117 کے اسکور پر انگلینڈ کے 5 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔

آؤٹ آف فارم جاس بٹلر اور کرس ووکس چھٹی وکٹ کی شراکت کے لیے وکٹ پر موجود تھے اور اس موقع پر قومی ٹیم کی فتح تقریباً یقینی معلوم ہورہی تھی۔ ٹیلی ویژن پر دکھایا جانے ولا ون پریڈکٹر بھی یہ بتا رہا تھا کہ پاکستان کے میچ جیتنے کے امکانات 80 فیصد ہیں۔ بظاہر تو سب کچھ انگلینڈ کے خلاف تھا لیکن ووکس اور بٹلر نے ہمت نہیں ہاری اور 139 رنز کی شاندار شراکت قائم کرکے انگلینڈ کو ایک ناقابلِ یقین فتح دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یوں انگلینڈ نے پہلا ٹیسٹ میچ 3 وکٹوں سے جیت کر سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کرلی۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ایشیا سے باہر کھیلے جانے والے آخری 7 ٹیسٹ میچوں میں یہ پاکستان کی ساتویں شکست ہے، یعنی کسی ایک میچ میں بھی قومی ٹیم کو نہ تو فتح میسر آئی اور نہ وہ کوئی میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوسکی۔

لیکن یہ ساری ناکامیاں صرف خراب کھیل پیش کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئیں، بلکہ اس میں ہماری اپنی غلطیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور اس ٹیسٹ میچ میں بھی شروع سے آخر تک متعدد ایسی غلطیاں اور کمزوریاں دکھائیں دی جو شکست کی وجہ بن گئیں۔

اگر قومی ٹیم یہ میچ جیت جاتی تو شاید کوئی بھی ان کمزوریوں پر بات نہیں کرتا اور تمام کوتاہیاں چھپ جاتیں لیکن اب شکست کے بعد تمام تجزیہ کار اور ناقدین ان عوامل پر بات کر رہے ہیں۔

آئیں ہم بھی ایسے عوامل پر روشنی ڈالیں جو شکست کا باعث بنے۔

ٹیم کا انتخاب

اس میچ کے لیے قومی ٹیم نے 5 بیٹسمینوں کے ساتھ میچ کھیلنے کے فیصلہ کیا۔ چھٹے نمبر پر ایک مستند بیٹسمین کے بجائے شاداب خان جیسے آل راؤنڈر کے ساتھ میچ کھیلنا ایک خطرناک فیصلہ تھا اور اس فیصلہ کا خمیازہ ٹیم کو خاص طور پر دوسری اننگ میں بھگتنا پڑا۔

اس میچ میں شاداب خان نے 2 اننگز میں 60 رنز بنائے اور بطور باؤلر ان کی کارکردگی دیکھی جائے تو انہوں نے پورے میچ میں صرف 11.3 اوورز کروائے، حالانکہ ٹیم انتظامیہ نے شاداب خان کو دوسرے اسپنر کے طور پر کھلانے کی یہ توجیح پیش کی تھی کہ جیسے جیسے میچ آگے بڑھے گا، وکٹ اسپنرز کے لیے سازگار ہوتی چلے جائے گی۔

لیکن ایسا لگتا ہے جیسے یا تو ٹیم انتظامیہ سے وکٹ کو سمجھنے کچھ غلطی ہوئی ہے یا پھر شاداب کو کھلانے کی دوسری وجہ فواد عالم کو ٹیم سے باہر رکھنا ہی ہوسکتی ہے۔

مجھے یاد ہے جب حارث سہیل دورہ انگلینڈ پر ساتھ نہیں تھے تو ہر ایک زبان پر یہ بات عام تھی کہ اس بار فواد عالم کو موقع مل ہی جائے گا، لیکن غیر معمولی طور پر ان کی جگہ شاداب کو جگہ دینا، کم از کم مجھے تو سمجھ نہیں آیا۔

اگر ٹیم کے کرتا دھرتاؤں کو فواد سے کوئی ضد ہے یا ان پر اعتماد نہیں ہے تو 16 کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس سے بہتر تو کسی ایسے کھلاڑی کا انتخاب کرلیا جائے جسے کم از کم یہ امید تو ہو کہ اسے موقع مل بھی سکتا ہے۔

سینئر بیٹسمینوں کی ناکامی

پاکستان کے 2 سینئر بیٹسمین کپتان اظہر علی اور اسد شفیق کو اب اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ بطور سینئر ترین کھلاڑی ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں نئے کھلاڑیوں کے لیے مثال بننا ہوگا۔

اظہر علی نے گزشتہ 2 سالوں میں کھیلے گئے 14 ٹیسٹ میچوں میں صرف 29.40 کی اوسط سے 735 رنز بنائے ہیں جبکہ اسد شقیق نے اس عرصے میں کھیلے گئے 14 ٹیسٹ میچوں میں 37.43 کی اوسط سے رنز بنائے ہیں۔ یہ کارکردگی ہر لحاظ سے غیر تسلی بخش ہے۔

میرا مشورہ تو یہ ہے کہ اگر یہ دونوں سینئر کھلاڑی اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے میں مسلسل ناکام ہورہے ہیں تو بہتر ہے کہ ان میں سے کم از کم کسی ایک کھلاڑی کو ٹیم سے ڈراپ کرکے کسی نئے کھلاڑی کو موقع دیا جائے۔

کپتانی میں جھول

اظہر علی بنیاری طور پر ایک دفائی کپتان ثابت ہورہے ہیں اور ان کی کپتانی میں بھی بہت جھول نظر آرہے ہیں۔ شاداب خان سے پورے میچ میں صرف 11.3 اوورز کروانا اس بات کی نشاندہی ہے کہ شاید وہ تمام باؤلرز کو درست انداز سے استعمال نہیں کر رہے۔

میچ کے چوتھے روز کسی بھی موقع پر یاسر شاہ کی باؤلنگ پر جارحانہ فیلڈ ترتیب نہیں دی گئی۔ باؤلرز کو بھی درست گائیڈ نہیں کیا گیا۔ اگر ٹیسٹ کرکٹ کے فارمیٹ میں اظہر علی پاکستان کو ایک مضبوط ٹیم بنانا چاہتے ہیں تو کپتان کی حیثیت سے انہیں میدان میں آگے بڑھ کر ٹیم کی باگ دوڑ سنبھالنی ہوگی۔

حکمتِ عملی کی ناکامی

قومی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں جن لوگوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مخالف کھلاڑیوں کے کمزور پہلوؤں پر نظر رکھیں، وہ شاید اپنا کام درست انداز سے انجام نہیں دے رہے۔

یہ بات تو سب کو ہی محسوس ہوئی کہ پہلی اننگ میں بٹلر شاٹ پچ گیندوں کو درست انداز میں نہیں کھیل پا رہے تھے لیکن دوسری اننگز میں جس وقت انگلینڈ کی ٹیم دباؤ میں تھی تو حیران کن طور پر پاکستان کے باؤلرز نے شاٹ پچ گیندوں سے اجتناب کرکے بٹلر کے لیے آسانی کردی۔ بٹلر ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو جسم سے دُور آنے والی گیند پسند کرتے ہیں اور دوسری اننگ میں ہمارے باؤلرز نے ایسا کرکے ان کے لیے ماحول کو آسان بنادیا۔

پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے جس طرح شکست کے دہانے پر پہنچنے کے بعد فتح حاصل کی ہے اس سے ان کا حوصلہ بلند ہوگا جبکہ پاکستان کے کھلاڑیوں کے حوصلے پست ہوں گے۔ پاکستان کی ٹیم انتظامیہ پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ 13 اگست سے ساؤتھ ہمپٹن میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے کھلاڑیوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کریں تاکہ کھلاڑی پہلے ٹیسٹ میچ کی شکست کو فراموش کرکے دوسرے ٹیسٹ میں ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ میدان میں اتریں۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔