امریکی رپورٹ میں پاک-بھارت مذاکرات کے امکانات کا جائزہ پیش
واشنگٹن: امریکی ادارہ برائے امن نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ اصرار کہ کشمیر مکمل طور پر اس کا اندرونی معاملہ ہے صرف ’بھاری تعداد میں سیکیورٹی کی موجودگی سے قائم کیا گیا افسانہ ہے‘۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کے فنڈز سے چلنے والے واشنگٹن میں موجود ایک تھنک ٹینک نے کہا کہ نئی دہلی کے دعوے کو سختی سے کشمیریوں میں گزشتہ برس 5 اگست کے بعد سے بڑھتی ہوئی بے چینی سے جانچا جائے گا جب بھارت نے غیر قانونی طور پر خطے کا الحاق کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’نئی دہلی کو اپنا یہ بیانیہ منظم رکھنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوگا کہ آئینی اور سیاسی تبدیلیوں سے کشمیر میں امن کی شروعات ہوگی‘۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کشمیر میں زیادہ تر اشاریے اگست 2019 کے بعد سے تشدد میں اضافہ ظاہر کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دفتر خارجہ
اس مؤقف کہ عدم استحکام کی یہ صورتحال تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنے کی ترغیب دے گی، کے بارے میں رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ 07-2004 میں پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی جانب سے بیک چینل پر مذاکرات کرنے والوں کی تعیناتی کے معاملے پر نئی نظر دوڑائی جائے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کا تجویز کردہ 4 نکاتی فارمولا، جسے بیک چینل مذاکرات سے بہتر بنایا گیا تھا، کشمیر کے تنازع کا بہترین حل ہے۔
اس کے بعد رپورٹ میں چاروں نکات کا جائزہ لے کر دیکھا گیا کہ کیا یہ اب بھی قابل عمل ہیں، جس میں پہلا نکتہ سیلف گورننس یعنی کشمیریوں کی حکومت تھا جس پر مشرف اور من موہن ڈیل میں اتفاق ہوا تھا جس کے لیے علاقائی اور خطے دونوں کی سالمیت اور خصوصی حیثیت ضروری ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کے 5 اگست کے اقدام نے اس آپشن کو ختم کردیا ہے۔
مزید پڑھیں: پاک-بھارت تعلقات: 2019 سفارتی اور عسکری محاذ آرائیوں کا سال
تاہم رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کشمیر سے فوجوں کا انخلا 07-2004 کی ڈیل کا دوسرا اہم نکتہ تھا جس پر اگر پاکستان اور بھارت متفق ہوجائیں تو اس پر عمل درآمد اب بھی ممکن ہے۔
اس کے تحت بھارت کو کشمیریوں کو ’لائن آف کنٹرل پر عسکری سرگرمیاں روکنے کے لیے بھارتی اور پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار نہ اٹھانے پر راضی کرنے کی ضرورت ہے'۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ اس کا آغاز علاقے کے چھوٹے چھوٹے حصوں سے کیا جائے اگر وہ کامیاب ہوجائیں تو فوجوں کے انخلا کو کشمیر کے دیگر حصوں تک توسیع دی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا پاک-بھارت براہ راست مذاکرات پر زور
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ 5 اگست 2019 سے قبل فارمولے سے تیسرے نکتے کے نفاذ کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے تھے جس میں بھارت اور پاکستان اور دونوں اطراف کے کشمیر میں لوگوں اور تجارتی سامان کی آزادانہ نقل و حرکت شامل تھی۔
فروری 2005 میں دونوں اطراف نے اعلان کیا تھا کہ سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان بس سروس چلائی جائے گی جس کا آغاز اس برس اپریل میں ہوا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگست 2019 میں بھارت نے کشمیر کے غیر قانونی الحاق کا اعلان کیا اور ’اب مستقبل میں اس فارمولے پر کوئی مذاکرات شروع ہونا بہت مشکل ہے‘۔