سیاحوں کی نظروں سے اوجھل شیلا کی کوشک تھنگ جھیل
سیاحون کی نظروں سے اوجھل شیلا کی کوشک تھنگ جھیل
سال 2020ء میں کورونا وائرس کے سبب دنیا میں ایسا بھونچال برپا ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے ہر شعبے کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ کاروبار سے لے کر تعلیمی اداروں اور تعمیراتی سیکٹر سے لے کر ٹرانسپورٹ تک، ہر شعبہ ہائے زندگی کو کورونا وائرس کی وجہ سے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔
سیاحت بہت سے ممالک میں ایک اہم صنعت ہے جن میں وطنِ عزیز پاکستان ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اسی لیے جہاں دنیا بھر کے ممالک اس وائرس کے جان لیوا حملے کی وجہ سے سیاحت کے شعبہ میں بہت پیچھے چلے گئے وہیں پاکستان کو بھی رواں سال اس شعبے میں خاطر خواہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن بعض خوش قسمت ایسے بھی تھے جو اس صورتحال میں بھی کسی نہ کسی طرح شمالی پاکستان کی حسین جنتوں میں جا پہنچے۔ کوہِ نوردی کے شوقین مہم جو سیاح پہاڑوں سے زیادہ دُوری برداشت نہیں کرسکتے۔
پہاڑوں کے دیس میں کوہِ نوردی کرنے والے ایک انسان کے لیے اس سے زیادہ مطمئن کرنے والی اور کوئی بات نہیں کہ وہ سال میں ایک مرتبہ مہم جوئی کرلے۔ راقم الحروف بھی انہی خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھا۔
پاکستان کو خداوند کریم نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ گہرے سمندروں سے لے کر بلند و بالا پہاڑوں تک اور صحراؤں سے لے کر وسیع و عریض میدانوں تک ایک خاص تنوع پایا جاتا ہے۔ انہی نعمتوں میں شمالی علاقوں کی حسین جنتیں قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں۔ ان جنتوں کی خوبصورتی جہاں بلند و بالا پہاڑوں اور سر سبز وادیوں کی وجہ سے قائم ہے وہیں بے شمار چھوٹی بڑی جھیلیں بھی اس حُسن کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔
شمالی پاکستان میں موجود گلگت بلتستان کو اگر خوبصورتی کا گڑھ کہا جائے تو بجا ہوگا۔ گلگت بلتستان عرصہ دراز سے سیاحوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کا سیاحتی صدر مقام اسکردو ہے، جہاں سے نکلنے والے راستے شاہ گوری (کے ٹو) جیسے عظیم پہاڑوں کی پاتال تک پہنچتے ہیں۔ اسکردو سے جہاں ان بلند ترین پہاڑوں کی طرف راستے نکلتے ہیں وہیں کئی ایک ایسی جھیلوں کی طرف بھی راہیں جاتی ہیں جو دنیا کی نظروں سے تاحال اوجھل ہیں۔
اسکردو-کارگل روڈ پر 48 کلومیٹر کی مسافت پر ایک گاؤں واقع ہے جو سرمک کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ضلع اسکردو کا آخری گاؤں ہے۔ سرمک بلتی زبان کے 2 الفاظ کا مجموعہ ہے، 'سر' کا مطلب سونا اور ’مک‘ کا مطلب آنکھ ہے۔
یہ ایک خوبصورت گاؤں ہے جو دریائے سندھ کے کنارے صدیوں سے آباد ہے۔ ان علاقوں میں ایران سے آنے والے ایک صوفی بزرگ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی نے اسلام کا پودا لگایا اور یوں بدھ ازم کے پیروکار مشرف بہ سلام ہوئے۔ حضرت ہمدانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ بلتستان میں اسلام کے پہلے مبلغ تھے۔
عام طور پر سیاح سرمک سے صرف 12 کلومیٹر کی دُوری پر منٹھوکھا آبشار کا دیدار کرکے واپسی کی راہ پکڑتے ہیں۔ مگر سرمک سے ایک راستہ شیلا (گاؤں) بھی جاتا ہے جہاں سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ایک خوبصورت جھیل واقع ہے۔ قبل اس کہ ہم آپ کو جھیل کی سیر کروائیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیلا گاؤں کی بابت کچھ معلومات فراہم کردی جائیں تاکہ سیاحوں کو جھیل کی راہ لینے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
شیلا ایک سرسبز اور پُرفضا مقام ہے جہاں ہر سال گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی مقامی لوگ اپنے جانوروں کو سرسبز چراگاہوں اور مزرع گاہوں میں چھوڑ آتے ہیں اور سردیوں کی آمد سے قبل ہی اپنے جانوروں کو واپس لے آتے ہیں۔
شیلا سرمک سے 8 کلومیٹر کی دُوری پر واقع ہے۔ شیلا کی سطح سمندر سے بلندی 12 ہزار فٹ ہے۔ سرمک سے شیلا کے راستے میں کھڑی کھو اور ڈورو جیسے خوبصورت مقامات بھی آتے ہیں۔ سرمک سے ایک گھنٹے میں بذریعہ جیپ آسانی سے شیلا پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ شیلا اور ڈورو چونکہ خاصی اونچائی پر واقع مقامات ہیں لہٰذا یہاں سے کوہِ پیما ٹیمیں high altitude پورٹر حاصل کرتی ہیں جو پاکستان کے فلک بوس پہاڑوں کی راہ لیتے ہیں۔
شیلا گاؤں میں 2 صاف پانی کے نالے بہتے ہیں جن میں سے ایک نالہ حسین آباد (اسکردو) کی طرف سے آتا ہے جبکہ دوسرا نالہ ایک جھیل کا مخرج ہے جس کا نام کوشک تھنگ ہے اور یہی جھیل آج کی سیر کا مرکز ہے۔
شیلا گاؤں تک بذریعہ جیپ اور موٹر سائیکل پہنچا جاسکتا ہے جبکہ کوہِ نوردوں کے لیے بھی یہ ایک آسان راستہ شمار کیا جاسکتا ہے۔ شیلا سے مزید 3 کلومیٹر آگے ریبو کا میدان ہے جہاں پر جولائی کے مہینے میں بھی 2 سے 3 بکروال ہی نظر آتے ہیں۔ ریبو کا میدان چاروں طرف سے سرسبز مخملی گھاس میں لپٹا ہوا ہے۔
مقامی دوست شیخ نبی کی معیت میں جب میں ریبو کے میدان میں پہنچا تو تھوڑی دیر سستا لینا مناسب سمجھا۔ اس وقفے کے دوران بکرے کی کھال میں دیسی انداز سے بنی ہوئی لسی کے گلاس پی کر تازہ دم ہوئے۔
ریبو کا میدان چونکہ شیلا سے بھی 800 سے 900 فٹ کی بلندی پر واقع ہے لہٰذا لسی جیسے اثر انگیز مشروب نے ہمارے جسم کی توانائی دوبارہ بحال کردی۔ ریبو کے میدان سے اندازاً 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک راستہ دیوسائی کی ٹاپ تک جاتا ہے جبکہ بکروال یہیں سے گلتری کی چراگاہوں میں بھی جا نکلتے ہیں۔ ریبو سے ٹریکنگ کا پھر آغاز کیا۔
کوہساروں کے بیچ و بیچ وادی خاصی کشادہ ہے اور ریبو کا نالہ پوری آب و تاب اور تیز رفتاری کے ساتھ وادی کو چیرتا چلا جاتا ہے۔ وادی کی پُراسرار خاموشی خاصی مسحور کن محسوس ہوتی ہے۔
نالے کے ساتھ چلتے چلتے 45 منٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد چند گھرانوں پر مشتمل آخری آبادی پر جا پہنچے۔ یہاں سے کوہسار شرقاً غرباً چلتے ہوئے دیوسائی کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں۔ چند کلومیٹر مزید چلنے کے بعد کوہساروں کا یہ سلسلہ شمال اور جنوب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ گلیشیئرز کو چھوتی تند و تیز ہوا ہمیں یہ پیغام دے رہی تھی کہ ہم دیوسائی کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ کیونکہ دیوسائی کے کوہسار ایک الگ اور منفرد شناخت رکھتے ہیں لہٰذا پہاڑوں کی مٹیالی رنگت سیاہ رنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس طرح پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود بے داغ سفید برف کی چمک آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی۔
کوہساروں کے بیچ راستہ بھٹک جانا جہاں تھکان اور تکلیف میں مزید اضافہ کردیتا ہے وہیں کوہِ نوردوں کے لیے بعض اوقات نئی جگہ کا تعارف حاصل کرنے کا موقع بھی میسر آجاتا ہے۔
ہمارے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے حالات پیش آئے جسے ہم اپنی خوش قسمتی شمار کرتے ہیں۔ ہم غلط سمت نکلتے ہوئے دھونکنی کی مانند چلتے ہوئے سانس کے ساتھ پہاڑ چڑھتے چڑھتے ٹاپ پر جا پہنچے لیکن جھیل تاحال ہماری نظروں سے اوجھل ہی رہی۔ جھیل تو خیر نظر نہ آئی مگر ٹاپ پر پہنچتے ہی ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ ہمارے سامنے سدپارہ ڈیم کا منظر سامنے آگیا جو کوسوں دُور مگر دلکشی میں اپنی مثال آپ ہی تھا۔
اونچائی پر سانس لینا قدرے مشکل ہورہا تھا اور حیرت کی بات یہ کہ قدرے گرم شمارے ہونے والے جولائی کے مہینے میں بھی انتہائی ٹھنڈک کا احساس غالب تھا۔ ہوتا بھی کیوں نہیں؟ ہمارے قرب میں ہی دیوسائی کے پہاڑ اپنے اوپر ہلکی سفید چادر اوڑھے سر اٹھائے کھڑے تھے۔
کچھ دیر اس حسین اور دلفریب منظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد نیچے اترنا شروع کیا۔ ٹاپ سے جنوب کی جانب کچھ دیر چلنے کے بعد دُور نیچے ایک جھیل کی جھلک نظر آئی۔ بھٹکتے ہوئے کوہِ نوردوں کے لیے جھیل کی پہلی جھلک کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ جھیل کو دیکھتے ہی ہماری طبعیت میں سکون اور خوشی کی لہر دوڑتی چلی گئی۔ منزل اب سامنے تھی۔
جھیل کی جانب بڑھنا شروع کیا اور جوں جوں جھیل قریب آتی گئی ویسے ہی اس کا نیلگوں پانی ہماری تھکان کو لمحہ بہ لمحہ کم کرنے لگا۔ مسلسل ایک گھنٹے سے زائد اترائی کے بعد ہم کوشک تھنگ جھیل کے کنارے پر اتر چکے تھے۔ جھیل کے سبز مائل نیلگوں پانی نے اپنے مہمانوں کا مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔
ہوا کی لہروں سے جھیل کے پانی میں ایک دلفریب ارتعاش پیدا ہورہا تھا جیسے جھیل ان دُور دراز وادیوں کے بیچوں بیچ آزادی سے سانس لے رہی ہو۔ جھیل 3 اطراف سے بلند پہاڑوں کے حصار میں گھری ہوئی تھی جبکہ چوتھی سمت میں بلند گھاس میں مستور ڈھلوان اس کے حُسن میں اضافہ کررہی تھی۔
بیضوی شکل میں موجود اس خوبصورت جھیل کی لمبائی گوگل میپ کے مطابق 350 میٹر اور 250 میٹر رقبے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
کوشک تھنگ جھیل ٹراؤٹ مچھلیوں کا مسکن ہے۔ جھیل کے پانی کے ساتھ یہ مچھلیاں نالے کے بیچ تیرتی ہوئی بالآخر دریائے سندھ میں جا پہنچتی ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ جھیل دیوسائی کی 2 درجن سے زائد جھیلوں میں سے ایک ہے۔ جھیل کی بلندی کم و بیش 14 ہزار 400 فٹ ہے۔ سورج کی کرنیں اور جھیل کا نیلگوں پانی اور پانی پر چلتی تیز ہوا کے جھونکے اور ان جھونکوں سے پیدا ہوتی لہروں سے جھیل کے پانی پر ارتعاش، ضبط تحریر میں لانے کے لیے مجھ جیسا کم علم شخص قادر نہیں۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔