’مجھے میرے پورے کورس میں انعامی رقوم اور ہوم ٹیوشن سےمدد ملتی رہی۔ یعنی میں نے صرف شوق ہی نہیں پالا بلکہ اس کیلئے محنت بھی کی ہے۔‘
حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا اور قدیم شہر ہے۔ اس شہر کی اپنی الگ ثقافت اور اپنا ایک رنگ ہے۔ یوں تو اس شہر میں کئی اہم کاروباری مراکز ہیں مگر یہاں گھروں میں بھی لوگ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے مختلف کام کررہے ہوتے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔
24 سالہ خوشی حسین حیدرآباد سے تعلق رکھتی ہیں۔ خوشی اگرچہ کم عمر سہی لیکن ان میں اپنے فن میں کمال حاصل کرنے کی لگن بھی ہے اور کام کو نکھارنے کی جستجو بھی۔ خوشی کا تعلق شعبہ آرٹ اینڈ ڈیزائن سے ہے اور وہ اپنے آرٹ اسٹوڈیو کے ساتھ ایک آرٹ شاپ بھی چلارہی ہیں۔
ایکسلینس سینٹر آف آرٹ اینڈ ڈیزائین، مہران یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والی خوشی سمجھتی ہیں کہ وژؤل آرٹ دراصل اپنا پیغام اور سوچ کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے سادہ سے سادہ اور مشکل ترین مسئلہ بھی ایک تصویر سے اجاگر کیا جاسکتا ہے۔
ہنستی مسکراتی اور پُرعزم خوشی بتاتی ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ معاشرے کے استحکام، رواداری اور ترقی صرف و صرف تعلیم اور امن سے جڑی ہوئی ہے اور میری شروع سے ہی کوشش رہی ہے کہ میرا کام انہی بنیادوں پر ہو کہ جہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ سوچ اور فکر بھی ہو۔ انداز سادہ اور عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والا ہو‘۔
خوشی اپنے کام سے متعلق بتاتی ہیں کہ انہیں خود کو ثابت کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی ہے۔ وہ اپنی مسلسل کوشش کی کہانی کچھ اس طرح سناتی ہیں کہ انہیں بچپن سے ہی رنگوں اور برش سے کھیلنا اچھا لگتا تھا اور لڑکپن میں انہیں تھری ڈی بنانے میں زیادہ مزہ آتا تھا۔ یہی شوق مجسمہ سازی میں کام آیا۔ خوشی سمجھتی ہیں کہ یہ شوق انہیں اپنے ننھیال سے ملا کیونکہ ان کے پَرنانا لکڑی کے بہترین کاریگر تھے اور انہوں نے ٹھٹہ کی شاہ جہانی مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔
اپنے خاندان کی پہلی فن کارہ، خوشی اپنے شوق اور لگن کو صرف اور صرف محنت سے جیت پائی ہیں۔ وہ اس بارے میں بتاتی ہیں کہ ’ہم ایک بڑے کنبے اور متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارا تعلق بنیادی طور پر سندھ کے شہر ڈھرکی سے ہے۔ میرے والد اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے جو اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے حیدرآباد منتقل ہوئے۔ میری بڑی بہن خاندان کی پہلی لڑکی تھیں، جو کالج پہنچیں۔ آج بھی خاندان کے کچھ لوگوں کو فکر ہے کہ لڑکیاں پڑھ کیوں رہی ہیں؟ لیکن مجھے، بس یہ پتا ہے کہ جب آپ ہمت کرتے ہیں تو آپ کے لیے راستے خود بخود کھلتے جاتے ہیں‘۔
انہوں نے آرٹ کے شعبہ کو بحیثیت پیشہ اختیار کیا۔ کیا اس حوالے سے انہیں خاندان کے دباؤ کا سامنا رہا؟
مزید کے لیے کلک کریں خوشی حسین اور ان کا آرٹ اسٹوڈیو/شاپ
اس بارے میں خوشی کہتی ہیں کہ ’بہت زیادہ تو نہیں لیکن سب نے ہی ایک بار مجھے سمجھانے کی اپنی ذمہ داری ضرور نبھائی۔ مجھے کہا گیا کہ دیکھ لو، اس میں اسکوپ نہیں لیکن مجھے یہ نہیں کہا گیا کہ لڑکی ہوکر مجسمے بناؤ گی؟ اور نہ ہی یہ مشورہ دیا گیا کہ ٹیچر بن جاؤ۔ میرے ابّا چاہتے تھے کہ ہم بہنیں خوب پڑھیں اور نوکری کریں یعنی معاشرے کا متحرک فرد بنیں۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں ایم بی اے کروں لیکن پھر وہ بھی سمجھ گئے کہ میں صرف آرٹ ہی کرسکتی ہوں۔ یہی میرا شوق ہے یہ ہی میرا جنون‘۔
پُرجوش خوشی نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا کہ 'یقیناً فائن آرٹ کوئی سستا شعبہ نہیں ہے اور اسے جاری رکھنے کے لیے کافی رقم درکار ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کے میرے والد میری مدد کرسکتے ہیں لیکن میں نے کوشش کی کہ میں اپنی فیس اپنے فاؤنڈیشن ایئر سے ہی خود ادا کروں۔ کبھی مجھے اسکالرشپ ملی اور کبھی میں نے اسکول پروجیکٹ کیے۔ خاص کر اپنے فائنل تھیسز کے لیے مجھے رقم چاہیے تھی جس کے لیے میں نے مقابلے میں حصہ لیا اور انعامی رقم جیتی۔ اصل میں مہران یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ ’انوویٹو اینڈ انٹرپرنیور‘ نے طلبا کے درمیان فائنل تھیسیز کے لیے مقابلے کا اعلان کیا تھا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ متحرک طلبا کا کام معاشی تنگدستی کی وجہ سے تعطل کا شکار نہ ہوجائے۔ اس حوالے سے یہ طے کیا گیا کہ جس کا پروجیکٹ آئیڈیا سب سے اچھا ہوگا اسے فائنل تھیسیز کے لیے ایک لاکھ روپے تک کی انعامی رقم دی جائے گی اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ مقابلہ میں نے جیتا۔ میرے تھیسز کا آئیڈیا ’تھری ڈی وائر، لکڑی اور سرامکس‘ پر مشتمل تھا۔ سچ کہوں تو مجھے میرے پورے کورس میں انعامی رقوم اور ہوم ٹیوشن سے کافی مدد ملتی رہی۔ یعنی میں نے صرف شوق ہی نہیں پالا بلکہ اس کے لیے محنت بھی کی ہے‘۔
انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ‘ہاں یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کئی بار میں مایوس ہوئی، دشواریاں بھی آئیں، منفی باتیں کرنا اور ہمت توڑنا تو ہمارے ہاں عام سی بات ہے، مگر اب ان سے نکلنا سیکھ لیا ہے کیونکہ اپنے پیروں پر کھڑا تو ہونا ہی ہے۔ بنیادی مسئلہ اس رائج فرسودہ خیال کا ہے کہ عورت کچھ نہیں کرسکتی یا اسے کچھ کرنے کا حق نہیں۔ شروع شروع میں مجھے بھی سننے کو ملتا کہ بھئی، یہ لڑکی ہے، یہ کچھ نہیں کرسکتی۔ انہی جملوں نے سمجھایا کہ مجھے کچھ بننا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ میں لڑکی ہونے کے باوجود سب کرسکتی ہوں‘۔
خوشی بتاتی ہیں کہ ‘میں نے چاروں میڈیم یعنی منی ایچر، پینٹنگ، پرنٹ میکنگ اور اسکلپچر (مجسمہ سازی) میں کام کیا ہے۔ میں نے گریجویشن شعبہ مجسمہ سازی میں کیا۔ چونکہ یہ مشکل موضوع ہے اور زیادہ وقت لینے کے ساتھ ساتھ زیادہ محنت کا بھی متقاضی ہے اس لیے اس شعبے میں لڑکے بھی کم ہی آتے ہیں۔ میرے سب کلاس فیلوز نے پینٹنگ یا منی ایچر پنٹنگ سیکھی۔ میں اپنی کلاس کی واحد لڑکی تھی، جو مجسمہ سازی [اسکلپچر] سیکھنا چاہتی تھی۔ مجھے میرے دوستوں نے ہی نہیں بلکہ کلاس ٹیچر نے بھی روکا، اور کہا کہ تم لڑکی ہو، تم کیسے کرپاؤ گی؟ میں جب نہیں مانی تو کہا گیا کہ اچھا اپنے ساتھ کسی لڑکے کو بھی راضی کرلو، اب کیا صرف ایک لڑکی کے لیے کلاس رکھیں؟
’مگر میرا کوئی کلاس فیلو تیار نہیں ہوا مگر میں بھی ڈٹی رہی۔ یہاں تک کہ ہمارے شعبے کے سربراہ نے بھی کہا کہ یہ بولڈ فیصلہ ہے لیکن میں طے کرچکی تھی کہ مجھے یہی کرنا ہے۔ مجھے ڈرانے کے لیے کہا گیا کہ آپ کو ویلڈنگ، وِڈ کارونگ بھی کرنا پڑے گی۔ بڑے بڑے مجسمے بنانے ہوں گے۔ میں نے کہا آپ کیوں لڑکیوں کو کمزور سمجھتے ہیں؟ میں یہ کام کروں گی کیونکہ مجھے شوق ہے۔ آج دیکھ لیجیے کہ میں مجسمہ سازی میں مختلف اور مشکل میڈیم استعمال کر رہی ہوں، جیسے اسٹون کارونگ، ویلڈنگ اور وِڈ کارونگ۔
’میں خود اپنا سامان لے کر آتی ہوں۔ میں نے اب تک سب سے بڑا پروجیکٹ یوسف بشیر قریشی کے ساتھ کیا ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ مکلی قبرستان کا کام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ جس کے لیے ہم نے ایک ملٹی فنکشنل مینار کا پروجیکٹ ڈئزائن کیا، جسے سرامکس میڈیم میں بنایا گیا۔ اس پر ابھری ہوئی قرآنی آیات کی خطاطی بھی کی گئی تھی۔ مینار کے درمیانی حصے پر ایک دیا بھی روشن کیا گیا اور اس کے نچلے حصے پر ایک ساؤنڈ سسٹم بھی تھا۔ یقیناً مٹی پر ان تینوں سسٹم کو ایک ہی پروجیکٹ میں یکجا کرنا مشکل سبجیکٹ تھا لیکن اس پروجیکٹ کے حوالے سے مجھے لوگوں سے بہت تعریف سننے کو ملی‘۔
خوشی ایک بزنس انٹرپرنیور بھی ہیں۔ اپنے کاروباری پروجیکٹ کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’میں نے مہران یونیورسٹی کے انوویشن، انٹرپرنیورشپ سینٹر کو 'آرٹ شاپ' کا آئیڈیا پیش کیا جو منظور کرلیا گیا اور مجھے رقم جاری کردی گئی۔ جامشورو اور آس پاس کے علاقوں کو چھوڑیں، ہمارے اپنے شہر حیدرآباد میں بھی آرٹ کی صرف ایک دکان ہے اور اکثر آرٹسٹ کمیونٹی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ آرٹ کے سامان کا برقت نہ ملنا ہے۔ حیدرآباد میں یہ سارا سامان کراچی یا لاہور سے آتا ہے۔ ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے میں نے آرٹ کے سامان کی دکان کھولنے کا خیال پیش کیا جو کافی پسند کیا گیا‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ ‘یہاں صوبے کی 3 ایسی بڑی یونیورسٹیاں ہیں جہاں آرٹ پڑھایا جا رہا ہے یعنی آرٹ کو فروغ دیا جارہا ہے لیکن آرٹ کا سامان آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔ جیسے پرنٹنگ کے لیے ہمیں پلیٹیں ایک جگہ سے منگوانی پڑتی ہیں تو روشنائی دوسری جگہ سے، جبکہ پرنٹنگ کے لیے فیبرک، فریم، پینٹس، اسٹکس، کینوس الگ الگ جگہ سے ملتے ہیں۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ ایک ایسا ٹھکانہ ہو، جہاں سب سامان سہولت سے مل جائے۔ میری 'آرٹ پوائنٹ شاپ' حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں ہے‘۔
خوشی سمجھتی ہیں کہ مہران یونیورسٹی کا انٹرپرنیور سینٹر نوجوانوں کے لیے بہت اچھا اقدام ہے کیونکہ اگر انہیں اسکالرشپ یا انعامی رقوم نہ ملتیں، تو وہ اپنی ڈگری شاید مکمل نہیں کرپاتیں۔ نوجوانوں کے لیے ایسے اقدامات اور سپورٹ پروگرام ہونے چاہئیں۔
وہ بڑے ہی اعتماد کے ساتھ کہتی ہیں کہ ’آج میں نے ثابت کردیا ہے کہ مجھ میں اتنی قابلیت ہے کہ میں اپنا خرچ خود اٹھا سکتی ہوں۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ جب معاشرے میں نوجوانوں کو موقع فراہم کیا جائے گا تو وہ ضرور اچھا نتیجہ اخذ کرکے دیں گے۔ ساتھ ہی اپنے بڑوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی بیٹیوں کو پڑھائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ وہ اپنی ہی نہیں بلکہ آپ کی زندگی بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘۔
خوشی عوامی انداز میں کام کرنا پسند کرتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک تھیم پروجیکٹ پر کام کیا ہے جسے 'امن تھرو آرٹ' کا نام دیا گیا۔ انہیں امن کا پیغام عوام تک پہنچانا تھا، جس کے لیے انہوں نے رکشوں اور ٹرک کو پینٹ کرنے کا سوچا کیونکہ امن کے پیغام کو لوگوں تک پہچانے کا اس سے بڑھ کر براہِ راست ذریعہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ سوچ یہی تھی کہ سڑک پر گزرتی ان سواریوں پر چڑھتے اور اترتے جتنے زیادہ افراد یہ دیکھیں گے امن کا پیغام بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلے گا۔
خوشی نے بتایا کہ ’ہماری سب سے پسندیدہ لائنز 'حیدرآباد سے کراچی، امن کی ڈاچی'، 'سب سے اونچا، امن کا جھنڈا' اور 'سندھ کا سماج، امن کا راج' رہا۔ اس کے ساتھ ہم نے کچھ ٹرک آرٹ اور کچھ فلور ڈیزائن بھی بنائے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں اپنے سماج میں امن کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہم ایک دوسرے کو نہیں سمجھتے اس لیے غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے سوچا کہ سب لوگ، ان پیغامات کو دیکھیں، پڑھیں، سمجھیں اور اس پر باتیں کریں، یوں امن اور پیار کی بات ہو‘۔
خوشی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’معاشرے میں موجود ذہنی انتشار کو آرٹ کے ذریعے دُور کیا جاسکتا ہے۔ منفی چیزوں کو خوش کن، رنگوں سے بھرا جاسکتا ہے۔ ہمیں نئی سوچ اور نئے خیالات کو پیدا کرنا ہوگا۔ ہماری تقریباً 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور انہی کو ملک سنبھالنا ہے۔ بیرونِ ممالک آرٹ ہر سطح پر نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر، پارکوں میں، راہ چلتے کہیں بھی۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم بھی آرٹ سے پیار کرنے والے بنیں۔ آرٹ کو فروغ دیں تاکہ اگلی نسل کو ایک بہتر فنکارانہ لیگیسی منتقل ہوسکے‘۔
شیما صدیقی
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔